Madarik-ut-Tanzil - At-Tur : 201
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اتَّقَوْا : ڈرتے ہیں اِذَا : جب مَسَّهُمْ : انہیں چھوتا ہے (پہنچتا ہے طٰٓئِفٌ : کوئی گزرنے والا (وسوسہ) مِّنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان تَذَكَّرُوْا : وہ یاد کرتے ہیں فَاِذَا : تو فوراً هُمْ : وہ مُّبْصِرُوْنَ : دیکھ لیتے ہیں
جو لوگ پرہیزگار ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور (دل کی آنکھیں کھول کر) دیکھنے لگتے ہیں۔
متقین کا وسوسہ میں طریق : آیت 201: اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰٓپفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ (یقینا جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں جب ان کو کوئی شیطانی وسوسہ آجاتا ہے) قراءت : طَیْف مکی بصری، علی نے پڑھا۔ طائف کا معنی لمّہ، وسوسہ، اثر۔ یہ طاف بہ الخیال یطیف طیفا سے اس میں ایک تصویر خیالی آگئی۔ بقول ابو عمرو یہ دونوں ایک ہیں اور یہ وسوسہ ہے یہ دراصل اس کی تاکید ہے۔ جو اس سے قبل شیطان سے استعاذہ کو لازم قرار دیا گیا۔ جبکہ وہ کچو کا لگائے۔ متقین کی عادت ہے کہ جب ان کو معمولی سا شیطانی وسوسہ آتا ہے۔ یا آنے لگتا ہے۔ تَذَکَّرُوْا (وہ یاد میں لگ جاتے ہیں) اس کو یاد کرلیتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق حکم دیا۔ اور جس سے روکا۔ فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ (پس یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں) اسی وقت وہ سیدھا راستہ دیکھ لیتے ہیں۔ اور اپنے وسوسے کو دور کرلیتے ہیں۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ شیطان سے اللہ تعالیٰ کی طرف بھاگتے ہیں تو ان کی بصیرت اللہ تعالیٰ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑھا دی جاتی ہے۔
Top