Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 70
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤى١ۙ اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی قُلْ : کہ دیں لِّمَنْ : ان سے جو فِيْٓ : میں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ مِّنَ : سے الْاَسْرٰٓي : قیدی اِنْ : اگر يَّعْلَمِ : معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دل خَيْرًا : کوئی بھلائی يُّؤْتِكُمْ : تمہیں دے گا خَيْرًا : بہتر مِّمَّآ : اس سے جو اُخِذَ : لیا گیا مِنْكُمْ : تم سے وَيَغْفِرْ : اور بخشدے گا لَكُمْ : تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اے پیغمبر ﷺ جو قیدی تمہارے ہاتھ میں (گرفتار) ہیں ان کے کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے دلوں میں نیکی معلوم کرے گا تو جو (مال) تم سے چھن گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عنایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دیگا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : یایھا النبی قل لمن فی ایدیکم من الاسری کہا گیا ہے کہ یہ خطاب حضور نبی مکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب کو ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ خطاب صرف آپ کو ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : اس آیت میں قیدیوں سے مراد عباس اور ان کے ساتھی ہیں۔ انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے کہا : ہم اس (دین) کے ساتھ ایمان لائے جو آپ لے کر آئے اور ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ یقینا ہم آپ کے لیے آپ کی قوم پر مخلص رہیں گے۔ پس یہ آیت نازل ہوئی۔ اور امام مالک (رح) کے قول سے اس کا بطلان پہلے گزر چکا ہے۔ اور مصنف ابی دائود میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے بدر کے دن اہل جاہلیت کا فدیہ چار سو مقرر کیا۔ اور ابناسحاق سے مروی ہے : قریش نے رسول اللہ ﷺ کی طرف اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا۔ اور ہر قوم نے اپنے قیدیوں کا اتنا فدیہدیا جس پر وہ راضی ہوئے۔ اور عباس نے کہا : یارسول اللہ ! ﷺ بلاشبہ میں مسلمان ہوچکا ہوں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تمہارے اسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے پس اگر ایسا ہوا جیسے تم کہتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی جزا عطا فرمائے گا اور جہاں تک تمہارے معاملے کا ظاہر ہے تو وہ ہم پر عیاں ہے پس تم اپنی ذات ‘ اپنے بھتیجوں نوفل بن حارث بن عبدالمطلب اور عقیل بن ابی طالب اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو جو کہ حارث بن فہر کے بیٹوں کا بھائی ہے کا فدیہ ادا کرو “۔ تو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : فاین المال الذی دفنتہ أنت وأم القضل فقلت لھا ان أصبت فی سفر ھذا فھذا المال لبنی الفضل وعبد اللہ وقثم (1) (وہ مال کہاں گیا جسے تو نے اور ام فضل نے دفن کیا اور تو نے اسے کہا اگر میں اپنے اس سفر میں کام آجائوں تو یہ مال میرے بیٹوں فضل ‘ عبد اللہ اور قسم کے لیے ہے) تو انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! ﷺ انی لا علم انک رسول اللہ ‘ ان ھذالشئی ما علمہ غیری وغیرام الفضل (یا رسول اللہ ! ﷺ بیشک میں یقینا جان گیا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ‘ بیشک یہ وہ شے ہے جس کا میرے اور ام فضل کے بغیر کسی کو علم نہیں) پس آپ میرے لیے حساب لگائیے یا رسول اللہ ! ﷺ جو مال تم نے مجھ سے لینا ہے مال میں سے بیس اوقیہ میرے پاس ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” نہیں (صرف) وہ شے جو اللہ تعالیٰ نے تجھ سے ہمیں عطا فرمائی ہے “۔ (صرف وہی لینی ہے) پس اس نے اپنا ‘ اپنے بھتیجوں اور اپے حلیف کا فدیہ ادا کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی : یایھا النبی قل لمن فی ایدیکم من الاسری ‘ الآ یہ ابن اسحاق نے کہا ہے : تمام قیدیوں میں سے زیادہ فدیہ عباس بن عبدالمطلب کا تھا ‘ کیونکہ وہ خوشحال آدمی تھے ‘ پس انہوں نے سواوقیہ سونا اپنا فدیہ دیا (2) ۔ اور بخاری میں ہے : موسیٰ بن عقبہنے بیان کیا ہے کہ ابن شہاب نے کہا ‘ مجھے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی اور عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ آپ ہمیں اجازت عطا فرمائیں کہ ہم اپنے بھانجے عباس کا فدیہ چھوڑدیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” نہیں قسم بخدا ! تم ایک درہم بھی نہ چھوڑو “ (3) ۔ اور نقاش وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ قیدیوں میں سے ہر ایک کا فدیہ چالیس اوقیہ تھا ‘ سوائے عباس کے۔ کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” عباس پر فدیہ دوگناکردو “ اور آپ نے انہیں پابند کیا کہ وہ اپنے بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کا فدیہ بھی دیں چناچہ انہوں نے ان یک طرف سے اسی اوقیہ اور اپنی طرف سے اسی اوقیہ فدیہ ادا کیا اور جنگ کے وقت ان سے بیس اوقیہ لیے گئے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ان دس افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے اہل بدر کو کھانا کھلانے کا ذمہ اٹھا یا تھا اور ان کی باری بدر کی جنگ کے دن تھی پس انکے کھانا کھلانے سے پہلے ہی جنگ شروع ہوگئی اور ان کے پاس بیس باقی بچے گئے جو جنگ کے وقت ان سے لے لیے گئے۔ اور اس دن ان سے سو اوقیہ اور اسی اوقیہ لیے گئے۔ پس عباس نے حضور نبی مکرم ﷺ کو کہا : تحقیق تم نے مجھے اس حال میں کر چھوڑا ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں ہاتھ پھیلا کر قریش سے مانگتا رہوں۔ تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : این الذھب الذی ترکتہ عند امراتک امر الفضل ؟ ( وہ سونا کہاں گیا جو تو نے اپنی بیوی ام افضل کے پاس چھوڑا تھا) عباس نے کہا : کون سا سونا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انک قلت لھا ادری مایصیبنی فی وجھی ھذا فان حدث بی حدث فھولک ولم لدک ( بیشک تو نے اسے کہا تھا میں اسے نہیں جانتا جو مجھے پیش آئے گا پس اگر میرے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے تو یہ تیرے لیے اور تیری اولاد کے لیے ہے) تو عباس نے پوچھا : اے بھتیجے ! تجھے اس کے بارے کس نے خبر دی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے “۔ تب عباس نے کہا : میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں اور مجھے آپ کے رسول اللہ ہونے کا کبھی یقین نہیں ہوا مگر آج اور تحقیق میں نے جان لیا ہے کہ آپ کو اس پر کسی نے مطلع نہیں کیا مگر اس نے جو پوشیدہ اور مخفی چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اشھد ان لا الہ اللہ وانک عبدہ ورسولہ اور میں اس کے سوا ہر ( معبود باطل) کا انکار کرتا ہوں۔ اور پھر انہوں نے اپنے بھتیجوں کو بھی حکم دیا تو وہ بھی اسلام لے آئے، پس ان دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی یا یھا البنی قل لمن فی ایدیکم من الاسری اور جس نے عباس کو قید کیا تھا وہ ابو الیسر کعب بن عمر و بنی سلمہ کے بھائی تھے اور وہ بالکل چھوٹے قد کے آدمی تھے اور عباس موٹے تازے طویل القامت تھے پس جب وہ انہیں لے جر حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا : لقد اعانک علیہ مالک ( تحقیق اس پر فرشتے نے تیری مدد کی ہے) مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : ان یعلم اللہ فی قلوبکم خیر اس میں خیر سے مراد اسلام ہے ( یعنی اگر اللہ تعالیی نے تمہارے دلوں میں اسلام جان لیا) یو تکم خیرا مما اخذمنکم تو وہ تمہیں اس فدیہ سے بہتر عطا فرمائے گا جو تم سے لیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ دنیا میں عطا فرمائے گا۔ اور قول بھی ہے کہ آخرت میں عطا فرمائے گا۔ اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس بحرین کا مال آیا تو حضرت عباس ؓ نے آپ سے کہا : بیشک میں نے اپنا فدیہ بھی دیا تھا اور عقیل کا فدیہ بھی دیا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” لے لو “ پس انہوں نے اپنا کپڑا بچھایا اور اتنا مال لے لیا جتنا اٹھانے کی طاقت رکھتے تھے۔ یہ مختصر کیا گیا ہے۔ اور غیر صحیح میں ہے : تو حضرت عباس ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کی : یہ اس سے بہتر ہے جو مجھ سے لیا گیا اور اس کے بعد میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمادے (1) حضرت عباس ؓ نے بیان کیا : آپ نے مجھے زم زم عطا کیا۔ اور میں پشند نہیں کرتا کہ اس کے بدلے اہل مکہ کے تما اموال میرے لیے ہوں۔ اور طبری نے حضرت عباس ؓ تک سند بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میرے بارے میں اس وقت یہ آیت نازل ہوئی جس وقت میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے اسلام کے بارے میں آگاہ کیا اور میں نے آپ سے عرض کی کہ آپ میرے ان بیس اوقیہ کے بارے میں جانچ پرکھ کریں جو فدیہ کی ادائیگی سے پہلے مجھ سے لے لیے گئے تو آپ نے انکار کردیا۔ ” اور فرمایا وہ فے ہے “۔ تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے بدلے میں بیس غلام عطا فرما دئیے وہ سب کے سب میرے مال کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ (2) اور مصنف ابی دائود میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو حضرت زینب (بنت رسول اللہ ﷺ نے ابو العاص کے فدیہ کے لیے کچھ مال بھیجا اور اس میں انہوں نے اپنا وہ ہار بھی بھیجا جو ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ کے پاس تھا اور ابو العاص کے ساتھ شادی کے وقت انہوں نے پہنایا تھا۔ آپ فرماتی ہیںـ: پس جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو آپ پر انتہائی رقت طاری ہوگئی۔ اور آپ نے فرمایا : ” اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کے لیے ان کی قیدی رہا کردو اور اس کا یہ ہار اسے واپس لو ٹا دو “ تو انہوں نے عرض کی : ہاں (ہم ایسا ہی کرتے ہیں) تو حضور نبی کریم ﷺ نے اس سے یہ وعدہ لیا کہ زینب کو آپ کے پاس بھیج دے گا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ اور انصار میں سے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا :” تم دونوں بطن یا جج میں جا کر رکو یہاں تک کہ زینب تمہارے پاس سے گزرے پس تم دونوں اس کے ساتھ ہوجانا یہاں تک تم اسے لے آئو “۔ ابن اسحاق نے بیان کیا ہے : یہ غزوئہ بدر کے ایک مہینہ بعد کا واقعہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا ہے : میں نے حضرت زینب بنت رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب ابع العاص مکہ میں آیا تو اس نے مجھے کہا : تو تیاری کر اور اپنے باپ کے پاس چلی جا۔ پس میں نکلی تیاری کرنے لگی تو مجھے ہند بنت عقبہ ملی اور اس نے کہا : اے محمد کی بیٹی ! مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تو اپنے باپ کے پاس جانے کا ارادہ رکھتی ہے ؟ تو میں نے اس سے کہاـ: میں نے اس کا ارادہ نہیں کیا۔ تو اس نے کہا : اے چچا کی بیٹی ! تو ایسا نہ کر، بیشک میں خوشحال عورت ہوں اور میرے پاس تیری حاجب اور ضرورت کا سامان ہے۔ پس اگر تو سامان کا ارادہ کرے تو میں تجھے وہ بیچ دیا نفقہ کے لیے قرض چاہیے تو میں تجھے قرض دے دیتی ہوں، کیونکہ وہ کچھ عورتوں کے درمیان نہیں ہوتا جو مردوں کے درمیان ہوتا ہے۔ آپ فرماتی ہیں : قسم بخدا ! میں اسے دیکھ رہی تھی کہ یہ اس نے بہتان تراشی کے لیے کہا ہے۔ میں اس سے ڈر گئی اور میں نے اس سے اسے چھپائے رکھا اور میں نے کہاــ: اس کا ارادہ نہیں رکھتی۔ بس جب زینب اپنی تیاری سے فارغ ہوگئیں تو آپ وہاں سے چل پڑیں اور ان کے ساتھ انکا دیور اونٹ کی مہار پکڑ کر (قائد) کنانہ بن ربیع بھی نکلا اور یہ دن کے وقت گھر سے نکلے تھے۔ اور اس بارے میں اہل مکہ نے بھی سن لیا، چناچہ ان کی تلاش میں ہبار بن اسود اور نافع بن عبداقیس الفہری نکلے اور سب سے پہلے جو آپ کی طرف آگے بڑھا وہ ہبار تھا اس نے نیزے کے ساتھ آپ کو خوفزدہ کیا اور دھمکایا در آنحالیکہ آپ ہودج میں تھیں۔ کنانہ نے اونٹ بٹھایا اور اپنے تیر پھیلادیئے پھر اپنی قوس پکڑی اور کہا : قسم بخدا ! جو آدمی بھی میرے قریب آئے گا میں اسے تیر ماردوں گا۔ اشراف قریش میں سے ابو سفیان آیا اور اس نے کہا : اے فلاں ! اپنا تیر ہم سے روک لے یہاں تک ہم تیرے ساتھ گفتگو کرلیں۔ پس ابو سفیان اس کے پاس آیا اور کہاــــ: بیشک تو نے کچھ نہیں کیا، تو لوگوں کے سامنے ایک عورت کے ساتھ نکلا ہے، حالانکہ تو ہماری اس مصیبت کو جانتا ہے جو بدر کے مقام پر ہمیں پہنچی پس عرب یہ گمان کرتے ہیں اور ہم یہ گفتگو کرتے ہیں کہ یہ ہماری طرف سے کمزوری اور ضعف ہے کہ تو ہمارے درمیان سے لوگوں کے سامنے ان کی بیٹی کو ساتھ لے کر ان کی طرف نکلے۔ تو اس عورت کے لے کر واپس لوٹ جا اور چند دن یہی قیام کرو، پھر رات کے وقت آہستہ آہستہ ساتھ لے کر چلے جائو اور اس کے باپ کے پاس پہنچادو۔ پس مجھے اپنی عمر کی قسم ! ہمیں اسے اپنے باپ سے روکنے کی کوئی حاجت نہیں اور ہمارے لیے اب اس بارے میں تکلیف کے وہ جذبات بھڑکے ہوئے ہیں جو ہمیں پہنچی ہے۔ پس اس نے ایسا کرلیا، پس جب دو دن یا تین دن اسی طرح گزر گئے تو وہ ان کے ساتھ چل پڑا۔ پس میں چلتی رہی یہاں تک کہ میں رسول ﷺ کے پاس پہنچ گئی۔ اور یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب ہبار بن ام درہم نے انہیں خوفزدہ کیا تو جو خوف اور ڈر آپ کو لاحق ہوا اس کی وجہ سے وہ حمل ساقط ہوگیا جو آپ کے پیٹ میں تھا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : مشرکین میں سے جب لوگوں کو قیدی بنایا گیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اسلام لانے کی گفتگو کی اور اس بارے میں وہ پر عزم نہ تھے اور نہ ہی اس بارے انہوں نے اعتراف یقینی کیا۔ اور شبہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے قریب ہونے کا ارادہ کیا اور مشرکین سے دور نہ ہوئے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : اگر کوئی کافر دل اور زبان سے ایمان کے بارے کلام کرے اور اس میں اسے عزیمت نہ ہو تو وہ مومن نہیں۔ اور جب اس کی مثل صورت مومن سے پائی جائے تو وہ کافر ہوجائے گا، مگر یہ کہ وہ ایسا وسوسہ ہو جس کو روکنے پر وہ قادر نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا ہے اور اسے ساقط کردیا ہے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول معظم ﷺ کے لیے اس حقیقت کو بیان کیا ہے اور فرمایا ہے : وان یریدواخیانتک یعنی اگر ان کی طرف سے قول بطور خیانت اور مکر ہے۔ فقدخانو اللہ من قبل تحقیق انہوں نے اس قبل کفر کے ساتھ اور آپ کے ساتھ اپنے مکر اور آپ کے ساتھ قتال کرکے اللہ تعالیٰ سے خیانت کی ہے اور اگر ان کی طرف سے یہ قول خبر ہے اور اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے تو وہ اسے قبول کرلے گا اور انہیں اس سے بہتر عوض عطا فرمائے گا جو ان سے نکلا ہے ان کے سابقہ گناہ، ان کی کفر، ان کی خیانت اور ان کا مکر سبھی بخش دے گا (1) ۔ اور خیانۃ کی جمع خیائن ہے۔ اور واجب تھا کہ یہ کہا جاتا : خوائن کیونکہ یہ وادی الفاظ میں سے ہے، مگر انہوں نے اس کے اور خائنۃ کی جمع کے درمیان فرق کیا ہے۔ اور کہا جاتا ہے : خائن و خوان و خونۃ و خانۃ۔
Top