Dure-Mansoor - Al-An'aam : 201
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اتَّقَوْا : ڈرتے ہیں اِذَا : جب مَسَّهُمْ : انہیں چھوتا ہے (پہنچتا ہے طٰٓئِفٌ : کوئی گزرنے والا (وسوسہ) مِّنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان تَذَكَّرُوْا : وہ یاد کرتے ہیں فَاِذَا : تو فوراً هُمْ : وہ مُّبْصِرُوْنَ : دیکھ لیتے ہیں
بلاشبہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی خطرہ پہنچ جاتا ہے تو وہ ذکر میں لگ جاتے ہیں۔ سو اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں
(1) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” ان الذین اتقوا “ سے مراد ہیں ایمان والے لوگ۔ (2) امام ابن ابی شیبہ عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا نے ذم الغضب میں، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اذ مسھم طئف من الشیطن “ سے مراد ہے غصہ۔ (3) امام عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے یوں پڑھا لفظ آیت ” اذا مستھم طیف من الشیطن من طائف “ الف کے ساتھ پڑھا ہے (پھر فرمایا) ” تذکروا “ یعنی کہ وہ برائی کا ارادہ کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا۔ (5) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” اذا مسھم طئف من الشیطن تذکروا “ کے بارے میں فرمایا کہ جب وہ کوئی لغزش کرتے ہیں تو (پھر) توبہ کرلیتے ہیں۔ گناہ کے بعد توبہ سے گناہ معاف ہوجاتا ہے (6) امام بیہقی نے شعب الایمان میں وہب بن جریر (رح) سے روایت کیا وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حسن کے پاس بیٹھا ہوا تھا اچانک ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا اے ابو سعید اس بندہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جو گناہ کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے۔ فرمایا وہ اس توبہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب اس نے پھر عرض کیا (اگر) پھر وہ اپنے گناہ میں لوٹ آئے پھر توبہ کرے ! فرمایا اس توبہ کے ذریعہ اس نے اللہ کے نزدیک عزت میں اضافہ کرلیا۔ راوی نے کہا کہ انہوں نے مجھ سے فرمایا کیا تو نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا میں نے عرض کیا آپ ﷺ نے کیا فرمایا ؟ فرمایا مؤمن کی مثال ایک خوشہ کی مثال ہے جو کبھی جھکتا ہے اور کبھی سیدھا کھڑا ہوجاتا ہے اور اس صورت میں تکبر ہوتا ہے جب اس کے مالک نے اسے کاٹ دیا تو اس نے اپنے عمل کو قابل تعریف بنا لیا جیسا کہ خوشہ کا مالک اپنی گندم کے لائق ہوگیا۔ پھر (یہ آیت) پڑھی ” ان الذین اتقوا اذا مسھم طئف من الشیطن تذکروا فاذاھم مبصرون “۔ (7) امام ابو الشیخ نے محمد بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندے کا نام کافر نہیں رکھا پھر آپ نے پڑھا لفظ آیت ” ان الذین اتقوا اذا مسھم طئف من الشیطن تذکروا “ پھر فرمایا عبد اللہ کا نام کافر نہیں رکھا لیکن بلکہ اس کا نام متقی رکھا۔ (8) امام ابن مردویہ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یوں پڑھتے ہوئے سنا ” اذا مستھم طئف “ الف کے ساتھ۔ (9) امام عبد بن حمید نے اعمش سے اور انہوں نے ابراہیم ویحییٰ بن وثاب (رح) سے روایت کیا کہ دونوں میں سے ایک نے پڑھا ” طائف “ اور دوسرے نے پڑھا ” طئف “ (10) امام عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے یوں پڑھا ” اذ مستھم طئف “ الف کے ساتھ۔ (11) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ ” الطائف “ سے مراد شیطان کی جانب سے آنے والا وسوسہ ہے لفظ آیت ” تذکروا فاذا ھم مبصرون “ یعنی جب وہ لوگوں سے باز آجاتے ہیں اور مضبوطی سے پکڑتے ہیں اللہ کے حکم کو اور وہ شیطان اور ان کے بھائیوں کی نافرمانی کرتے ہیں فرمایا شیطان کے بھائی لفظ آیت ” یمدوھم فی الغی ثم لا یقصرون “ یعنی شیطان کے بھائی ان کو گمراہی میں کھینچ لے جاتے ہیں اور پھر ان کو گمراہ کرتے ہیں کوتاہی نہیں کرتے۔ ” واذا لم تاتیھم بایۃ قالوا لولا اجتبیتھا “ اے محبوب جب تم ان کے پاس کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ ہم نے خود ہی اسے کیوں نہیں بنا لیا تم نے خود ہی اسے کیوں نہیں گھڑ لیا اور اسے بنا لیا۔ شیطان گمراہی کی دعوت دیتا ہے (12) امام ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یمدونھم فی الغی “ سے وہ جنات مراد ہیں جو انسانوں میں سے اپنے دوستوں کی طرف بات کو دل میں ڈالتے ہیں ” ثم لا یقصرون “ پھر ان سے فخر میں مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ ” واذا لم تاتہم بایۃ قالوا لولا اجتبیتھا “ جب تم ان کے پاس کوئی آیت نہیں لاتے تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنی جانب سے ہی کیوں نہ بنالی۔ (13) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واخوانھم یمدونھم فی الغی “ یعنی ان کو جاہل و بیوقوف سمجھتے ہوئے گمراہی میں بھی اور فرمایا ” لولا اجتبیتھا “ یعنی تو نے اس کو خود ہی کیوں نہ بنالیا۔ (14) امام حکیم ترمذی نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور میں نے آپ کا چہرہ مبارک پر غم کو پہچان لیا۔ آپ نے میری داڑھی کو پکڑ کر فرمایا ” انا للہ وانا الیہ رجعون “ میرے پاس جبرئیل تشریف لائے ابھی ابھی اور فرمایا ” اناللہ وانا الیہ راجعون “ میں نے کہا ہاں۔ ” فاناللہ وانا الیہ رجعون “ پوچھا اے جبرائیل یہ کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا آپ کی امت فتنہ میں مبتلا ہونے والی ہے آپ کے بعد تھوڑی مدت میں جو زیادہ نہیں ہوگی میں نے پوچھا کفر کا فتنہ یا گمراہی کا فتنہ ؟ جبرائیل نے فرمایا ہر ایک ان میں سے عنقریب ہونے والا ہے میں نے کہا وہ کہاں سے ہوگا۔ حالانکہ میں ان میں اللہ کی کتاب کو چھوڑنے والا ہوں۔ جبرائیل نے فرمایا اللہ کی کتاب کے ساتھ وہ گمراہ ہوجائیں گے۔ اور یہ پہلے ان کے قراء میں ہوگا اور ان کے امراء میں سے ہوگا اور لوگوں کو ان کے حقوق سے روکیں گے اور اس کو نہ دیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں گے اور قرا اوامراء کی خواہشات کی تابعداری کریں گے اور ان کی گمراہی میں کھینچیں گے۔ پھر وہ ان کو گمراہ کرنے میں کوتاہی کریں گے میں نے کہا اے جبرائیل جو ان میں محفوظ رہنا چاہے وہ کس طرح بچ سکے گا۔ انہوں نے فرمایا رکنے اور صبر کرنے کے ساتھ اگر ان کو کچھ دے دیں تو ان سے لے لو اور وہ اسے روک لیں تو اس کو چھوڑ دو ۔ (15) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” قل انما اتبع ما یوحی الی من ربی “ کے بارے میں فرمایا کہ میں تو اسی قرآن کی اتباع کرتا ہوں جو میری طرف میرے رب کی جانب سے وحی لے جاتا ہے۔ یعنی یہ روشن دلائل میں تمہارے رب کی طرف سے پس تم ان کو سمجھو ” وھدی ورحمۃ “ (اور یہ ہدایت ہے اور رحمت ہے) اس شخص کے لئے جو اس پر ایمان لائے اور اس پر عمل کرے پھر اسی (ایمان) پر مرجائے۔
Top