Fahm-ul-Quran - Al-Israa : 15
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَ لَا نُطِیْعُ فِیْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا١ۙ وَّ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
اَلَمْ : کیا نہیں تَرَ : آپ نے دیکھا اِلَى : طرف، کو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے نَافَقُوْا : نفاق کیا، منافق يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لِاِخْوَانِهِمُ : اپنے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا، کافر مِنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَئِنْ : البتہ اگر اُخْرِجْتُمْ : تم نکالے گئے لَنَخْرُجَنَّ : تو ہم ضرور نکل جائیں گے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ وَلَا نُطِيْعُ : اور نہ مانیں گے فِيْكُمْ : تمہارے بارے میں اَحَدًا : کسی کا اَبَدًا ۙ : کبھی وَّاِنْ : اور اگر قُوْتِلْتُمْ : تم سے لڑائی ہوئی لَنَنْصُرَنَّكُمْ ۭ : توہم ضرور تمہاری مدد کریں گے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے اِنَّهُمْ : بیشک یہ لَكٰذِبُوْنَ : البتہ جھوٹے ہیں
آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا ؟ یہ اپنے کافر اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہارے خلاف ہم کسی کی بات نہیں مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے، اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں
فہم القرآن ربط کلام : مخلص مسلمانوں کی خدمات کے ذکر کے بعد منافقین کا ذکر۔ بنونضیر کی بدعہدی اور مسلسل سازشوں کی وجہ سے اللہ کے رسول نے انہیں ان کے علاقے سے دس دن کے اندر نکل جانے کا حکم دیا۔ بنو نضیر اپنا علاقہ چھوڑنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے پیغام بھیجا کہ تمہیں اپنا وطن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر محمد ﷺ نے آپ کی طرف پیش قدمی کی تو میں دوہزار ساتھیوں اور فلاں فلاں قبائل کے ساتھ مل کر تمہاری مدد کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین اور بنو نضیر کی سازش کو بےنقاب کرتے ہوئے نبی ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ کیا آپ نے منافقوں کی اس بات اور چال پر غور نہیں کیا کہ انہوں نے اپنے کافر بھائیوں جو اہل کتاب میں سے ہیں کہا کہ اگر انہیں جلاوطن کرنے پر مجبور کیا گیا تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور تمہارے بارے میں کسی کی کوئی بات نہیں مانیں گے۔ یعنی جنگ ہوئی تو ہم ہر صورت تمہاری مدد کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ منافق اپنی بات میں جھوٹے ہیں۔ جب بنونضیر کو ان کے علاقہ سے نکال دیا جائے گا تو منافق نہ مدینہ چھوڑ کر ان کے ساتھ جائیں گے۔ اگر بنو نضیر کی مسلمانوں کے ساتھ مڈھ بھیڑ ہوگئی تو منافق ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ بالفرض کچھ منافق بنونضیر کی مدد کے لیے نکل پڑے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ اس صورت میں ان کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ اے مسلمانو ! منافق اور یہودی اس لیے مقابلہ نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ اللہ سے زیادہ تم سے ڈرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ حقیقی سمجھ سے عاری ہوچکے ہیں، حقیقی سمجھ یہ ہے کہ انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی اور منافقت چھوڑ دے۔ مسائل 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو منافقین کی سازش اور بزدلی سے پہلے ہی آگاہ کردیا۔ 2۔ منافق مسلمانوں کی کھل کر مخالفت کرنے کی بجائے عام طور پر چھپ کر مخالفت کرتا ہے۔ 3۔ منافق اور کفار اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی بجائے لوگوں سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ 4۔ حقیقی سمجھ کا تقاضا ہے کہ انسان صرف ” اللہ “ سے ڈرتا رہے۔ 5۔ منافق اپنے وعدے میں جھوٹا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ سے ڈرنا چاہیے : 1۔ مومنوں کو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ (البقرۃ : 150) 2۔ اللہ کے بندے صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں۔ (المائدۃ : 28) 3۔” نبی “ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔ (یونس : 15، الزمر : 3) 4۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ (النور : 52)
Top