Dure-Mansoor - At-Tawba : 29
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠   ۧ
قَاتِلُوا : تم لڑو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَا : اور نہ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یومِ آخرت پر وَلَا يُحَرِّمُوْنَ : اور نہ حرام جانتے ہیں مَا حَرَّمَ : جو حرام ٹھہرایا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَلَا يَدِيْنُوْنَ : اور نہ قبول کرتے ہیں دِيْنَ الْحَقِّ : دینِ حق مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب) حَتّٰي : یہانتک يُعْطُوا : وہ دیں الْجِزْيَةَ : جزیہ عَنْ : سے يَّدٍ : ہاتھ وَّهُمْ : اور وہ صٰغِرُوْنَ : ذلیل ہو کر
ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں سمجھتے اور دین حق کو قبول نہیں کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کتاب دی گئی ان سے یہاں تک جنگ کرو کہ وہ ماتحت ہو کر ذلت کی حالت میں اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں
1:۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابوہریرہ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ( یہ آیت) اس سال میں اتاری جس میں ابوبکر ؓ نے مشرکین کے ساتھ عہد توڑنے کا اعلان کیا۔ یعنی (آیت) یایھا الذین امنوا انما المشرکون نجس “ (اور) مشرکین تجارت کا مال لے کر آتے تھے جس سے مسلمان بھی نفع اٹھاتے تھے جب اللہ تعالیٰ نے مشرکین مسجد حرام کے قریب آنے کو حرام کو دیا تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال آیا کہ ان کی وہ تجارت ختم ہوجائے گی جس کا لین دین مشرک کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) ” وان خفتم عیلۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شآء “ اس لئے آیت میں جو اس کے پیچھے آرہی ہے (کافروں سے) جزیہ (لینے کا حکم فرمایا) اس سے پہلے نہیں لیا جاتا تھا اور اس کو مشرکین کے تجارت کے مال کے عوض میں بنادیا جس سے ان کو روک دیا گیا۔ پھر فرمایا (آیت) ” قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر “ سے لے کر ” صغرون “ تک پس مسلمان اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں کہ وہ پہچانیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس منافع سے افضل اور بہترعوض عطا فرمایا ہے۔ جو وہ مشرکین سے تجارت کرکے حاصل کرتے تھے۔ قتال کی دو صورتیں : 2:۔ ابن عساکر نے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قتال کی دو صورتوں میں ایک ہے مشرکین سے لڑنا یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں یا اپنے ہاتھ سے یہ جزیہ اس حال میں کہ وہ ذلیل ہوں۔ اور باغیوں کی جماعت سے لڑنا یہاں تک کہ وہ لوٹ آئیں اللہ کے حکم کی طرف اگر وہ لوٹ آئیں تو پھر عدل و انصاف کیا جائے گا۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ والبیہقی نے اپنی سنن میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” قاتلوا الذین لا یومنون باللہ “ کے (یہ آیت) نازل ہوئی جب محمد ﷺ کو اور آپ کے اصحاب کو غزوہ تبوک کا حکم دیا گیا۔ 4:۔ ابن منذر نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ (یہ آیت) کفار قریش اور عرب کے بارے میں نازل ہوئی (فرمایا) (آیت) ” وقتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ “ (البقرۃ آیت 193) اور اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوا۔ (آیت ) ” قاتلوا الذین لایومنون باللہ ولا بالیوم الاخر “ سے لے کر ” یعطوا الجزیۃ “ سب سے پہلے نجران والوں نے جزیہ دیا۔ 5:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ” الجزیۃ عن ید “ کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا زمین کا اور غلام کا جزیہ (لیا جائے گا) 6:۔ نحاس نے اپنی ناسخ میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” قاتلوا الذین لایومنون باللہ ولا بالیوم الاخر “ کے بارے میں فرمایا اس آیت کے ذریعہ اس آیت کے ذریعہ مشرکین سے در گزر کرنے کو منسوخ کردیا گیا۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا جب رسول اللہ ﷺ عرب کے قریب لوگوں کے لڑنے سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حکم فرمایا۔ 8:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” قاتلوا الذین لایومنون باللہ “ سے مراد ہے یعنی وہ لوگ جو اللہ کی توحید کی تصدیق نہیں کرتے (اور فرمایا) (آیت) ” ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ “ یعنی شراب اور خنزیر کو وہ حرام نہیں سمجھتے ” (آیت) ” ولایدینون دین الحق “ یعنی دین اسلام کو وہ قبول نہیں کرتے (آیت) ” من الذین اوتوا الکتب “ یعنی یہود و نصاری میں سے جن کو امت محمد ﷺ کے مسلمانوں سے پہلی کتاب دی گئی تھی (فرمایا) (آیت) ” حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوہم صغرون “ یعنی وہ ذلیل ورسوا ہوں۔ 9:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” عن ید “ سے مراد ہے منسوب اور مجبور ہو کر (جزیہ ادا کریں) 10:۔ ابن ابی حاتم نے سفیان بن عینیہ (رح) سے فرمایا کہ ” عن ید “ سے مراد ہے کہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور اپنے علاوہ کسی اور کے ہاتھ نہ بھیجے۔ 11:۔ ابن منذر نے ابوسفیان (رح) سے روایت کیا کہ ” عن ید “ سے مراد ہے قدرت سے دینا۔ 12:۔ ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” عن یدوہم صغرون “ سے مراد ہے کہ وہ مکہ نہ مار رہے ہوں۔ 13:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وھم صغرون “ سے مراد ہے کہ اس خیال میں وہ پسندیدہ اور قابل تعریف نہیں۔ رستم کی طرف قاصد بھیجے گئے : 14:۔ ابن ابی حاتم مغیرہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ رستم کی طرف بھیجے گئے رستم نے ان سے کہا تم کس بات کی طرف بلاتے ہو ؟ انہوں نے اس سے فرمایا تجھ کو میں اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں اگر تو اسلام لے آیا تو تیرے لئے وہی (حقوق) ہوں گے جو ہمارے لئے ہیں اور تجھ پر وہ ذمہ داریاں ہوں گی جو ہم پر ہیں اس نے کہا اگر میں انکار کردوں تو فرمایا اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کر اس حال میں کہ تو مغلوب ہو تو اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ جزیہ دینے کے مفہوم کو میں نے جان لیا ہے لیکن تیرا قول ” وانت ساغر “ سے مراد ہے اس حال میں کہ تو کھڑا ہو اور میں بیٹھا ہوں اور کوڑا تیرے سر پر ہو۔ 15:۔ ابوالشیخ نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے قلعہ والوں سے فرمایا جب مسلمانوں نے اس کا محاصرہ کر رکھا تھا انہوں نے سوال کیا کہ جزیہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہم تم سے دراہم کو وصول کریں گے اور مٹی تمہارے سروں پر ہوگی۔ 16:۔ ابن ابی شیبہ واحمد نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ وہ قلعہ کی طرف پہنچے اور ان سے کہا اگر تم ایمان لے آؤ تو تمہارے لئے وہی حقوق ہیں جو ہمارے لئے ہیں اور تم پر سب ذمہ داریاں ہوں گی جو ہم پر ہیں اگر تم انکار کرو گے تو جزیہ ادا کرو اس حال میں کہ تم مغلوب ہو اگر تم انکار کرو تو ہم تمہارے (سر سے معاہدوں کو) پھینک دیں گے برابری کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ 17:۔ ابوالشیخ نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ ذمی لوگوں کے لئے یہ زیادہ محبوب ہے وہ جزیہ کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے (آیت) حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوہم صغرون “۔ 18۔ ابن ابی شیبہ نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان کو حکم فرمایا ہر جوان مرد سے ایک دینار (جزیہ) یا اس کے برابر ستو۔ 19:۔ ابن ابی شیبہ نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجر والوں کے مجوسیوں سے جزیہ لیا اور یمن کے یہودی اور ان کے نصاری میں سے ہر جوان مرد سے ایک دینار لیا۔ 20:۔ ابن ابی شیبہ نے بجالہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ عنہنے مجوس سے جزیہ نہیں کیا یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجر کے مجوس سے جزیہ لیا تھا (تو پھر عمر ؓ نے لینا شروع کیا) 21:۔ ان ابی شیبہ نے حسن بن محمد علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجر کے مجوسیوں کی طرف خط لکھا اور ان کو اسلام کی دعوت دی جو اسلام لے آیا اس سے قبول فرمایا جس نے انکار کیا تو ان پر جزیہ لگا دیا یہاں تک کہ آپ نے حکم فرمایا ان کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور ان میں سے کسی عورت سے نکاح نہ کیا جائے۔ 22:۔ مالک والشافع وابوعبید نے کتاب الرسول میں وابن ابی شیبہ نے جعفر (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب ؓ نے مجوسیوں سے جزیہ لینے کے بارے میں صحابہ ؓ اجمعین سے مشورہ لیا تو عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ان کے ساتھ اہل کتاب کا طریقہ اختیار کرو۔ 23:۔ ابن منذر نے حذیفہ بن یمان ؓ سے رورایت کیا کہ اگر میں اپنے اصحاب کو مجوس سے جزیہ لیتا ہوا نہ دیکھتا تو میں ان سے نہ لیتا اور یہ (آیت) ” قاتلوا الذین لا یومنون باللہ “ تلاوت فرمائی۔ 24:۔ عبدالرزاق نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ان سے مجوس سے جزیہ لینے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم آج کے دن زمین پر مجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں اس مسئلہ کے بارے میں مجوس اہل کتاب تھے جس کی وہ معرفت رکھتے ہیں وہ اہل علم تھے (کیونکہ) وہ اس علم کو پڑھتے تھے ان کے امیر نے شراب پی لی اس کو نشہ ہوا تو وہ اپنی بہن پر واقع ہوگیا۔ مسلمانوں کی ایک جماعت نے اس کو دیکھا جب صبح ہوئی تو اس کی بہن نے کہا تو نے جو میرے ساتھ اس طرح اور اس طرح کیا ہے ایک جماعت نے تجھ کو دیکھا ہے کہ وہ تجھ پر اس بات کو نہیں چھپائیں گے اس نے لالچ والوں کو بلایا اور ان کو (خوب مال) عطا کیا پھر ان سے کہا تم جانتے ہو کہ آدم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کا اپنی بیٹی سے نکاح کیا تھا اتنے میں وہ لوگ آگئے جنہوں نے اس کو دیکھا تھا اور انہوں نے کہا (اللہ کی رحمت سے) دور ہونے والے کے لئے ہلاکت ہے۔ بلاشبہ تیری پیٹھ پر اللہ کی حد جاری ہوگی تو اس نے ان لوگوں کو قتل کردیا جو اس (امیر) کے پاس تھے۔ پھر ایک عورت آئی اس نے اسے کہا کیوں نہیں بلکہ میں نے بھی تجھ کو اس کے پاس دیکھا ہے۔ اس نے اس عورت سے کہا کے باغیوں کے لئے ہلاکت ہو عورت نے کہا اللہ کی قسم وہ باغی تھی پھر اس نے توبہ کرلی تو اس نے اس کو بھی قتل کردیا پھر جو کچھ ان کے دلوں میں تھا اور ان کی کتابوں میں تھا سب رات کے وقت ان سے لے لیا گیا اور صبح کے وقت ان کے پاس کوئی چیز نہ رہی۔ 25:۔ ابن ابی شیبہ وابوالشیخ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جزیرہ عرب کے رہنے والوں کو اسلام پر قتال کیا اور سب نے ان سے اس کے سوا کوئی چیز قبول نہیں کی اور یہ افضل ترین جہاد سے اس امت پر جہاد کے فرض ہونے کے بعد اہل کتاب کے بارے میں یہ حکم نازل ہوا (جس کو فرمایا) (آیت) قاتلوا الذین لا یومنون باللہ “ 26:۔ ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے اپنی سنن میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ بت پرستوں سے اسلام کی بنا پر قتال کیا جائے گا۔ اور اہل کتاب سے جزیہ (کے ادا نہ کرنے پر) کی بنا پر جہاد کیا جائے گا۔ 27:۔ ابو الشیخ وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اہل کتاب کی بعض عورتوں ہمارے لئے حلال ہیں اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو ہمارے لئے حلال نہیں ہیں اور (یہ آیت) ” قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الا خر “ تلاوت کی پس جنہوں نے جزیہ ادا کی ان کی عورتیں ہمارے لئے حلال ہیں اور جنہوں نے جزیہ نہیں دیا ان کی عورتیں ہمارے لئے حلال نہیں ہیں۔ ابن مردویہ کے الفاظ یوں ہیں اہل کتاب کا نکاح حلال نہیں ہے جب وہ حربی (یعنی لڑنے والے) ہوں پھر یہ آیت تلاوت کی۔ 28:۔ عبدالرزاق نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے ایک آدمی نے کہا جو میں نے ایک ویران زمین کو لیا اس کو آباد کیا اور میں اس کا خراج ادا کرتا ہوں انہوں نے اس سے روک دیا پھر فرمایا کہ تم لوگ نہ ارادہ کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کافر کو اس کا بنایا ہو کہ وہ اسے اس کی گردن سے اتار کر اپنی گردن میں ڈال لے۔ پھر (یہ آیت تلاوت فرمائی) ” قاتلوا الذین لا یومنون باللہ “ سے لے کر ” وھم صغرون “ تک۔
Top