Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور اے نبی یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ان سے کہو ، اس کا کچھ حال میں تم کو سناتا ہوں۔
درس نمبر 431 ایک نظر میں یہ سورة کہف کا آخری سبق ہے۔ اس سبق کا بڑا حصہ ذوالقرنین کے قصے کے بارے میں ہے۔ اس میں ذوالقرنین کے تین سفروں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ سفر مشرق ، سفر مغرب اور سفروسط نیز اس میں یاجوج اور ماجوج کے مقابلے میں ان کی جانب سے دیوار کھڑی کرنے کا خصوصی ذکر ہے۔ قرآن کریم نے اس قصے میں ذوالقرنین کا ایک قول نقل کیا ہے۔ تعمیر سد کے بعد وہ کہتا ہے۔ قال ھذا رحمۃ من ربی فاذا جآء وعد ربی جعلہ دکاء وکان وعد ربی حقاً (81 : 89) ” ذوالقرنین نے کہا ، یہ میرے رب کی رحمت ہے ، مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ “ اس کے بعد نفخ صور اور قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر آتا ہے اور اس سبق اور اس سورة دونوں کا خاتمہ تین مختصر قطعات پر ہوتا ہے۔ جن پر بات ختم کی جاتی ہے اور ہر ایک مقطعہ کا آغاز لفظ قل کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان قطعات کے ذریعہ پوری سورة کے مضامین کا خلاصہ دیا جاتا ہے اور سورة کا عام فکری رجحان بتا دیا جاتا ہے۔ گویا یہ خلاصہ کلام قاری کے دل و دماغ کی تاروں پر آخری ضربات ہیں لیکن ذرا زیادہ قوت کے ساتھ ہیں۔ محمد ابن اسحاق نے اس سورة کے شان نزول کے سلسلے میں یہ روایت نقل کی ہے۔ ” مجھے ہمارے شہر کے ایک شیخ نے بتایا ، جس نے ہمارے ہاں چالیس سال سے اوپر قیام کیا۔ انہوں نے عکرمہ ، عن ابن عباس کی سند سے روایت کی ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ قریش نے نضر ابن حارث اور عقبہ ابن ابی معیط کو مدینہ میں یہود کے علماء کے پاس بھیجا ، قریش نے ان سے کہا کہ ان علماء سے حضرت محمد ﷺ کے بارے میں دریافت کرو ، ان کا پورا تعارف کر ائو ، ان کی باتوں کے بارے میں ان کو پوری طرح آگاہ کرو ، یہ لوگ پہلے اہل کتاب ہیں ، ان کے پاس انبیاء کے بارے میں ہمارے مقابلے میں زیادہ علم ہے۔ یہ لوگ اس سفر پر نکلے یہاں تک کہ یہ مدینہ آئے ، انہوں نے یہودی علماء سے حضرت محمد ﷺ کے بارے میں سوالات کئے۔ انہوں نے حضرت محمد کا پورا تعارف کرایا اور آپ کے بعض اقوال و نظریات ان کو بتائے ان دونوں نے یہ گزاشر کی کہ تم لوگ حاملین تورات ہو ، ہم تمہارے پاس اس لئے آئے ہیں کہ تم ہمیں ہمارے اس شخص کے بارے میں صحیح معلومات دو اور اپنی رائے بھی دو ۔ کہتے ہیں کہ ان علماء نے اس وفد کو مشورہ دیا کہ ہم تمہیں تین سوالات بتاتے ہیں ، تم یہ سوالات ان سے پوچھو۔ اگر اس نے ان تینوں کے جوابات تمہیں دے دیئے تو وہ بیشک نبی مرسل ہیں ، اللہ کے سچے نبی ہیں۔ اگر انہوں نے ان سوالات کے جوابات نہ دیئے تو پھر یہ شخص باتیں بتانے والا ہے۔ تم جانو اور وہ پہلا سوال یہ ہے کہ وہ نوجوان کون تھے جو پہلے زمانے میں دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان کا معاملہ کیا تھا ؟ کیونکہ ان کا قصہ بڑا عجیب ہے۔ ان سے دوسرا سوال یہ کرو کہ وہ مہم جو شخص کون تھا جس نے کرہ ارض کے مشرق و مغرب کا سفر کیا۔ اس کے متعلق واقعات و خبریں۔ تیسرا سوال یہ کہ ان سے پوچھیں کہ روح کیا ہے۔ اگر اس نے ان تین سوالات کے جوابات دے دیئے تو وہ سچا نبی ہے۔ تمہیں چاہئے کہ اس کی اطاعت کرو ، اور اگر اس نے ان سوالات کا جواب نہ دیا تو وہ اپنی طرف سے باتیں بنانے والا شخص ہے ، اس کے بارے میں تم جو چاہو کرو۔ نضر اور عقبہ واپس قریش کے پاس آئے۔ انہوں نے رپورٹ دی کہ ہم تمہارے اور محمد کے درمیان ایک فیصلہ کن بات لے کر آئے ہیں۔ ہمیں یہودی علماء نے یہ مشورہ دیا کہ اس سے کچھ باتیں پوچھو۔ انہوں نے قریش کو یہ سوالات بتائے۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا ، محمد ہمیں ان سوالات کے بارے میں صحیح بتائو۔ انہوں نے وہ سوالات آپ کے سامنے رکھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں تمہارے سوالات کا جواب کل دوں گا لیکن آپ نے اس موقع پر لفظ انشاء اللہ نے کہا۔ یہ لوگ چلے گئے ، رسول اللہ ﷺ پندرہ شب و روز جبرئیل کا اتنظار کرتے رہے لیکن وحی نہ آئی نہ جبرئیل آئے۔ اہل مکہ مارے خوشی کے ناچنے لگے۔ وہ کہتے ہمارے ساتھ محمد کا وعدہ کل کا تھا لیکن آج پندرہواں دن ہے اور محمد ہمیں سوالات کا جواب نہیں دے سکا۔ اس پر حضور اکرم ﷺ کو بےحد رنج ہوا۔ کیونکہ ایک تو وحی بند ہوگئی ، دوسرے اہل مکہ بغلیں بجانے لگے۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل سورة کہ لے کر نازل ہوئے۔ اس سورة میں آپ کو تنبیہ کی گئی کہ آپ ان لوگوں کے باتوں سے پریشان کیو ہوئے ؟ اس سورة میں نوجوانوں کا قصہ شرق و غرب تک پہنچنے والے شخص کا قصہ اور روح کے بارے میں جواب نازل ہوا۔ یہ تو تھی ایک رویات اور حضرت ابن عباس ؓ سے آیت روح کے نزول کے سلسلے میں ایک دوسری روایت بھی مروی ہے ……نے اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ کہ یہودیوں نے حضور سے سوال کیا کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ جسم میں جو روح ہے اسے کس طرح سزا دی جاتی ہے جبکہ روح من جانب اللہ ہے ؟ اس بارے میں آپ پر کوئی آیت نازل نہ ہوئی تھی اس لئے آپ نے ان کو کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر یہ آیت ازل ہوئی۔ قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً (81 : 58) ” کہہ دو ، روح اللہ کے امر میں سے ایک امر ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ ‘ چونکہ اسباب نزول میں روایات متعدد ہیں لہٰذا ہم اسی مفہوم پر اکتفا کرتے ہیں جو قرآن کی نص قطعی سے ثابت ہے۔ اس آیت میں صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین کے بارے میں اس وقت سوال کیا گیا تھا لیکن یقینی طور پر معلوم نہیں ہے کہ یہ سوال کس نے کیا تھا۔ نیز اگر معلوم بھی ہوجائے کہ یہ سوال کس نے کن حالات میں کیا تھا تو اس سے اس قصے کے اصل حقائق اور عبرت آموزی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ تفسیر میں اسی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھیں جس حد تک نص سے بات معلوم ہوتی ہے۔ اس پر حاشیہ آرائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ماہر فلکیات ابو ریحان البیرونی نے اپنی کتاب (الا ثارلباقیۃ عن القرون الخالیہ) میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جس ذوالقرنین کا ذکر ہے وہ ملوک حمیر میں تھا انہوں نے محض اس کے نام ذوالقرنین سے یہ قیاس کیا ہے کیونکہ ملوک حمیر اپنے نام کے ساتھ (ذو) کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ مثلاً ذونواس ، اس کا نام دراصل ابوبکر بن افریقی تھا۔ یہ اپنی فوجیں لے کر بحر متوسط کے ساحل کے ساتھ ساتھ آخر تک گیا۔ تونس اور مراکش اس نے فتح کیا۔ اس نے شہر افریقہ بتایا ، بعد کے زمانوں میں پورے بر اعظم کا نام افریقہ پڑگیا اور ذوالقرنین اس کو سا لئے کہا گیا کہ یہ سورج کے دونوں سینگوں تک پہنچ گیا۔ (یعنی مشرق و مغرب تک) ۔ البیرونی کی یہ بات صحیح بیھ ہو سکتی ہے لیکن ہمارے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں کہ ہم بالجزم کوئی بات کہہ سکیں یا اس شخص کی حقیقت کے بارے میں چھان بین کرسکیں اس لئے کہ انسانی تاریخ میں اس شخص کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ہے ، جس کی تاریخ کے ایک حصے کے بارے میں ہمیں قرآن کریم بتاتا ہے۔ اس قصے کی نوعیت بھی ایسی ہے جس طرح قصص القرآن کے دور سے حصو کی ہے۔ مثلاً قصہ قوم نوح ، قوم ہود ، قوم صالح وغیرہ۔ کیونکہ ان قصص کا تعلق جس دور سے ہے وہ ماقبل التاریخ دور ہے۔ تاریخ نو دور جدید کی ایک مولود چیز ہے جبکہ انسانوں کا زمانہ اس سے بہت پہلے کا ہے۔ زمانہ ” تاریخ مدون “ سے قبل ایسے واقعات گزرے ہیں جن کے بارے میں انسان کو کوئی علم نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی ایسا تاریخی ریکارڈ نہیں ہے ، جہاں سے ہم کوئی یقینی بات اخذ کرسکیں۔ اگر تورات تحریف اور اضافوں سے پاک ہوتی تو وہ ان قدیم واقعات کے بارے میں ایک قابل اعتماد ریکارڈ ہوتی۔ لیکن تورات ایسے قصے کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ نیز اس میں ایسی باتیں کثرت سے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصل وحی پر اضافہ ہیں۔ تو رات میں جو تاریخی قصے ہیں وہ تاریخ کا مستند ماخذ نہیں ہو سکتے۔ اب قرآن ہی وہ ماخذ رہ جاتا ہے جو حذف و اضافہ اور تحریف سے پاک ہے اور اس کے اندر جو بھی تاریخی مواد ہے وہ درست ہے۔ ایک نہایت ہی مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ اب ہم قرآن کریم کی تاریخ کی روشنی میں نہیں پڑھ سکتے۔ اس کی دو واضح وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ تاریخ بالکل دور جدید کی لکھی ہوئی چیز ہے اور ہے بھی نامکمل۔ انساین تاریخ کے کئی واقعات بلکہ بیشمار اہم واقعات میں ریکارڈ ہونے سے بالکل رہ گئے ہیں۔ ان کے بارے میں انسانوں کو اب کوئی علم نہیں ہے۔ قرآن کریم ان واقعات میں سے بعض واقعات کو پیشک رتا ہے جن کے بارے میں تاریخ فہمی دامن ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تاریخ نے اگرچہ بعض واقعات کو سمجھا اور قلم بند کیا ہے لیکن یہ کام بہرحال دوسرے انسانی اعمال کی طرح قصور اور غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ اس میں غلطی اور تخریف کا ہر جگہ امکان موجود ہے ۔ ہم خود اپنے زمانے میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ذرائع مواصلات ترقی کر گئے ہیں اور تحقیقات کے لئے بیشمار ذرائع میسر ہیں لیکن ایک ہی واقعہ کے بارے میں رپورٹروں کی رپورٹ مختلف ہوتی ہے۔ لوگ مختلف زاویوں سے اسیب یان کرتے ہیں اور متضاد تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ خام مواد جس سے انسانوں کی تاریخ کو مرتب کیا گیا ہے۔ کوئی جس قدر چاہے تحقیق و تفتیش کا دعویٰ کیوں نہ کرے تاریخی ریکارڈ بہرحال مشکوک ہوتا ہے۔ یہ بات کرنا تو موجودہ دور کے مرتب کردہ اصول تاریخ کے بھی خلاف ہے کہ قرآن مجید جن واقعات کا ذکر کرتا ہے ان کو ہم تاریخ کی کسوٹی پر رکھیں ، جبکہ اسلامی عقیدہ اور اسلامی نظریہ حیات تو اس کی سرے سے اجازت ہی نہیں دیتا کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید ایک قول فیصل ہے۔ اس اندازہ کی بات نہ تو وہ شخص کرسکتا ہے جو ایک سچا مومن ہے اور نہ وہ شخص کر سکات ہے جو دور جدید کے انداز تحقیق و تفتیش کو جانتا ہے۔ قرآن کریم کی صحت کو تاریخ سے معلوم کرنا محض بےعقلی ہے۔ پوچھنے والوں نے ذوالقرنین کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کچھ سوالات پوچھے۔ آپ کی سیرت کے مصدقہ ذرائع اور مصادر بتاتے ہیں کہ آپ پر اللہ نے وحی بھیجی اور وہ قرآن میں قلم بند کردی گئی۔ قرآن کے سوا اس دور کی تاریخ کے بارے میں اور کوئی ریکارڈ موجود نہی ہے لہذا ہم بغیر علم کے اس کے بارے عقل گھوڑے نہیں دوڑا سکتے۔ تفاسیر میں بیشمار اقوال وارد ہیں لیکن ہماری تفسیروں کے بیشمار اقوال بھی قابل یقین نہیں ہیں۔ ہم ان تفاسیر کے اقوال میں سے جو قول بھی لیں ہمیں چاہئے کہ اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کریں کیونکہ ہماری قدیم تفاسیر میں اسرائیلیات اور قصے کہانیاں بھی راہ پا گئی ہیں۔ قرآن مجید کے سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے تین سفر کئے۔ ایک سفر مشرق ، ایک سفر مغرب اور تیسرا سفر (بین البدین) دو بندوں والی جگہ کا سفر۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن کریم کے مطابق انہی تین سفروں کو یہاں لیں۔ قرآن کریم ذوالقرنین کی بات یوں شروع کرتا ہے۔
Top