Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 25
وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو تم فِتْنَةً : وہ فتنہ لَّا تُصِيْبَنَّ : نہ پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا مِنْكُمْ : تم میں سے خَآصَّةً : خاص طور پر وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : شدید الْعِقَابِ : عذاب
اور ڈرتے رہو اس وبال سے جو خاص انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں،38 ۔ اور جانے رہو کہ بیشک اللہ سخت ہے سزا دینے میں
38 ۔ (بلکہ ان گنہگاروں کے علاوہ ان لوگوں پر بھی اس کا وبال پڑے گا۔ جنہوں نے باوجود کسی حد تک قدرت رکھنے کے ان گناہوں کو روکنے کی کوشش نہ کی، اور خود بھی اس طرح جرم مداہنت کے مرتکب ہوئے یا شریک جرم رہے) اسلام امت کو جس بلند معیار پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے افراد کا زمرۂ صالحین میں ہونا کافی نہیں، بلکہ ہر فرد بشر کا بہ قدر اپنی وسعت و بساط کے مصلح ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لیے جرم ومجرم سے مداہنت اسلام کے اندر خود ایک جرم ہے۔” جس طرح اپنی اصلاح کے متعلق طاعت واجب ہے، اسی طرح یہ بھی طاعت واجبہ میں داخل ہے کہ بہ قدر وسع دوسروں کی اصلاح میں بہ طریق امر بالمعروف ونہی عن المنکر بالید یا باللسان یا ترک اختلاط یا نفرت بالقلب جو کہ آخری درجہ ہے۔ کوشش کرو ورنہ در صورت مداہنت ان منکروں کا وبال جیسا مرتکبین منکرات پر واقع ہوگا۔ ایسا ہی کسی درجہ میں مداہنت کرنے والوں پر بھی واقع ہوگا۔ “ (تھانوی (رح)
Top