Dure-Mansoor - At-Tawba : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا١ۚ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمُشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع) نَجَسٌ : پلید فَلَا يَقْرَبُوا : لہٰذا وہ قریب نہ جائیں الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ : مسجد حرام بَعْدَ : بعد عَامِهِمْ : سال هٰذَا : اس وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تمہیں ڈر ہو عَيْلَةً : محتاجی فَسَوْفَ : تو جلد يُغْنِيْكُمُ : تمہیں غنی کردے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖٓ : اپنا فضل اِنْ : بیشک شَآءَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اے ایمان والو ! مشرکین پلید ہیں سو وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ آئیں اور اگر تم فقر سے ڈرتے ہو تو عنقریب اللہ تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا اگر چاہے بیشک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے
1:۔ احمد ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے اس سال کے بعد کوئی مشرک مسجد حرام میں داخل نہیں ہوگا سوائے معاہدہ کرنے والوں اور تمہارے خدمت کرنے والوں کے۔ 2:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ وابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجدالحرام بعد عامہم ھذا “ (یعنی مشرک اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ جائیں) مگر وہ (کسی مسلمان کا) غلام ہو یا ذمی لوگوں میں سے ہو (ان کو اجازت ہے) 3:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” انما المشرکون نجس “ یعنی پلید و ناپاک ہیں “ (آیت) ” فلا یقربوا المسجدالحرام بعد عامہم ھذا “ اور یہ وہ سال تھا جس میں ابوبکر ؓ نے حج کیا اور علی ؓ نے اعلان فرمایا اور یہ ہجرت کا نواں سال تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے آئندہ سال میں الوداعی حج کیا۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ نے حج نہیں کیا جب سے آپ نے ہجرت فرمائی جب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو مسجد حرام سے روک دیا تو یہ حکم مسلمان پر بھاری گزرا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” وان خفتم علیۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلۃ ان شآء “ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس خراج اور اس پر نافذ شدہ جزیہ سے مستفعی کردیا جو وہ ان سے ہر مہینہ اور ہر سال بعد لیتے تھے۔ (اب) کسی مشرک کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب جائے مگر یہ کہ جزیہ ادا کرنے والا ہو یا مسلمان میں سے کسی آدمی کا غلام ہو۔ 4:۔ سعید بن منصور وابن منذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مشرکین بیت اللہ کی طرف آتے تھے اور اپنے ساتھ غلہ لاتے تھے کہ اس میں وہ تجارت کرتے تھے جب بیت اللہ سے ان کو روک دیا گیا تو مسلمانوں نے کہا ہمارے لئے غلہ کون لائے گا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” وان خفتم علیۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلۃ ان شآء “ ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش کو نازل فرمایا ان کی خوشحالی اور خیر میں اضافہ ہوگیا جب مشرکین ان سے چلے گئے۔ 5:۔ ابن جریر وابوالشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت) انما المشرکون نجس فلایقربوا المسجد الحرام بعد عامہم ھذا “ نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ کے اصحاب پر (یہ حکم) بھاری گزرا۔ اور انہوں نے کہا ہمارا غلہ اور سامان کون لائے گا تو (یہ آیت) ” وان خفتم عیلۃ (الآیہ) نازل ہوئی۔ 6:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا جب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو مسجد حرام سے روک دیا۔ تو شیطان نے ایمان والوں کے دلوں میں (یہ بات) ڈالی اور کہا کہ تم کہاں سے کھاؤ گے اور مشرکین کو روک دیا گیا اور تم سے قافلوں کو کاٹ دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وان خفتم علیۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلۃ ان شآء “ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرمایا اور ان کو اپنے فضل سے غنی کردیا۔ مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے : 7:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے آیت کے بارے میں فرمایا کہ ایمان والوں نے کہا مشرکین کی منڈیوں سے ہم اشیاء لے لیتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ وہ ان کو اپنے فضل سے غنی کردیں گے ان کافروں کے بدلے میں لیکن وہ لوگ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔ یہ آیت سورة براۃ کی پہلی آیتوں میں سے ہے قرات میں اور اس کی آخری آیتوں میں سے ہے تاویل کے لحاظ سے۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ سارے حرم میں مشرک داخل نہیں ہوگا اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ 9:۔ عبدالرزاق والنحاس نے اپنی ناسخ میں عطاء (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فلایقربو المسجد الحرام “ سے مراد دیوار حرم ہے اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ سارے حرم میں مشرک داخل نہ ہوگا۔ 10:۔ عبدبن حمید وابن منذر وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان خفتم عیلۃ “ میں علیہ سے مراد ہے فاقہ۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جاری رہنے والے جزیہ (یعنی ٹیکس) سے مالدار بنا دیا۔ 12:۔ ابوالشیخ نے اوزاعی (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن عبدالعزیز (رح) نے لکھا کہ یہود و نصاری کی مسجدوں میں داخل ہونے سے روک دیا جائے اور اس میں انہوں نے اس نبی کی اتباع کی (آیت) ” انما المشرکون نجس “ 13:۔ ابوالشیخ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انما المشرکوں نجس “ (کی وجہ سے) جو ان سے مصافحہ کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے۔ 14:۔ ابوالشیخ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی مشرک سے مصافحہ کیا تو اس کو چاہئے کہ وضو کرے یا اس کو چاہئے کہ اپنے ہاتھوں کو دھوئے۔ 15:۔ ابن مردویہ نے ہشام بن عروہ (رح) سے روایت کیا کہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور آپ نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا تو انہوں نے اسے اپنے ہاتھ میں لینے سے انکار کردیا آپ نے فرمایا اے جبرئیل (علیہ السلام) تجھے کس چیز نے روکا ہے کہ تو میرے ہاتھ کو پکڑے انہوں نے کہا آپ نے ایک یہودی کا ہاتھ پکڑا ہے تو میں نے اپنے ہاتھ کو آپ کے ہاتھ سے چھونے کو ناپسند کیا ہے کیونکہ آپ نے ایک کافر کے ہاتھ کو چھوا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے پانی منگوا کو وضو فرمایا پھر اپنے ہاتھ کو ان کے ہاتھوں میں دیا تو انہوں نے بھی اسے پکڑ لیا (یعنی مصافحہ فرمایا) 16:۔ ابن مردویہ اور سمویہ اپنے فوائد میں ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اور ننگے ہو کر کوئی بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا۔ اور اس سال کے لئے کوئی مشرک مسجد حرام کے قریب نہیں جائے گا اور جس آدمی کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ ہے تو اس کے لئے معاہدہ کی مدت تک مہلت ہے۔ 17:۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال فرمایا کہ مسجد حرام میں کوئی مشرک داخل نہ ہوگا اور کوئی مسلمان جزیہ ادا نہیں کرے گا۔ یہود و نصاری کو جزیرۃ العرب سے نکالنا : 18۔ عبدالرزاق نے مصنف میں عمر بن عبدالعزیز (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سب سے آخر میں جو بات فرمائی وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ یہود و نصاری کو قتل کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ کرنے کی جگہ بنالیا۔ (اب) عرب کی زمین میں دو دین باقی نہیں رہیں گے (صرف ایک دین اسلام ہوگا) 19:۔ عبدالرزاق نے ابن جریر (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی موت کے وقت وصیت فرمائی کہ کسی یہودی یا نصرانی کو حجاز کی زمین میں نہ چھوڑو اور اسامہ کے لشکر کو شام کی طرف روانہ کرو اور قبط (قبیلہ) کے لئے خیروبھلائی کے مبارک کی وصیت فرمائی کیونکہ ان کے ساتھ قرابت کا تعلق تھا۔ 20:۔ ابن ابی شیبہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک مرفوع روایت میں ہے کہ مشرکین کو عرب کے جزیرہ سے نکال دو ۔ 21:۔ ابن ابی شیبہ نے ابو عبیدہ بن جراح ؓ سے روایت کیا کہ آخری بات جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی وہ یہ تھی کہ یہودیوں کو حجاز کی زمین سے نکال دو اور نجران والوں کو عرب کے جزیرہ سے نکال دو ۔ 22:۔ ابن ابی شیبہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں باقی رہا تو مشرکین کو عرب کے جزیرہ سے میں ضرور نکال دوں گا۔ حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ان کو نکال دیا۔
Top