Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 70
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤى١ۙ اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی قُلْ : کہ دیں لِّمَنْ : ان سے جو فِيْٓ : میں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ مِّنَ : سے الْاَسْرٰٓي : قیدی اِنْ : اگر يَّعْلَمِ : معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دل خَيْرًا : کوئی بھلائی يُّؤْتِكُمْ : تمہیں دے گا خَيْرًا : بہتر مِّمَّآ : اس سے جو اُخِذَ : لیا گیا مِنْكُمْ : تم سے وَيَغْفِرْ : اور بخشدے گا لَكُمْ : تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اے نبی ﷺ ان قیدیوں سے کہہ دیجیے جو آپ کے ہاتھ میں ہیں کہ اگر اللہ کو تمہارے قلب میں نیکی کا علم ہوگا تو جو کچھ تم سے (فدیہ میں) لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا،103 ۔ اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا مغفرت والا ہے بڑا رحمت والا ہے،104 ۔
103 ۔ (اسی دنیا میں) حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب سے روایت ہے کہ مجھے معرکہ بدر کے بعد فدیہ میں 20 اوقیہ دینے پڑے تھے (اور اوقیہ 40 درہم یعنی تقریبا دس روپے کا ہوتا ہے گویا 20 اوقیہ تقریبا (200 کے برابر ہوئے) اور آج میرے پاس غلام بھی 20 ہیں اور ہر غلام مالدار ہے پس دنیا میں وعدۂ الہی کا ظہور تو یوں نمایاں طور پر ہوگیا۔ (آیت) ” فی قلوبکم خیرا “۔ اس سے مراد ایمان ہے اے خلوص ایمان وصحۃ نیۃ (مدارک) ایمانا واخلاصا (بیضاوی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں اس پر دلالت ہے کہ طاعت سے دنیاوآخرت دونوں کے برکات حاصل ہوتے ہیں خواہ مال کی صورت میں یا مقامات باطنی کی صورت میں۔ 104 ۔ (اور ان صفات کا ظہور کامل آخرت میں ہوگا) آیت کے پہلے ٹکڑے میں ذکر دنیوی انعام کا ہے اور اس ٹکڑے میں اخروی انعام کا۔
Top