Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 70
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤى١ۙ اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی قُلْ : کہ دیں لِّمَنْ : ان سے جو فِيْٓ : میں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ مِّنَ : سے الْاَسْرٰٓي : قیدی اِنْ : اگر يَّعْلَمِ : معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دل خَيْرًا : کوئی بھلائی يُّؤْتِكُمْ : تمہیں دے گا خَيْرًا : بہتر مِّمَّآ : اس سے جو اُخِذَ : لیا گیا مِنْكُمْ : تم سے وَيَغْفِرْ : اور بخشدے گا لَكُمْ : تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اے نبی تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں ان سے کہو اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمہیں اس سے بڑھ چڑھ کر دے گا ، جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری خطائیں معاف کرے گا ، اللہ درگزر کرنے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے
اب سیاق کلام قیدیوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ ان کو زندگی عطا کرنے اور خوب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے چٹکی بھری جاتی ہے۔ ان کے احساس کو جگایا جاتا ہے تاکہ ان کے شعور میں امید کی کرن روشن ہو ، اور وہ پر امید ہو کر روشنی کی طرف آجائیں اور ماضی کے مقابلے میں ان کا مستقبل سنور جائے اور وہ جس زندگی میں ہیں ، اس کے مقابلے میں اچھی زندگی حاصل کرلیں اور ان کو جو مالی تاوان ہوا ہے اور ان کا جو علاقہ ہے ، اس سے وہ اچھی جگہ آجائیں اور اس پر اللہ کی رحمت اور مغفرت مستزاد۔ یہ ہے کہ ان کے لیے ہمہ گیر بھلائی لیکن یہ بھلائی ان تک تب ہی پہنچ سکتی ہے جب ان کے دل نور ایمان کے لیے کھل جائیں۔ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ ان کے اندر بھلائی کا عنصر موجود ہے اور یہ عنصر ایمان کا عنصر ہے۔ یہ اس قدر عام اور ہمہ گیر خیر ہے کہ اس میں ایمان کے لفظ کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ ایمان گویا خیر محض ہے اور کوئی بات اس وقت تک خیر اور بھلائی نہیں ہوسکتی جب تک وہ ایمان کے حوالے سے نہ ہو اور جس کا وجود ایمان کے عنصر کے نتیجے میں نہ ہو۔ اور وہ ایمان پر قائم نہ ہو۔ اسلام قیدیوں کا صرف اس لیے روادار ہے کہ وہ ان کے دلوں میں بھلائی کی تلاش کرے۔ اگر ان کے اندر کوئی خفیہ چنگاری ہو تو اسے جگا دے۔ ان کی فطرت کو خواب غفلت سے بیدار کرے اور وہ اسلامی نظریہ حیات کو قبول کرنے ، اس سے متاثر ہونے کے لیے تیار ہوجائیں اور آخر کار نور ایمان سے منور ہوجائیں۔ اسلام دشمن کو اس لیے قید نہیں کرتا کہ وہ ان سے انتقام لے کر ان کو ذلیل کرے یا ان کا استحصال کرے جس طرح حضور کے دور میں رومی اور دوسری اقوام اور نسلوں میں یہ مقاصد عام طور پر مروج تھے۔ حضرت ابوہریرہ نے کچھ لوگوں سے نقل کیا ہے اور انہوں نے ان کا نام بھی لیا ہے کہ اہل قریش نے اپنے قیدیوں کو چھڑنے کے لیے اور فدیہ کی ادائیگی کے لیے ایک وفد بھیجا۔ ہر قوم نے اپنے قیدی کو چھڑایا۔ جس پر لوگ راضی ہوئے۔ حضرت عباس نے فرمایا رسول خدا میں تو مسلم تھا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آپ کے اسلام کے بارے میں صحیح علم اللہ کو ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہے جس طرح تم کہتے ہو تو اللہ تمہیں جزا دے گا۔ جہاں تک ظاہر داری کا تعلق ہے تو تم ہمارے خلاف تھے۔ لہذا آپ پنا ، اپنے دو بھتیجوں نوفل ابن حارث ابن عبدالمطلب اور عقیل ابن ابی طالب ابن عبد المطلب کا فدیہ دیں۔ نیز اپنے حلیف عتبہ ابن عمر بنی الحارث ابن فہر کے بھائی کا فدیہ بھی دیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس ان لوگوں کا فدیہ کہاں ہے ؟ تو اس پر رسول اللہ نے فرمایا وہ مال کہاں ہے جو تم نے اور ام الفضل نے دفن کیا تھا اور تم نے اسے کہا تھا کہ اگر میں اس سفر میں مر گیا تو یہ مال جو دفن کیا گیا ہے بنی فضل ، عبداللہ اور قثم کا ہوگا۔ اس پر اس نے کہا : خدا کی قسم رسول خدا میں جانتا ہوں کہ آپ رسول خدا ہیں۔ یہ تو وہ راز ہے جو میرے اور ام الفضل کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لہذا آپ لوگوں نے مجھ سے جو چوبیس اوقیہ مال لیا ہے اسے فدیہ کی رقم میں حساب کرلیں۔ اس پر رسول اللہ نے فرمایا : یہ نہیں ہوسکتا۔ یہ تو مال غنیمت تھا جو اللہ نے آپ سے ہمیں دلا دیا۔ اس پر عباس نے اپنا فدیہ دیا۔ اپنے دو بھتیجوں کا فدیہ بھی دیا اور اپنے حلیف کا فدیہ بھی دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ " یا ایہا النبی قل لمن فی ایدیکم " " اے نبی تم لوگوں کے قبضے میں جو قیدی ہی ، ان سے کہو کہ اگر اللہ کو معلوم ہو کہ تمہارے دلوں میں کچھ خیر ہے ، تو وہ اس سے تمہیں بڑھ چڑھ کر دے جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری خطائیں معاف کرے گا ، اللہ در گزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ لیکن روشنی کی یہ کرن دکھاتے ہوئے اور امید کا دروازہ کھولتے ہوئے اللہ ان کو متنبہ بھی کرتا ہے کہ اگر انہوں نے رسول کے ساتھ خیانت کی تو پھر ان کا حال یہی ہوگا جو ہوا۔
Top