Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 201
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اتَّقَوْا : ڈرتے ہیں اِذَا : جب مَسَّهُمْ : انہیں چھوتا ہے (پہنچتا ہے طٰٓئِفٌ : کوئی گزرنے والا (وسوسہ) مِّنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان تَذَكَّرُوْا : وہ یاد کرتے ہیں فَاِذَا : تو فوراً هُمْ : وہ مُّبْصِرُوْنَ : دیکھ لیتے ہیں
جو لوگ پرہیزگار ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور (دل کی آنکھیں کھول کر) دیکھنے لگتے ہیں۔
(7:201) مسھم۔ من یمس (باب نصر) ماضی واحد مذکر غائب۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ وہ ان کو چھوجائے۔ وہ ان کو پہنچائے۔ وہ ان کو الگ جائے۔ کبھی اس سے مراد قربت صنفی (جماع) بھی ہوتی ہے۔ مثلاً وان طلقتموھن من قبل ان تمسوہن (2:237) اور اگر تم عورتوں کو ان سے مجامعت سے پہلے طلاق دیدو۔ لازم اور متعدی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ طئف۔ وسوسہ۔ خطرہ ۔ پھرجانے والا۔ پھیرے جانے والا۔ پہلے معنی مجازی ہیں۔ اور دوسرے حقیقی طئف طوف سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ طوف کے معنی کسی چیز کے گرد چکر کاٹنا۔ قرآن میں ہے ۔ فلا جناھ علیہ ان یطوف بھما (2:158) اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے (اسی طرح خانہ کعبہ کے گرد چکر کاٹنے کو طواف کہتے ہیں ) اسی طرح جو شخص گھروں کے گرد اگر حفاظت کے لئے چکر لگاتا رہتا ہے اسے طائف کہتے ہیں۔ اور اسی سے جن، خیال ، حادثہ وغیرہ کو بطور استعارہ طائف بولتے ہیں ۔ جیسا کہ آیت ہذا میں ہے اذا مسہم طئف من الشیطن۔ جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے یا جہاں پڑگیا ان پر شیطان کا گزر۔ یعنی جو شیطان انسان پر چکر کاٹتا رہتا ہے اور اس کو شکار کرنا چاہتا ہے اس کا وسوسہ اور خطرہ اثر کر گیا۔ اور فطاف علیہم طئف من ربک (68:19) پھر پھیرا کر گیا اس پر کوئی پھیرا کرنے والا ۔ تیرے رب کی طرف سے۔ یعنی اس پر آفت پھر گئی۔ تذکروا۔ تذکر (باب تفعل) سے ماضی جمع مذکر غائب ۔ وہ چونک گئے۔ انہوں نے یاد کیا۔ (ما امر اللہ بہ ونہی ونہ جس کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہوا تھا اور جس سے اس نے منع فرمایا ہوا تھا) یا وہ پاگئے۔ سمجھ گئے۔ شیطان کے وسوسہ کو اور اس کی چال کو۔ مبصرون (تو فورا) ان کی آنکھیں کھل گئیں ۔ وہ حقیقت کو جان گئے۔
Top