Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 42
وَ هِیَ تَجْرِیْ بِهِمْ فِیْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ١۫ وَ نَادٰى نُوْحُ اِ۟بْنَهٗ وَ كَانَ فِیْ مَعْزِلٍ یّٰبُنَیَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَ لَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِیْنَ
وَهِىَ : اور وہ تَجْرِيْ : چلی بِهِمْ : ان کو لے کر فِيْ مَوْجٍ : لہروں میں كَالْجِبَالِ : پہاڑ جیسی وَنَادٰي : اور پکارا نُوْحُ : نوح ابْنَهٗ : اپنا بیٹا وَكَانَ : اور تھا فِيْ مَعْزِلٍ : کنارے میں يّٰبُنَيَّ : اے میرے بیٹے ارْكَبْ : سوار ہوجا مَّعَنَا : ہمارے ساتھ وَلَا تَكُنْ : اور نہ رہو مَّعَ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے ساتھ
کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی۔ نوح کا بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ نوح نے پکار کر کہا بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا ، کافروں کے ساتھ نہ رہ
یہاں دو خوف باہم ملتے ہیں : ایک خاموش طبیعت کا خوف اور ایک نفس بشری کا خوف۔ وَهِىَ تَجْرِيْ بِهِمْ فِيْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ " کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی " ایسے خوفناک حالات حضرت نوح دیکھتے ہیں کہ ان کے بچوں میں سے ایک ان سے دور بھاگا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ کشتی میں سوار نہیں ہو رہا۔ یہاں باپ کی خوبیدہ پدری شفقت جاگ اٹھتی ہے اور اس گمراہ بیٹے کو وہ پکار اٹھتے ہیں۔ وَنَادٰي نُوْحُۨ ابْنَهٗ وَكَانَ فِيْ مَعْزِلٍ يّٰبُنَيَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِيْنَ : " نوح کا بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ نوح نے پکار کر کہا بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا ، کافروں کے ساتھ نہ رہ "۔ لیکن یہ نافرمان بیٹا اپنے شفیق باپ کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ یہ نوجوان اور مغرور ہے ، یہ اندازہ نہیں کرپاتا کہ طوفان کس قدر شدید ہے اور کہتا ہے : قَالَ سَاٰوِيْٓ اِلٰي جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَاۗءِ : " اس نے پلٹ کر جواب دیا میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھ جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔ " لیکن شفیق باپ تو جانتے ہیں کہ یہ عذاب کس قدر ہولناک ہے اور وہ آخری اپیل کرتے ہیں : قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ : " نوح نے کہا آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔ " اللہ کے عذاب کو نہ پہاڑ ٹال سکتے ہیں اور نہ غاروں میں کوئی اس سے چھپ سکتا ہے۔ نہ اس کے مقابلے میں کوئی حامی ہے اور نہ کوئی بچا سکتا ہے۔ صرف وہی بچ سکتا ہے جس پر اللہ کا رحم ہوجائے۔ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ : " اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا "۔ ہزارہا سال گزر چکے ہیں ، آج بھی جب ہم اس ہولناک صورت حالات کا تصور کرتے ہیں۔ تو ہماری سانس رک جاتی ہے اور ہم پر اس قدر ہیبت طاری ہوجاتی ہے کہ گویا یہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ کشتی پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان ڈول رہی ہے۔ حضرت نوح بار بار اپنے بیٹے کو پکارتے ہیں اور ان کا مغرور بیٹا انکار کرتا جاتا ہے اور پہاڑ پر چڑھتا جاتا ہے۔ اچانک ایک عظیم پہاڑ جیسی موج آتی ہے اور چشم زدن میں قسہ تمام ہوجاتا ہے۔ سب کام ختم ہوجاتا ہے اب نہ پکار ہے اور نہ انکار ہے۔ اس خوفناک فضا کا تصور دو پہلوؤں سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ پہلو ہے کہ والد اور بیٹے کے درمیان ایک حقیقی اور زندہ تعلق ہوتا ہے۔ اور دوسرا پہلو انسان کا طبعی مزاج ہے کہ طوفان پہاڑوں اور وادیوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد اب خود انسان کے بچوں کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ یہ دونوں قسم کے جذبات انسان کی شخصیت کے اندر موجود ہوتے ہیں اور قرآن کریم نے ان کی خوب تصویر کشی کی ہے۔
Top