Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 201
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اتَّقَوْا : ڈرتے ہیں اِذَا : جب مَسَّهُمْ : انہیں چھوتا ہے (پہنچتا ہے طٰٓئِفٌ : کوئی گزرنے والا (وسوسہ) مِّنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان تَذَكَّرُوْا : وہ یاد کرتے ہیں فَاِذَا : تو فوراً هُمْ : وہ مُّبْصِرُوْنَ : دیکھ لیتے ہیں
جو لوگ پرہیزگار ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور (دل کی آنکھیں کھول کر) دیکھنے لگتے ہیں۔
اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : 1 قولہ تعالیٰ : آیت : ان الذین اتقوا (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 492) مراد شرک اور گناہ ہیں ( یعنی وہ لوگ جو شرک اور گناہوں کے ارتکاب سے مجتنب رہے ہیں) آیت : اذا مسھم طئف من الشیطن یہ اہل بصرہ اور اہل مکہ کی قراءت ہے۔ اور اہل مدینہ اور اہل کوفہ کی قراءت طائف ہے۔ اور حضرت سعید بن جبیر سے طیف یاء کی تشدید کے ساتھ مروی ہے۔ نحاس نے کہا ہے : اس کے مثل میں کلام عرب طیف تخفیف کے ساتھ ہے، اس بنا پر کہ یہ طاف یطیف کا مصدر ہے۔ کسائی نے کہا ہے : یہ طیف سے مخفف ہے جیسا کہ میت اور میت ہے۔ نحاس نے کہا ہے : لغت میں طیف کا معنی وہ وہم اور خیال ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے یا نیند کی حالت میں دیکھا جاتا ہے اور اسی طرح طائف کا معنی بھی ہے۔ اور ابو حاتم نے کہا ہے : میں نے اصمعی سے طیف کے بارے پوچھا، تو اس نے کہا : مصادر میں فیعل کا وزن نہیں ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ مصدر نہیں ہے، لیکن طائف کے معنی میں ہوتا ہے۔ اور معنی یہ ہے : بیشک وہ لوگ جو گناہوں سے بچتے رہے جب انہیں کوئی شے لاحق ہو تو وہ اللہ عزوجل کی قدرت اور اپنے اوپر اس کے انعامات میں غوروفکر کرتے ہیں اور معصیت کو ترک کردیتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : الطیف اور الطائف دونوں مختلف المعنی ہیں۔ پس پہلے کا معنی تخیل ( خیال کا آنا) ہے اور دوسرے کا معنی نفس شیطان ہے۔ پس پہلا طاف الخیال یطوف طیفا کا مصدر ہے۔ اور انہوں نے اس سے اسم فاعل کا صیغہ طائف نہیں کیا۔ سہیلی نے کہا ہے : کیونکہ یہ ایک تخیل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ رہا قول باری تعالیٰ : آیت : فطاف علیھا طائف من ربک (القل : 19) تو اس میں طیف نہیں کہا جائے گا، کیونکہ وہ حقیقۃ اسم فاعل ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے : بیشک وہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ زجاج نے کہا ہے : طفت علیھم اطوف اور طاف الخیال یطیف ( یعنی پہلا باب نصر ینصر بمعنی چکر لگانا اور دوسرا باب ضرب یضرب بمعنی خیال آنا ہے) ۔ اور حسان نے کہا ہے : فدع ھذا ولکن من لطیف یورقنی اذا ذھب العشاء حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : الطیف بمعنی غضب ( غصہ) ہے اور جنون، غضب اور وسوسہ کو طیف کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ دل میں پیدا ہونے والا خطرہ اور کھٹکا ہے جسے خیال کے خطرہ کے مشابہ قرار دیا جاتا ہے۔ آیت : فاذا ھم مبصرون یعنی وہ اس سے رک جاتے ہیں، باز رہتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : پس انہیں بصیرت حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت سعید بن جبیر نے تذکروا ذال کو مشدد پڑھا ہے۔ لغت عربیہ میں اس کی کوئی وجہ ( دلیل) نہیں۔ اسے نحاس نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ عصام بن مصطلق نے بیان کیا ہے : میں مدینہ طیبہ میں حاضر ہوا اور حضرت حسن بن علی ؓ کو دیکھا، تو ان کی شہرت اور ان کے چہرے کے حسن و جمال نے مجھے بہت متعجب کیا۔ نتیجۃ مجھ میں اس حسد کی آگ بھڑکنے لگی جسے ان کے باپ کے ساتھ بغض کے سبب میرا سینہ چھپائے ہوئے تھا۔ سو میں نے کہا : آپ ابن ابی طالب ہیں انہوں نے فرمایا : ہاں۔ چناچہ میں نے انہیں اور ان کے باپ کو مبالغہ کی حد تک برا بھلا کہا۔ تو انہوں نے میری طرف انتہائی شفقت و مہربانی کی نظر سے دیکھا، پھر فرمایا : آیت : اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم، خذالعفو وامر بالعرف واعرض عن الجھلین اور آپ نے اسے آیت : فاذا ھم مبصرون تک پڑھا۔ پھر مجھے ارشاد فرمایا : نری اور ملامت کا اظہار کر، اللہ تعالیٰ سے میرے لیے اور اپنے لیے استغفار کر، بلاشبہ اگر تو ہم سے مدد طلب کرے گا تو ہم تیری معاونت کریں گے اور اگر تو ہم سے عطیہ طلب کرے گا تو ہم تجھے عطیات سے نوازیں گے اور اگر تو ہم سے رہنمائی مانگے گا تو ہم تیری رہنمائی فرمائیں گے۔ پس جو مجھ سے زیادتی اور کوتاہی ہوئی اس پر مجھ میں ندامت اور شرمندگی ظاہر ہوگئی تو آپ نے فرمایا : آیت : لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وھو ارحم الرحمین (یوسف) ( آپ نے فرمایا : نہیں کوئی گرفت تم پر آج کے دن معاف فرما دے اللہ تعالیٰ تمہارے ( قصوروں) کو اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے) کیا تو اہل شام میں سے ہے ؟ میں نے کہا : ہاں تو آپ نے فرمایا : شنشنۃ اعرفھا من اخزم (اس عادت اور خراج کو تو میں اخزم سے جانتا ہوں) اللہ تجھے سلامت رکھے اور تجھے سہارا عطا فرمائے، تجھے معاف فرمائے اور تیرے مدد فرمائے۔ تو اپنی حاجات اور پیش آنے والی عوارض ہمین پیش کر تو تو ہمیں اپنے گمان سے کہیں بڑھ کر پائے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ عصام نے کہا : پش زمین اپنی وسعتوں کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی اور میں نے یہ چاہا کہ یہ ( زمین) میرے لیے نرم ہوجائے، پھر میں ان سے چھپتے ہوئے وہاں سے کھسک گیا، اس حال میں کہ سطح زمین پر ان سے اور ان کے باپ سے بڑھ کر میرے نزدیک کوئی محبوب نہ تھا۔ قولہ تعالیٰ : آیت : واخوانھم یمدونھم فی الغی ثم لا یقصرون کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے شیاطین کے بھائی اور وہ گمراہ انسانوں میں سے فاجر لوگ ہیں شیاطین انہیں گمراہی میں کھینچ لاتے ہیں۔ اور فاجروں کو اخوان الشیاطین کہا گیا ہے، کیونکہ وہ ان کے وساوس کو قبول کرتے ہیں۔ تحقیق اس آیت میں شیطان کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ جو کچھ اس کی وضاحت میں کہا گیا ہے یہ اس میں سے احسن ہے۔ اور یہی حضرت قتادہ، حضرت حسن اور حضرت ضحاک رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے۔ اور لا یقصرون کا معنی ہے یعنی نہ وہ توبہ کرتے ہیں اور نہ رجوع کرتے ہیں۔ زجاج نے کہا ہے : کلام میں تقدیم وتاخیر ہے اور معنی یہ ہے : اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی تم پوجا کرتے ہو وہ تمہارے لیے مدد ونصرت کی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کی مدد کرسکتے ہیں اور ان کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچ لاتے ہیں، کیونکہ کفار شیاطین کے بھائی ہیں۔ اور آیت کا معنی یہ ہے : بیشک مومن جب اسے شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ اور خیال چھوتا ہے تو وہ قرب کے بارے آگاہ ہوجاتا ہے ( اور وہ خدا کو یاد کرنے لگ جاتا ہے) اور رہے مشرک تو شیطان انہیں کھینچ لاتا ہے۔ اور لا یقصرون کہا کیا ہے : دونوں قولوں کی بنا پر اس کی ضمیر کفار کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ضمیر کا شیطان کی طرف لوٹنا بھی جائز ہے۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے پھر وہ نہ ان سے باز آتے ہیں اور نہ ان پر رحم کرتے ہیں۔ الاقصار کا معنی ہے : کسی شے سے رک جانا، باز آجانا، یعنی شیاطین کفار کو گمراہی کی طرف کھینچنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ ( اور اس سے باز نہیں آتے) اور قول باری تعالیٰ : آیت : فی الغی میں یہ بھی جائز ہے کہ وہ یمدونھم کے ساتھ متصل ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ اخوان کے ساتھ متصل ہو۔ اور الغی کا معنی جہالت ہے۔ نافع نے یمدونھم (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 236) یا کے ضمہ اور میم کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور باقیوں نے یا کے فتحہ اور میم کے ضمہ کے ساتھ۔ اور یہ دونوں لغتیں ہیں ( یعنی) مد اور امد، مد کا بغیر الف کے استعمال زیادہ ہے۔ یہ مکی نے کہا ہے۔ اور نحاس نے کہا ہے : اہل عرب کی ایک جماعت اہل مدینہ کی قراءت کا انکار کرتی ہے۔ ان میں سے ابو حاتم اور ابو عبید بھی ہیں، ابو حاتم نے کہا ہے : میں اس کی کوئی وجہ نہیں جانتا، مگر یہ کہ معنی یہ ہو وہ ان کے لیے گمراہی اور جہالت میں اضافہ کردیتے ہیں۔ اور اہل لغت میں سے ایک جماعت نے بیان کیا ہے ان میں سے ابوعبید بھی ہیں کہ جب کوئی شے کسی شے کی ذات میں کثرت اور زیادتی پیدا کر دے تو مدہ کہا جائے گا، اور جب کوئی اس میں کسی غیر کے سبب زیادتی کر دے تو امدہ کہا جائے گا، مثلا آیت : یمددکم ربکم بخمسۃ الٰف من الملئکۃ مسومین ( آل عمران) ( مدد کرے گا تمہاری تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے جو نشان والے ہیں) اور محمد بن زید سے بیان ہے کہ انہوں نے اہل مدینہ کی قراءت کے لیے استدلال کیا ہے اور کہا ہے : کہا جاتا ہے : مددت لہ فی کذا یعنی میں نے اسے اس کے لیے مزین اور آراستہ کیا اور میں نے اسے ایسا کرنے کی استدعا کی۔ اور امددتہ فی کذا یعنی میں نے اپنی رائے یا کسی اور طریقے سے اس کی مدد کی۔ مکی نے کہا ہے : پسندیدہ فتحہ ہے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے : مددت فی الشر اور امددت فی الخیر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ویمدھم فی طغیانھم یعمھون ( البقرہ) ( ڈھیل دیتا ہے انہیں تاکہ اپنی سر کشی میں بھٹکتے رہیں) پس یہ اس حرف میں فتح کے قوی ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ اس کا استعمال شر میں ہوا ہے اور گمراہی (غی) بھی شر ہے۔ اور اس لیے بھی کہ جمہور اسی موقف پر ہیں۔ اور عاصم جحدری نے یمادونھم فی الغی پڑھا ہے۔ اور عیسیٰ بن عمر نے یقصرون یا کو فتحہ، صاد کو ضمہ اور قاف کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور باقیوں نے یقصرون اس کی ضد کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ دونوں لغتیں ہیں۔ امراء القیس نے کہا ہے : سمالک شوق بعد ما کان اقصرا
Top