Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 217
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ١ؕ قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌ١ؕ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۗ وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ١ؕ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا١ؕ وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ
: وہ آپ سے سوال کرتے ہیں
عَنِ
: سے
الشَّهْرِ الْحَرَامِ
: مہینہ حرمت والا
قِتَالٍ
: جنگ
فِيْهِ
: اس میں
قُلْ
: آپ کہ دیں
قِتَالٌ
: جنگ
فِيْهِ
: اس میں
كَبِيْرٌ
: بڑا
وَصَدٌّ
: اور روکنا
عَنْ
: سے
سَبِيْلِ
: راستہ
اللّٰهِ
: اللہ
وَكُفْرٌ
: اور نہ ماننا
بِهٖ
: اس کا
وَ
: اور
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
: مسجد حرام
وَ اِخْرَاجُ
: اور نکال دینا
اَھْلِهٖ
: اس کے لوگ
مِنْهُ
: اس سے
اَكْبَرُ
: بہت بڑا
عِنْدَ
: نزدیک
اللّٰهِ
: اللہ
وَالْفِتْنَةُ
: اور فتنہ
اَكْبَرُ
: بہت بڑا
مِنَ
: سے
الْقَتْلِ
: قتل
وَلَا يَزَالُوْنَ
: اور وہ ہمیشہ رہیں گے
يُقَاتِلُوْنَكُمْ
: وہ تم سے لڑیں گے
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يَرُدُّوْكُمْ
: تمہیں پھیر دیں
عَنْ
: سے
دِيْنِكُمْ
: تمہارا دین
اِنِ
: اگر
اسْتَطَاعُوْا
: وہ کرسکیں
وَمَنْ
: اور جو
يَّرْتَدِدْ
: پھر جائے
مِنْكُمْ
: تم میں سے
عَنْ
: سے
دِيْنِهٖ
: اپنا دین
فَيَمُتْ
: پھر مرجائے
وَھُوَ
: اور وہ
كَافِرٌ
: کافر
فَاُولٰٓئِكَ
: تو یہی لوگ
حَبِطَتْ
: ضائع ہوگئے
اَعْمَالُهُمْ
: ان کے اعمال
فِي
: میں
الدُّنْيَا
: دنیا
وَ
: اور
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
اَصْحٰبُ النَّارِ
: دوزخ والے
ھُمْ
: وہ
فِيْهَا
: اس میں
خٰلِدُوْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
لوگ پوچھتے ہیں کہ ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہو اس میں لڑنا بہت برا ہے ، مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ اللہ پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے ۔ وہ تو تم سے لڑتے ہی جائیں گے حتیٰ کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہارے دین سے تم کو پھیر لے جائیں (اور یہ خوب سمجھ لو کہ ) تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا وآخرت میں ضائع ہوجائیں گے ۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔
متعدد روایات میں آیا ہے کہ یہ آیات عبداللہ ابن حجش کے سریہ کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک سیل شدہ خط دیا اور آٹھ افراد ان کے ساتھ روانہ کئے جو سب کے سب مہاجر تھے ، انصار کا ان میں کوئی نہ تھا۔ آپ ﷺ نے عبداللہ کو حکم دیا کہ وہ دو رات دن کے سفر سے پہلے اس خط کو نہ کھولے ۔ جب اس نے مقررہ وقت پر خط پڑھا تو اس کی عبارت یہ تھی جب تم میرے اس خط کو پڑھو تو آگے بڑھو یہاں تک کہ وادی بطن نخلہ میں جا اترو ۔ جو مکہ اور طائف کے درمیان ہے ۔ یہاں تم قریش کے حالات نگاہ میں رکھو اور ہمیں ان کی اطلاع دیتے رہو ۔ لیکن اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی اپنے ساتھ لے جانے پر مجبو رنہ کرنا ۔ یہ واقعہ بدر کبریٰ سے پہلے کا ہے ۔ عبداللہ بن حجش نے خط پڑھ کر کہا ” سر آنکھوں پر “۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہا کہ رسول ﷺ نے تو مجھے حکمم دیا ہے میں بطن نخلہ جاؤں ۔ وہاں قریش کو نگاہ میں رکھوں اور ان کے حالات کی اطلاع رسول ﷺ کو دوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس سے منع کیا ہے کہ میں تم میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے پر مجبور کروں ۔ تم میں سے جو شخص شہادت کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اسے اس کا شوق ہے تو وہ چلے اور اگر کوئی اسے ناپسند کرتا ہے تو واپس ہوجائے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کو بجالاؤں گا۔ چناچہ وہ آگے چلا اور اس کے تمام ساتھی اس کے ساتھ ہولیے ، کوئی بھی ان میں پیچھے نہ مڑا ۔ وہ مجاز کے راستے گئے اور ابھی اس راستے پر ہی تھے کہ سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان کا اونٹ گم ہوگیا۔ وہ عبداللہ بن حجش کے قافلے کے پیچھے رہ گئے تاکہ اونٹ تلاش کرلیں ۔ باقی چھ افراد آگے بڑھ گئے ۔ جب یہ بطن نخلہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کا ایک قافلہ جارہا ہے ، جس کے اونٹوں پر سامان تجارت لدا ہوا ہے ۔ اس قافلے میں عمروالحضرمی اور تین دوسرے افراد تھے ۔ عمرو کو قتل کردیا گیا اور دوگرفتار ہوئے اور ایک بھاگ نکلا ۔ انہوں نے پورے قافلے کے سامان کو قبضے میں کرلیا۔ اس دستے کا یہ خیال تھا کہ حملے کا دن جمادی الاخر کا آخری دن ہے ۔ حالانکہ دراصل حملے کا دن رجب کا پہلا دن تھا ۔ اور حرام مہینوں کا آغاز ہوگیا تھا ، جن کا احترام عرب بھی بہت زیادہ کرتے تھے اور اسلام نے بھی ان کے احترام کو برقرار رکھا تھا۔ جب یہ دستہ اس قافلے اور قیدیوں کو لے مدینہ پہنچا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے غنیمت پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں حرام مہینوں میں لڑنے کا حکم دیا ہی کب تھا ؟ قافلہ اور قیدی کھڑے کردیئے گئے اور آپ ﷺ نے ان کے لینے سے انکار فرمایا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تو لوگ گھبراگئے اور انہوں نے یقین کرلیا کہ ان سے ایک عظیم جرم کا ارتکاب ہوگیا ہے ، وہ تو مارے گئے ۔ مسلمان بھائیوں نے بھی انہیں سخت سست کہا کہ انہوں نے یہ کیا کیا ؟ قریش مکہ نے کہا محمد ﷺ اور اس کے ساتھیوں نے حرام مہینوں کی حرمت کو ختم کردیا ہے ، انہوں نے ان میں خونریزی ، مال کو چھین لیا اور لوگوں کو قید کرلیا ۔ یہودیوں نے اس واقعے سے رسول ﷺ کے لئے فال بدنکالی ۔ انہوں نے کہا : عمروالحضرمی کو واقد بن عبداللہ نے قتل کیا :” عمرو “ یعنی جنگ کی عمارت بن گئی ” حضرمی “ یعنی جنگ سرسبز ہوگئی ” واقد “ جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ غرض اس واقعے کے بعد ، گمراہ کن پروپیگنڈے کا طوفان برپا ہوگیا اور اسے مختلف مکارانہ طریقوں سے اہل عرب کے درمیان پھیلایا گیا۔ اور اس میں رسول ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو ایک ایسے شخص کی شکل میں پیش کیا گیا جو عربوں کے تمام مقدسات کا انکار کرتا ہے اور صدیوں سے قائم روایات کو پامال کررہا ہے۔ اور جب بھی مصلحت کا تقاضا ہو وہ ہر بندھن کو توڑتا ہے ۔ (نعوذباللہ) اس پروپیگنڈا کے طوفان بدتمیزی کے دوران ، اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ، جنہوں نے بات کو کاٹ کر رکھ دیا اور معاملے کا فیصلہ سچائی کے ساتھ کردیا گیا۔ رسول ﷺ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو قبول فرمالیا : يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ” لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہو : اس میں لڑنا بہت برا ہے۔ “ یہ آیات نازل ہوئیں ۔ انہوں نے حرام مہینوں میں لڑائی جھگڑے کو تو برا اور گناہ کبیرہ قرار دیا اور کہا یہ تو ٹھیک ہے ، لیکنوَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ” مگر راہ اللہ سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ اللہ پرستوں کا بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا ، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے۔ “ یہ جنگ مسلمانوں نے شروع نہ کی تھی ، دشمنی کا آغاز انہوں نے کیا تھا۔ یہ تو مشرکین ہی تھے جنہوں نے پہل کی ۔ انہی لوگوں نے اللہ کی راہ میں لوگوں کو روکا ، انہی لوگوں نے اللہ سے کفر کیا۔ انہی لوگوں نے اللہ پرستوں کو مسجد حرام سے روکا ۔ انہی لوگوں نے اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے ہر گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ۔ انہوں نے خود بھی اللہ کا انکار کیا اور لوگوں کو بھی اللہ کا منکر بنایا ۔ انہوں نے مسجد حرام کی حرمت کا بھی انکار کیا اور اس کی حرمت کو توڑا ۔ اس میں مسلمانوں کو اذیت دی اور ہجرت سے پہلے پورے تیرہ سال تک ، وہ مسلمانوں کو اذیتیں دے دے کر انہیں ان کے دین سے روکتے رہے ۔ پھر انہوں نے اس پر بھی اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے مسجد حرام کے باشندوں کو ان کے گھروں سے نکالا حالانکہ وہ قابل احترام اور امن کی جگہ تھی ۔ انہوں نے حرم کے تقدس کا کوئی خیال نہ رکھا اور اس کے احترام کے کسی اصول پر عمل نہ کیا ۔ اللہ کے نزدیک باشندگان حرم کو ان کے گھروں سے نکالنا حرام مہینوں میں جنگ کرنے سے زیادہ برا ہے ۔ اور لوگوں کو محض دین اور نظریہ کی وجہ سے مصائب میں مبتلا کرنا اور انہیں تکالیف پہنچانا قتل سے بھی زیادہ برا ہے ۔ چونکہ مشرکین مکہ نے اعلانیہ ان دوکبائر کا ارتکاب کرلیا تھا ، لہٰذا ان کا یہ استدلال کہ مسلمانوں نے حرام مہینوں کے احترام کا کوئی خیال نہیں کیا ، یا بیت الحرام کی حرمت کا کوئی خیال نہیں کیا ، یہ محض پروپیگنڈا ہے اور ساقط الاعتبار ہے ۔ چناچہ ان آیات کے ذریعہ خود مسلمانوں کا موقف واضح ہوکر سامنے آگیا کہ مسلمان تو درحقیقت ان لوگوں کے خلاف برسرپیکار ہیں جو حرم مقدس کا کوئی احترام نہیں کرتے ۔ دراصل حرم شریف اور حرام مہینوں کے احترام کو اپنے لئے ایک پردہ اور پناہ بنالیا ہے جس کی آڑ میں یہ لوگ جب چاہیں قداست اور پاکی کا ڈھنڈورا پیٹیں اور جب چاہیں اس تقدس کو پامال کردیں ۔ مسلمانوں کا یہ فرض تھا کہ یہ لوگ جہاں ملیں انہیں ختم کردیں کیونکہ یہ لوگ باغی اور شرپسند ہیں ، کسی احترام کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے ، کسی جعلی پردے کے پیچھے من مانی کرنے نہ دیتے ۔ کیونکہ ان کے دل میں کوئی حقیقی احترام نہیں ہے۔ حرمتوں کے شعار اور روایات دراصل ایک حق بات تھی مگر اس سے وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے ، کفار مکہ ماہ حرام کی بےحرمتی کا جو پروپیگنڈا کررہے تھ ، وہ تو محض ظاہرداری تھی ، اس کے پردے میں چھپ کر دراصل وہ ثابت یہ کرنا چاہتے تھے ، مسلمان زیادتی کررہے ہیں اور یہ ان کا موقف درست نہیں ہے ۔ حالانکہ ظلم و زیادتی کی ابتدا خود انہوں نے کی ۔ یہ وہی تھے جنہوں نے بیت الحرام کی حرمت کا کوئی خیال نہ کیا۔ اسلام زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ نظم ہے ۔ وہ محض مثالوں اور نطریاتی شکلوں پر مبنی نہیں ہے وہ انسانی زندگی کا حقیقت پسندانہ مطالعہ کرتا ہے۔ اس کی مشکلات ، اس کے میلانات اور اس کے واقعی حالات پر نظر رکھتا ہے۔ اس کی حقیقت پسندانہ راہنمائی کرتا ہے ۔ وہ اس زندگی کو زمین پر بطور حقیقت واقعیہ چلاتا ہے اور آہستہ آہستہ اسے ترقی کی سمت میں لے جاتا ہے ۔ وہ اس کے مسائل کو اس طرح حل کرتا ہے کہ وہ حل ایک عملی حل ہو۔ محض خام خیالی اور فلسفیانہ تخلیات ہی نہ ہوں بلکہ وہ ایسا حل پیش کرتا ہے جو عملی دنیا میں چل بھی سکے ۔ اب ذرا قریش کی حالت کو دیکھئے ۔ یہ لوگ سخت ظالم اور سرکش تھے ، مقامات مقدسہ میں کچھ حیثیت ہی نہ رکھتے تھے ۔ وہ حرمتوں کے تقدس کے قائل ہی نہ تھے ۔ وہ ہر اچھے اخلاق ، ہر دینداری اور ہر اچھے نظریہ کو کچل رہے تھے ۔ حق کے مقابلے میں اکڑگئے تھے اور لوگوں کو حق قبول کرنے سے روکتے تھے ۔ مومنین کو انہوں نے فتنوں میں مبتلا کررکھا تھا ، اور انہیں سخت اذیتیں پہنچاتے تھے ، وہ انہیں مسجد حرام سے نکال رہے تھے حالانکہ عربوں کی روایات کے مطابق مسجد حرام اور بیت الحرام درالامان تھے اور ان میں انسان کیا ، حیوانوں اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی امن امان حاصل تھا ، لیکن ان سب حقائق کے باوجود ان لوگوں نے ان حرمتوں کی آڑ میں پوری دنیا کو سر پر اٹھا رکھا تھا ، اور ان حرمتوں کا ڈھنڈوراپیٹ رہے تھے ۔ وہ چلاتے تھے دیکھو ، یہ ہے محمد ﷺ اور اس کے ساتھی ، انہوں نے حرام ماہ کی حرمت کو پامال کردیا۔ اب دیکھئے اسلام ان کے مقابلے میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ کیا اسلام ان کے مقابلے میں کوئی نظری ، مثالی اور خیالی جواب لاتا ہے اور مسئلے کا نظریاتی جائزہ لیتا ہے ۔ اگر اسلام اس معاملے میں کوئی خیالی حل پیش کرتا ہے تو یقینا ً وہ آئیڈیل ضرور ہوتا لیکن نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں کی حالت یہ ہوتی کہ ان کو غیر مسلح کردیا جاتا۔ جب کہ ان کا مقابلہ ایک ایسے شریر اور سرکش دشمن سے تھا ، جو ہر ہتھیار استعمال کرتا تھا اور کوئی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہ کرتا تھا ۔ ہرگز نہیں ، اسلام کبھی بھی یہ رویہ اختیار نہیں کرتا کیونکہ اس کا مقابلہ ایک حقیقی صورت حال سے تھا۔ اس نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنا تھا ۔ اور اسے اپنے راستے سے ہٹانا تھا۔ اسلام شر و فساد کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔ وہ اس زمین کے اختیارات ایک صالح قوت کے ہاتھ میں دینا چاہتا تھا ، وہ اختیارات اور قیادت ایک صالح جماعت کے ہاتھ میں دینا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ ہرگز یہ نہ کرسکتا تھا کہ یہ حرمتیں مفسدوں اور باغیوں کے لئے قلعہ بن جائیں اور اس کے اندر پناہ لے کر یہ لوگ پاک طینت صالح اور تعمیری کام کرنے والوں پر وار کریں ۔ اور جوابی حملے سے بالکل محفوظ بیٹھے ہوں۔ اسلام تو ان لوگوں کے مقابلے میں حرمتوں کا بہت خیال رکھتا ہے جو خود ان کا لحاظ رکھیں اور وہ حرمتوں کے اصول ودرایت کا سختی سے پابند ہے ۔ لیکن وہ ہرگز کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ خود تو ان حرمتوں کا کوئی خیال نہ کرے ، ان کو خوب توڑے اور اپنے لئے انہیں ایک حصار قرار دے رہے ہیں اور اس کی اوٹ سے نیک بندوں کو اذیت دے ، بھلے لوگوں کو قتل کرے اور ہر برائی کا مزے سے ارتکاب کرے اور ان حرمتوں کی اوٹ میں جوابی حملے سے محفوظ ومامون رہے اور لوگوں کو تلقین کرے کہ ان حرمتوں کا لحاظ رکھو۔ اسلام نے ہر معاملے میں یہی پالیسی اختیار کی ہے ، مثلاً اسلام میں غیبت حرام ہے ، لیکن فاسق کی غیبت ، غیبت ہی نہیں ہے۔ اگر وہ اپنے فسق وفجور میں مشہور ہو تو جو لوگ اس کے فسق وفجور کے نتیجے میں داغہائے سینہ رکھتے ہیں ۔ وہ معاف ہیں ۔ اسلام الجہر (بدگوئی ) کو حرام قرار دیتا ہے لیکن اس شخص کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے ، جس پر ظلم کیا گیا ہو ، اگر کوئی مظلوم ہے تو وہ اس ظالم کے خلاف علی الاعلان بدگوئی کرسکتا ہے کیونکہ یہ اس کا حق ہے ۔ اگر ظالم کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی ، اس نیت سے کہ وہ غیبت ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ظالم کو ایک اچھے اصول کی پناہ دیتے ہیں حالانکہ وہ اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ وہ اس اصول سے فائدہ اٹھائے۔ لیکن برابر کے اس معاملے میں باوجود اسلام اپنا معیار گرنے نہیں دیتا ، وہ اپنی اونچی سطح سے اتر کر ان شریروں اور ظالموں کی سطح تک نہیں اترتا ۔ وہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں اوچھے ہتھیار استعمال کرتا ہے ، نہ غیر اخلاقی وسائل یا قابل نفرت ذرائع ۔ وہ مسلمانوں کو صرف یہ حکم دیتا ہے کہ ظالموں کے ہاتھ توڑدو ، ان سے لڑائی کرو ، ان کو قتل کردو۔ اور زندگی کے ماحول کو ان سے پاک کردو ، کھلے طور پر اور علی الاعلان ۔ اصل مسئلہ ہے قیادت کا ، جب قیادت پاک لوگوں کے ہاتھ میں آجائے ، جو مومن ہوں ، سلیم الفطرت ہوں اور جب زمین کو ان لوگوں کی نجاست سے پاک کردیا جائے جو کسی حرمت کا لحاظ نہیں رکھتے اور تمام مقدسات کو پامال کرتے ہیں تب جاکر تمام مقدسات کی حرمت بحال ہوگی اور اس طرح بحال ہوگی جس طرح اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ یہ ہے اسلام ۔ صریح ، واضح ، قوی اور باطل کا سر پھوڑنے والا جس میں کوئی لگی لپٹی نہیں ۔ کوئی ہیر پھیر نہیں ۔ نہ وہ کسی دوسری طاقت کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی ہیرا پھیری کرے یا اس سے کوئی دھوکہ دے ۔ اور یہ ہے قرآن مجید جو مسلمانوں کو ایک مضبوط موقف عطا کرتا ہے ۔ اس قدر مضبوط جس پر ان کے قدم ڈگمگانہ پائیں ۔ وہ راہ اللہ میں آگے ہی بڑھتے جائیں اور اللہ کی اس زمین کو ہر قسم کے شر و فساد سے پاک کردیں ۔ قرآن مجید ان کے دل و دماغ کو شیشے کی طرح صاف نقطہ عطا کرتا ہے ، وہ ان کے دلوں میں کسی قسم کا قلق ، کسی قسم کا خلجان نہیں رہنے دیتا ، شبہات ووساوس ان کے دلوں سے ختم کردیئے جاتے ہیں ۔ قرآن صاف صاف کہتا ہے دیکھو ! وہ شر ہے ، فساد ہے ، نافرمانی ہے اور باطل ہے ، لہٰذا اسے کوئی حرمت اور کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ اس باطل کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ان حرمتوں کو ڈھال بناکر خود ان کی حرمتوں پر ضربیں لگائے ۔ قرآن مجید واضح طور پر یہ ہدایت کرتا ہے کہ اپنی منزل کی طرف بڑھتے چلو ، یقین کے ساتھ ، اطمینان کے ساتھ ، اپنے ضمیر کی سلامتی کے ساتھ اور اپنے اللہ کے ساتھ جڑے ہوئے ۔ اس حقیقت کے بیان اور اچھی طرح ذہن نشین کرنے اور مسلمانوں کو دلجمعی اور صبر وثبات دینے کے بعد اب انہیں بتایا جاتا ہے کہ جس شر سے ان کا مقابلہ ہے وہ کوئی سطحی شر نہیں ہے وہ بہت ہی گہری برائی ہے ۔ دشمنوں کا منصوبہ بہت ہی گہرا ہے اور وہ اس پر بطور اصول جمے ہوئے ہیں ۔ وَلا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ” اور وہ تم سے لڑتے ہی جائیں گے حتیٰ کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہارے دین سے تم کو پھیرکر لے جائیں۔ “ یہ ہے صحیح رپورٹ ، جو علیم وخبیر کی طرف سے ہے اور جو بتاتی ہے کہ شر اپنے ناپاک موقف پر کس قدر مصر ہے ، کفار ، مسلمانوں کو اپنے دین سے ہٹانے کے لئے کس قدر زور لگا رہے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کے دشمنوں کا یہ ایک مستقل نصب العین ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں کسی طرح اسلام سے دور کردیں ۔ دشمنان اسلام کا یہ نصب العین ایسا مستقل نصب العین ہے کہ یہ کسی دور میں اور کسی علاقے میں کبھی تبدیل نہیں ہوا ۔ زمین پر اسلام کا وجود ہی ان کو ناگوار ہے ۔ دین کے دشمن اس سے ہمیشہ خائف رہے ہیں ۔ ہر دور میں یہ لوگ اسلامی جماعت اور اسلامی تحریک سے خائف رہتے ہیں ۔ نفس اسلام سے انہیں چڑ ہے ، انہیں اس سے سخت اذیت ہوتی ہے ۔ وہ ہر وقت اس سے خوف کھاتے ہیں ۔ اسلامی نظام کی قوت اور اس کی سنجیدگی سے ہر باطل پرست خائف رہتا ہے ۔ اللہ کا ہر باغی اس سے مرعوب ہوتا ہے ۔ ہر مفسد اسلام کا ناپسند کرتا ہے ۔ اسلام بذات خود کفر سے ایک جنگ ہے ۔ اسلام کی روشن سچائی ، اس کا پائیدار نظام زندگی اور اس کا پائیدار طریق کار ہی باطل کے لئے چیلنج ہے ۔ ان خوبیوں کی وجہ سے اسلام بذات خودکفر اور فساد کے لئے اعلان جنگ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ باطل پرست ، باغی اور مفسد کبھی اسلام کو برداشت نہیں کرتے ۔ وہ ہر وقت اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ اہل اسلام کو کسی نہ کسی طرح فتنے میں ڈال دیں ۔ انہیں واپس کفر کی طرف لے آئیں ۔ چاہے کفر کی کوئی صورت ہی وہ اختیار کریں لیکن اسلام کو چھوڑدیں ۔ جب تک اس کرہ ارض پر کوئی ایسی جماعت بھی موجود ہے جس کا نصب العین اسلامی نظام زندگی ہے ، جو اسلام کی پیروکار ہو اور اسلام میں زندہ رہنا چاہتی ہو ۔ اس وقت تک باطل پرست اپنے باطل پر اور اپنے فساد پر پر امن طور پر گامزن نہیں رہ سکتے ۔ اس لئے وہ تحریک اسلامی سے ہر وقت خائف رہتے ہیں ۔ اسلام کے یہ دشمن ، مسلمانوں کے خلاف کئی قسم کی جنگ لڑتے ہیں اور اس میں قسم قسم کے ہتھیار استعمال کرتے ہیں ، لیکن ان کا مقصد ایک ہی رہتا ہے اور ہمیشہ وہی ان کے پیش نظر رہتا ہے یہ کہ اگر ان کا بس چل سکے تو یہ لوگ صادق مسلمانوں کو اپنے دین سے پھیر دیں۔ جب ان کا کوئی ہتھیار ناکارہ ہوجاتا ہے تو یہ فوراً دوسرا ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔ جب ان کا ایک ہتھیار کند ہوجاتا ہے تو یہ لوگ دوسرا ہتھیار تیز کرلیتے ہیں ، لیکن علیم وخبیر کی یہ سچی رپورٹ اپنی جگہ قائم ہے اور مسلمانوں کو ان مخالفین کے ہتھکنڈوں سے خبردار کرتی ہے کہ وہ ہتھیار نہ ڈالیں ۔ مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان کفار کی سازشوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں ۔ ان کے ساتھ جنگ پیش آئے تو اس میں صبر و تحمل سے کام لیں ۔ اور اگر ایسا نہ کریں گے تو دنیا وآخرت میں خسارہ اٹھائیں گے ۔ وہ ایسے عذاب سے دوچار ہوں گے جو کسی عذر سے معاف نہ ہوگا اور جو کسی جواز سے کم نہ ہوگا : وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ” تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوجائیں گے ۔ ایسے لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔ “ حبطت حبوط سے نکلا ہے ۔ عرب کہتے ہیں حبطت الناقۃ ، یعنی اونٹنی پھول گئی ۔ جب وہ کوئی ایسی چیز لے جس سے وہ پھول جائے اور آخر کار مرجائے (جس طرح شفتل اور بعض دوسرے چاروں سے جانور پھول جاتے ہیں ) ۔ قرآن مجید نے اس لفظ کو کفار کے اعمال کے لئے استعمال کیا ہے جس سے حسی اور معنوی مفاہیم کا تطابق بھی معلوم ہوتا ہے ۔ جس طرح اونٹنی بظاہر پھول کر بڑی ہوجاتی ہے لیکن اس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے ۔ اس طرح کفار کے اعمال بہت ہی بڑے اور پھولے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ لیکن انجام ان کا کچھ نہیں ہوتا بلکہ تباہ ہوجاتے ہیں ۔ یہی حال اس شخص کا ہوگا ، جو اسلام کو سمجھنے اور اس کا تجربہ کرلینے کے بعد ، اس سے روگردانی کرے گا ۔ محض اذیتوں اور مصیبتوں سے گھبر اکر ۔ اگر وہ حد سے گزرجائیں تو اس کا انجام یہی ہوگا جس کا اللہ نے ذکر فرمایا : کہ دنیا وآخرت میں اس کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آخرت میں وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہیں گے ۔ جو دل ایمان کا ذوق آشنا ہوجائے ، صحیح طرح وہ اسلام کو سمجھ لے ، اس بات کا امکان ہی نہیں کہ وہ فی الواقع اسلام کو چھوڑ دے اور راہ ارتداد اختیار کرے ۔ الا یہ کہ کسی کا دل و دماغ اس قدر فاسد ہوجائے جس کی اصلاح کی کوئی صورت نہ رہے لیکن یہ حکم ان لوگوں کا نہیں ہے جو ناقابل برداشت عذاب سے بچنے کے لئے تقیہ اختیار کرلیں۔ اللہ رحیم وکریم ہے ، اس نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ جب مصائب اس کی قوت برداشت سے بڑھ جائیں تو وہ ظاہری رواہ روی اختیار کرلیں بشرطیکہ ان کا دل اسلام پر ثابت قدم ہو ، قلب ایمان پر مطمئن ہو ۔ لیکن اللہ نے کسی صورت میں بھی کفر حقیقی اور ارتداد حقیقی اختیار کرنے کی کوئی رخصت نہیں دی ۔ یوں کہ وہ کافر ہوکر رہ جائے نعوذ باللہ من ذلک۔ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ تنبیہ اور تحذیر روز قیامت تک اپنی جگہ پر قائم ہے۔ مسلمان کے لئے اس بات کا کوئی عذر نہیں ہے کہ وہ مصائب اور شدائد سے تنگ آکر اپنا دین ایمان چھوڑ دے ۔ اور ایمان واسلام سے منحرف ہوجائے اور اس حق کو ترک کردے جو اس نے چکھا اور جانا ۔ بلکہ یہ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جس قدر ممکن ہو وہ مجاہدہ کرے ۔ جبر وثبات سے کام لے اور سخت جانی سے کام لے ۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو اس پر ایمان لے آئیں اور پھر اس کی راہ میں مصائب برداشت کریں یونہی نہیں چھوڑ دیتا ۔ وہ ان کی تکالیف پر انہیں جزائے خیر دیتا ہے اور وہ دو باتوں میں سے ایک ضروری ہوتی ہے یا اس کی نصرت آجاتی ہے اور مومن کامیاب ہوجاتا ہے اور یا اسے شہادت کا مقام بلند حاصل ہوجاتا ہے۔
Top