Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 70
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤى١ۙ اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی قُلْ : کہ دیں لِّمَنْ : ان سے جو فِيْٓ : میں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ مِّنَ : سے الْاَسْرٰٓي : قیدی اِنْ : اگر يَّعْلَمِ : معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دل خَيْرًا : کوئی بھلائی يُّؤْتِكُمْ : تمہیں دے گا خَيْرًا : بہتر مِّمَّآ : اس سے جو اُخِذَ : لیا گیا مِنْكُمْ : تم سے وَيَغْفِرْ : اور بخشدے گا لَكُمْ : تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اے نبی جو قیدی آپ کے قبضہ میں ہیں ان سے فرما دیجئے کہ اگر اللہ کو تمہارے دلوں میں ایمان معلوم ہوگا تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تم کو عطا فرما دے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
1۔ حاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے اپنی سنن میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جب مکہ والوں نے اپنے قیدیوں کے فدیہ میں (مال) بھیجا تو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی زینب ؓ نے اپنے شوہر کے فدیہ میں اپنے گلے کا ایک ہار بھیجا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اس (ہار) کو دیکھا تو آپ کو شدید رقت طاری ہوگئی اور فرمایا اگر تم مناسب سمجھو تو یہ اس کے قیدی کے لئے ہی چھوڑ دو اور عباس ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ بلاشبہ میں مسلمان ہوں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ زیادہ جانتے ہیں تمہارے اسلام کو اگر ایسا ہے جیسے تو کہتا ہے اللہ تعالیٰ تجھ کو ہر چیز عطا فرمائے گا پس تم اپنا اور اپنے بھائیوں کے بیٹوں نوفل بن حارث اور عقیل بن ابی طالب کا اور اپنے حلیف عبد بن عمیر کا فدیہ ادا کرو عباس نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ وہ میرے پاس نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا وہ (مال) کہاں ہے جس کو تو نے اور ام الفضل نے غضب کیا اور تو نے اس سے کہا اگر مجھے موت آجائے تو یہ مال میرے بیٹوں کے لئے ہے تو انہوں نے جواب دیا اللہ کی قسم یا رسول اللہ ﷺ یہ (مال) ایسی چیز تھی کہ جس کو میرے اور اس (میری بیوی) کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ میری جانب سے شمار کرلیجئے جو میرے پاس موجود ہے۔ بیس اوقیہ میرے مال میں سے آپ نے فرمایا ایسا کرلو چناچہ انہوں نے اپنی جان کا اور اپنے بھائی کے بیٹوں کا اور اپنے حلیف کا فدیہ ادا کیا تو (یہ آیت) ” قل لمن فی ایدیکم من الاسری ان یلم اللہ فی قلوبکم خیرا یوتکم خیرا مما اخذمنکم “ نازل ہوئی چناچہ حالت اسلام میں اللہ تعالیٰ نے اس بیس اوقیہ کی جگہ مجھے بیس غلام عطا فرمائے ان میں سے ہر ایک میں مال تھا کہ جس کے ساتھ میں مدد کیا گیا اور اس کے ساتھ میں اللہ کی مغفرت کی بھی امید رکھتا ہوں۔ 2:۔ ابن سعد والحاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ علائ بن خضرمی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف مال بھیجا جو بہت زیادہ تھا چناچہ آپ نے اس کو چٹائی پر بکھیر دیا لوگ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو دینا شروع فرمایا اس دن نہ عدد تھا نہ وزن تھا عباس ؓ تشریف لائے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا بدر کے دن مجھے اس مال میں سے عطا فرمائیے آپ نے فرمایا لے لو تو میں اپنے قمیض میں ایک لب بھرلیا پھر میں چلا تو چلنے کی طاقت نہ رکھتا تھا میں نے اپنا سراٹھایا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے اٹھوا دیجئے رسول اللہ ﷺ نے ہنستے ہوئے ارشاد فرمایا لے لو جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے تحقیق وہ پورا ہوگیا اور اس کے علاوہ میں نہیں جانتا (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) (آیت) ” قل لمن فی ایدیکم من الاسری ان یلم اللہ فی قلوبکم خیرا یوتکم خیرا مما اخذمنکم ویغفرلکم “ یہ مال اس سے بہتر ہے جو تجھ سے لیا گیا اور میں نہیں جانتا تھا کہ جو کچھ وہ مغفرت کے بارے میں کرے گا۔ 3:۔ ابو نعیم نے دلائل میں سعید بن جبیر کے راستے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بدر کے دن رسول اللہ ﷺ نے قریش میں سے ستر آدمیوں کو قیدی بنایا ان میں حضرت عباس ؓ اور عقیل ؓ بھی تھے ایک نے ان پر چالیس اوقیہ سونا بطور فدیہ لگا دیا عباس نے یہ سواوقیہ عقیل پر اسی اوقیہ کردیا گیا حضرت عباس ؓ نے فرمایا آپ نے مجھ کو قریش کا فقیر بنا کر چھوڑ دیا ہے میرے پاس کچھ بھی باقی نہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت) ” قل لمن فی ایدیکم من الاسری “ جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے اسلام لانے کا تذکرہ کیا میں نے آپ سے اس کا سوال کرتے ہوئے کہا وہ میرے حصہ میں ڈال دیں جو مجھ سے لئے گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے عوض مجھے بیس غلام عطا فرمائے جو سب کے سب تاجر ہیں اور میرے مال سے کاروبار کرتے ہوئے اور اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی بھی امید رکھتا ہوں۔ 4:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ عباس ؓ بدر کے دن قید ہوگئے انہوں نے اپنی جان کا چالیس اوقیہ سونا فدیہ میں دیا جب یہ آیت آیت) ” قل لمن فی ایدیکم من الاسری “ نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو دو خصلتیں عطا فرمائیں میں اس بات کو محبوب نہیں رکھتا کہ ان دونوں کے بدلہ میں مجھے دنیا مل جائے میں بدر کے دن قید ہوا میں نے اپنی جان چالیس اوقیہ فدیہ دیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے چالیس غلام عطا فرمائے بلاشبہ میں مغفرت کی امید رکھتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ فرمایا۔ 5:۔ ابوالشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ( آیت) ” قل لمن فی ایدیکم من الاسری “ کے بارے میں فرمایا کہ عباس اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ ہم ایمان لے آئے اس دین پر جو آپ لے کر آئے۔ اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو (یہ آیت) ” ان یعلم اللہ فی قلوبکم خیرا “ نازل ہوئی یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں ایمان کو اور تصدیق جان لیا وہ تم کو اس سے بہتر عطا فرمائے گا جو تم نے لیا گیا اور تمہارے شرک کو معاف کریں گے جس پر تم تھے اور حضرت عباس ؓ نے فرمایا کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل نہیں ہوئی اور میرے لئے (اس کا بدلہ) دنیا میں سے کوئی چیز ہو اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس سے سوگنا بہتر اور اچھا بدل فرمایا جو کچھ مجھ سے لیا گیا اور میں امید کرتا ہوں کہ میری مغفرت بھی ہوگی۔ 6:۔ ابن سعد ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یایھا النبی قل لمن فی ایدیکم من الاسری “ کے بارے میں فرمایا کہ (یہ آیت) بدر کے دن قیدیوں کے بارے میں نازل ہوئی ان میں عباس بن عبدالمطلب نوفل بن حارث اور عقیل بن ابی طالب ؓ تھے۔
Top