Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور آپ سے پوچھتے ہیں
عَنْ
: سے (بابت)
ذِي الْقَرْنَيْنِ
: ذوالقرنین
قُلْ
: فرمادیں
سَاَتْلُوْا
: ابھی پڑھتا ہوں
عَلَيْكُمْ
: تم پر۔ سامنے
مِّنْهُ
: اس سے۔ کا
ذِكْرًا
: کچھ حال
اور اے نبی یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ان سے کہو ، اس کا کچھ حال میں تم کو سناتا ہوں۔
درس نمبر 431 ایک نظر میں یہ سورة کہف کا آخری سبق ہے۔ اس سبق کا بڑا حصہ ذوالقرنین کے قصے کے بارے میں ہے۔ اس میں ذوالقرنین کے تین سفروں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ سفر مشرق ، سفر مغرب اور سفروسط نیز اس میں یاجوج اور ماجوج کے مقابلے میں ان کی جانب سے دیوار کھڑی کرنے کا خصوصی ذکر ہے۔ قرآن کریم نے اس قصے میں ذوالقرنین کا ایک قول نقل کیا ہے۔ تعمیر سد کے بعد وہ کہتا ہے۔ قال ھذا رحمۃ من ربی فاذا جآء وعد ربی جعلہ دکاء وکان وعد ربی حقاً (81 : 89) ” ذوالقرنین نے کہا ، یہ میرے رب کی رحمت ہے ، مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ “ اس کے بعد نفخ صور اور قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر آتا ہے اور اس سبق اور اس سورة دونوں کا خاتمہ تین مختصر قطعات پر ہوتا ہے۔ جن پر بات ختم کی جاتی ہے اور ہر ایک مقطعہ کا آغاز لفظ قل کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان قطعات کے ذریعہ پوری سورة کے مضامین کا خلاصہ دیا جاتا ہے اور سورة کا عام فکری رجحان بتا دیا جاتا ہے۔ گویا یہ خلاصہ کلام قاری کے دل و دماغ کی تاروں پر آخری ضربات ہیں لیکن ذرا زیادہ قوت کے ساتھ ہیں۔ محمد ابن اسحاق نے اس سورة کے شان نزول کے سلسلے میں یہ روایت نقل کی ہے۔ ” مجھے ہمارے شہر کے ایک شیخ نے بتایا ، جس نے ہمارے ہاں چالیس سال سے اوپر قیام کیا۔ انہوں نے عکرمہ ، عن ابن عباس کی سند سے روایت کی ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ قریش نے نضر ابن حارث اور عقبہ ابن ابی معیط کو مدینہ میں یہود کے علماء کے پاس بھیجا ، قریش نے ان سے کہا کہ ان علماء سے حضرت محمد ﷺ کے بارے میں دریافت کرو ، ان کا پورا تعارف کر ائو ، ان کی باتوں کے بارے میں ان کو پوری طرح آگاہ کرو ، یہ لوگ پہلے اہل کتاب ہیں ، ان کے پاس انبیاء کے بارے میں ہمارے مقابلے میں زیادہ علم ہے۔ یہ لوگ اس سفر پر نکلے یہاں تک کہ یہ مدینہ آئے ، انہوں نے یہودی علماء سے حضرت محمد ﷺ کے بارے میں سوالات کئے۔ انہوں نے حضرت محمد کا پورا تعارف کرایا اور آپ کے بعض اقوال و نظریات ان کو بتائے ان دونوں نے یہ گزاشر کی کہ تم لوگ حاملین تورات ہو ، ہم تمہارے پاس اس لئے آئے ہیں کہ تم ہمیں ہمارے اس شخص کے بارے میں صحیح معلومات دو اور اپنی رائے بھی دو ۔ کہتے ہیں کہ ان علماء نے اس وفد کو مشورہ دیا کہ ہم تمہیں تین سوالات بتاتے ہیں ، تم یہ سوالات ان سے پوچھو۔ اگر اس نے ان تینوں کے جوابات تمہیں دے دیئے تو وہ بیشک نبی مرسل ہیں ، اللہ کے سچے نبی ہیں۔ اگر انہوں نے ان سوالات کے جوابات نہ دیئے تو پھر یہ شخص باتیں بتانے والا ہے۔ تم جانو اور وہ پہلا سوال یہ ہے کہ وہ نوجوان کون تھے جو پہلے زمانے میں دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان کا معاملہ کیا تھا ؟ کیونکہ ان کا قصہ بڑا عجیب ہے۔ ان سے دوسرا سوال یہ کرو کہ وہ مہم جو شخص کون تھا جس نے کرہ ارض کے مشرق و مغرب کا سفر کیا۔ اس کے متعلق واقعات و خبریں۔ تیسرا سوال یہ کہ ان سے پوچھیں کہ روح کیا ہے۔ اگر اس نے ان تین سوالات کے جوابات دے دیئے تو وہ سچا نبی ہے۔ تمہیں چاہئے کہ اس کی اطاعت کرو ، اور اگر اس نے ان سوالات کا جواب نہ دیا تو وہ اپنی طرف سے باتیں بنانے والا شخص ہے ، اس کے بارے میں تم جو چاہو کرو۔ نضر اور عقبہ واپس قریش کے پاس آئے۔ انہوں نے رپورٹ دی کہ ہم تمہارے اور محمد کے درمیان ایک فیصلہ کن بات لے کر آئے ہیں۔ ہمیں یہودی علماء نے یہ مشورہ دیا کہ اس سے کچھ باتیں پوچھو۔ انہوں نے قریش کو یہ سوالات بتائے۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا ، محمد ہمیں ان سوالات کے بارے میں صحیح بتائو۔ انہوں نے وہ سوالات آپ کے سامنے رکھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں تمہارے سوالات کا جواب کل دوں گا لیکن آپ نے اس موقع پر لفظ انشاء اللہ نے کہا۔ یہ لوگ چلے گئے ، رسول اللہ ﷺ پندرہ شب و روز جبرئیل کا اتنظار کرتے رہے لیکن وحی نہ آئی نہ جبرئیل آئے۔ اہل مکہ مارے خوشی کے ناچنے لگے۔ وہ کہتے ہمارے ساتھ محمد کا وعدہ کل کا تھا لیکن آج پندرہواں دن ہے اور محمد ہمیں سوالات کا جواب نہیں دے سکا۔ اس پر حضور اکرم ﷺ کو بےحد رنج ہوا۔ کیونکہ ایک تو وحی بند ہوگئی ، دوسرے اہل مکہ بغلیں بجانے لگے۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل سورة کہ لے کر نازل ہوئے۔ اس سورة میں آپ کو تنبیہ کی گئی کہ آپ ان لوگوں کے باتوں سے پریشان کیو ہوئے ؟ اس سورة میں نوجوانوں کا قصہ شرق و غرب تک پہنچنے والے شخص کا قصہ اور روح کے بارے میں جواب نازل ہوا۔ یہ تو تھی ایک رویات اور حضرت ابن عباس ؓ سے آیت روح کے نزول کے سلسلے میں ایک دوسری روایت بھی مروی ہے ……نے اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ کہ یہودیوں نے حضور سے سوال کیا کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ جسم میں جو روح ہے اسے کس طرح سزا دی جاتی ہے جبکہ روح من جانب اللہ ہے ؟ اس بارے میں آپ پر کوئی آیت نازل نہ ہوئی تھی اس لئے آپ نے ان کو کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر یہ آیت ازل ہوئی۔ قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً (81 : 58) ” کہہ دو ، روح اللہ کے امر میں سے ایک امر ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ ‘ چونکہ اسباب نزول میں روایات متعدد ہیں لہٰذا ہم اسی مفہوم پر اکتفا کرتے ہیں جو قرآن کی نص قطعی سے ثابت ہے۔ اس آیت میں صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین کے بارے میں اس وقت سوال کیا گیا تھا لیکن یقینی طور پر معلوم نہیں ہے کہ یہ سوال کس نے کیا تھا۔ نیز اگر معلوم بھی ہوجائے کہ یہ سوال کس نے کن حالات میں کیا تھا تو اس سے اس قصے کے اصل حقائق اور عبرت آموزی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ تفسیر میں اسی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھیں جس حد تک نص سے بات معلوم ہوتی ہے۔ اس پر حاشیہ آرائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ماہر فلکیات ابو ریحان البیرونی نے اپنی کتاب (الا ثارلباقیۃ عن القرون الخالیہ) میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جس ذوالقرنین کا ذکر ہے وہ ملوک حمیر میں تھا انہوں نے محض اس کے نام ذوالقرنین سے یہ قیاس کیا ہے کیونکہ ملوک حمیر اپنے نام کے ساتھ (ذو) کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ مثلاً ذونواس ، اس کا نام دراصل ابوبکر بن افریقی تھا۔ یہ اپنی فوجیں لے کر بحر متوسط کے ساحل کے ساتھ ساتھ آخر تک گیا۔ تونس اور مراکش اس نے فتح کیا۔ اس نے شہر افریقہ بتایا ، بعد کے زمانوں میں پورے بر اعظم کا نام افریقہ پڑگیا اور ذوالقرنین اس کو سا لئے کہا گیا کہ یہ سورج کے دونوں سینگوں تک پہنچ گیا۔ (یعنی مشرق و مغرب تک) ۔ البیرونی کی یہ بات صحیح بیھ ہو سکتی ہے لیکن ہمارے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں کہ ہم بالجزم کوئی بات کہہ سکیں یا اس شخص کی حقیقت کے بارے میں چھان بین کرسکیں اس لئے کہ انسانی تاریخ میں اس شخص کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ہے ، جس کی تاریخ کے ایک حصے کے بارے میں ہمیں قرآن کریم بتاتا ہے۔ اس قصے کی نوعیت بھی ایسی ہے جس طرح قصص القرآن کے دور سے حصو کی ہے۔ مثلاً قصہ قوم نوح ، قوم ہود ، قوم صالح وغیرہ۔ کیونکہ ان قصص کا تعلق جس دور سے ہے وہ ماقبل التاریخ دور ہے۔ تاریخ نو دور جدید کی ایک مولود چیز ہے جبکہ انسانوں کا زمانہ اس سے بہت پہلے کا ہے۔ زمانہ ” تاریخ مدون “ سے قبل ایسے واقعات گزرے ہیں جن کے بارے میں انسان کو کوئی علم نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی ایسا تاریخی ریکارڈ نہیں ہے ، جہاں سے ہم کوئی یقینی بات اخذ کرسکیں۔ اگر تورات تحریف اور اضافوں سے پاک ہوتی تو وہ ان قدیم واقعات کے بارے میں ایک قابل اعتماد ریکارڈ ہوتی۔ لیکن تورات ایسے قصے کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ نیز اس میں ایسی باتیں کثرت سے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصل وحی پر اضافہ ہیں۔ تو رات میں جو تاریخی قصے ہیں وہ تاریخ کا مستند ماخذ نہیں ہو سکتے۔ اب قرآن ہی وہ ماخذ رہ جاتا ہے جو حذف و اضافہ اور تحریف سے پاک ہے اور اس کے اندر جو بھی تاریخی مواد ہے وہ درست ہے۔ ایک نہایت ہی مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ اب ہم قرآن کریم کی تاریخ کی روشنی میں نہیں پڑھ سکتے۔ اس کی دو واضح وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ تاریخ بالکل دور جدید کی لکھی ہوئی چیز ہے اور ہے بھی نامکمل۔ انساین تاریخ کے کئی واقعات بلکہ بیشمار اہم واقعات میں ریکارڈ ہونے سے بالکل رہ گئے ہیں۔ ان کے بارے میں انسانوں کو اب کوئی علم نہیں ہے۔ قرآن کریم ان واقعات میں سے بعض واقعات کو پیشک رتا ہے جن کے بارے میں تاریخ فہمی دامن ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تاریخ نے اگرچہ بعض واقعات کو سمجھا اور قلم بند کیا ہے لیکن یہ کام بہرحال دوسرے انسانی اعمال کی طرح قصور اور غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ اس میں غلطی اور تخریف کا ہر جگہ امکان موجود ہے ۔ ہم خود اپنے زمانے میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ذرائع مواصلات ترقی کر گئے ہیں اور تحقیقات کے لئے بیشمار ذرائع میسر ہیں لیکن ایک ہی واقعہ کے بارے میں رپورٹروں کی رپورٹ مختلف ہوتی ہے۔ لوگ مختلف زاویوں سے اسیب یان کرتے ہیں اور متضاد تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ خام مواد جس سے انسانوں کی تاریخ کو مرتب کیا گیا ہے۔ کوئی جس قدر چاہے تحقیق و تفتیش کا دعویٰ کیوں نہ کرے تاریخی ریکارڈ بہرحال مشکوک ہوتا ہے۔ یہ بات کرنا تو موجودہ دور کے مرتب کردہ اصول تاریخ کے بھی خلاف ہے کہ قرآن مجید جن واقعات کا ذکر کرتا ہے ان کو ہم تاریخ کی کسوٹی پر رکھیں ، جبکہ اسلامی عقیدہ اور اسلامی نظریہ حیات تو اس کی سرے سے اجازت ہی نہیں دیتا کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید ایک قول فیصل ہے۔ اس اندازہ کی بات نہ تو وہ شخص کرسکتا ہے جو ایک سچا مومن ہے اور نہ وہ شخص کر سکات ہے جو دور جدید کے انداز تحقیق و تفتیش کو جانتا ہے۔ قرآن کریم کی صحت کو تاریخ سے معلوم کرنا محض بےعقلی ہے۔ پوچھنے والوں نے ذوالقرنین کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کچھ سوالات پوچھے۔ آپ کی سیرت کے مصدقہ ذرائع اور مصادر بتاتے ہیں کہ آپ پر اللہ نے وحی بھیجی اور وہ قرآن میں قلم بند کردی گئی۔ قرآن کے سوا اس دور کی تاریخ کے بارے میں اور کوئی ریکارڈ موجود نہی ہے لہذا ہم بغیر علم کے اس کے بارے عقل گھوڑے نہیں دوڑا سکتے۔ تفاسیر میں بیشمار اقوال وارد ہیں لیکن ہماری تفسیروں کے بیشمار اقوال بھی قابل یقین نہیں ہیں۔ ہم ان تفاسیر کے اقوال میں سے جو قول بھی لیں ہمیں چاہئے کہ اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کریں کیونکہ ہماری قدیم تفاسیر میں اسرائیلیات اور قصے کہانیاں بھی راہ پا گئی ہیں۔ قرآن مجید کے سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے تین سفر کئے۔ ایک سفر مشرق ، ایک سفر مغرب اور تیسرا سفر (بین البدین) دو بندوں والی جگہ کا سفر۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن کریم کے مطابق انہی تین سفروں کو یہاں لیں۔ قرآن کریم ذوالقرنین کی بات یوں شروع کرتا ہے۔
Top