Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Naml : 64
اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَمَّنْ
: بھلا کون
يَّبْدَؤُا
: پہلی بار پیدا کرتا ہے
الْخَلْقَ
: مخلوق
ثُمَّ يُعِيْدُهٗ
: پھر وہ اسے دوبارہ (زندہ) کریگا
وَمَنْ
: اور کون
يَّرْزُقُكُمْ
: ت میں رزق دیتا ہے
مِّنَ السَّمَآءِ
: آسمان سے
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
ءَاِلٰهٌ
: کیا کوئی معبود
مَّعَ اللّٰهِ
: اللہ کے ساتھ
قُلْ
: فرما دیں
هَاتُوْا
: لے آؤ تم
بُرْهَانَكُمْ
: اپنی دلیل
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
صٰدِقِيْنَ
: سچے
” اور وہ کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے ؟ اور کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں حصہ دار ) ہے ؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو “۔
امن یبدوا الخلق ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کنتم صدقین (64) اس کائنات و مخلوقات کا آغاز ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی نہیں کرسکتا۔ نہ تخلیق کائنات کے مسئلے کو اللہ وحدہ کے وجود کو تسلیم کیے بغیر حل کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کائنات کا وجود ہی اس بات کو مستلزم ہے کہ اللہ موجود ہے۔ دنیا میں جن لوگوں نے اس کائنات کے وجود کے مسئلے کو وجود باری تعلیم کرنے کے بغیر حل کرنے کی سعی کی ہے ، درآں حالیکہ اس کائنات کے وجود ہی میں ایک معمم ارادہ اور ایک قصد اور ایک منصوبہ نظر آتا ہے تو ایسے لوگ مسئلہ کائنات کے حل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اور اللہ کی وحدانیت اس لیے ثابت ہوتی ہے کہ اس کائنات کے تمام آثار کے اندر وحدت نظر آتی ہے ، اس کی تدبیر ایک ہے ، تقدیر ایک ہے اور اس پوری کائنات کی اسکیم میں ایک ایسا ربط اور ہم آہنگی ہے کہ اس کا ایک ہی خالق تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہ تو تھا آغاز ، رہا یہ معاملہ کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کی تخلیق کا دوبارہ اعادہ کرے گا تو اس بارے میں تمام کفار اور مشرکین کو خلجان تھا۔ لیکن جو شخص اس کائنات کے آغاز کے بارے میں اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ ایک صاحب ارادہ و تدبیر ذات کی تخلیق ہے اور وہ اس کائنات کے اندر پائی جانے والی وحدت اور ربط کی وجہ سے ایک ہے تو اس کے لیے یہ تسلیم کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہوتی کہ وہ ذات اسے دوبارہ پیدا کرے گی تاکہ اس دنیا میں آنے والے لوگ اپنے اعمال کی جزا پوری کی پوری وہاں پائیں گے کیونکہ اس دنیا میں اچھے برے عمل پر انسان کو اگرچہ جزاء و سزا ملتی ہے مگر وہ پوری جزاء و سزا نہیں ہوتی۔ لہٰذا مکمل مکافات عمل کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا جہاں ہو جس میں مکمل جزاء و سزا ہو۔ اس کے بغیر اس دنیا کی زندگی کی تکمیل ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ایک آنے والی زندگی کی تصدیق ضروری ہے جس میں مکمل ہم آہنگی ، مکمل کمال نصیب ہو۔ سوال یہ ہے کہ مکافات عمل کے اصول کے مطابق جزاء و سزا اس جہاں میں کیوں نہ ہوئی۔ تو یہ ان حکمتوں کی وجہ سے جن کو خالق کائنات ہی خوب جانتا ہے۔ کیونکہ اپنی مخلوق کے تمام راز خالق ہی کے پاس ہیں۔ اور یہ وہ غائبانہ راز ہیں جن کی اطلاع اللہ نے انسان کو نہیں دی۔ یہی اصول ہے جس کے مطابق اس آیت میں سوال کیا گیا ہے کہ کس نے ابتداء اس کائنات کو پیدا کیا اور کون ہے جو دوبارہ پیدا کرے گا ؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب یہی ہے کہ کوئی نہیں ہے۔ ء الہ مع اللہ (27: 64) ” کیا ہے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الہٰ “۔ رزق دینے کا تعلق ، آغاز تخلیق سے بھی متعلق ہے اور اعادہ تخلیق سے بھی وابستہ ہے۔ اللہ کے بندوں کے رزق کا انتظام بالکل ظاہر و باہر ہے۔ نباتات کی شکل میں اور حیوانات کی شکل میں۔ پانی اور ہوا ، کھانے پینے اور سانس لینے کے لیے ضردری ہیں۔ زمین کے معدنی ذخائر اور دھاتیں بھی انسانوں کے لیے مفید اور ضروری ہیں ، جن میں مقناطیسی قوت اور بجلی کی قوت بہت ہی اہم ہے ۔ اس کائنات کے اندر اللہ نے انسانی زندگی کے لیے اس کے علاوہ اور بھی بےحدوحساب ایسی قوتیں رکھی ہیں جو انسانی زندگی کے لئے ضروری ہیں لیکن انسان کو ابھی تک ان کے بارے میں علم نہیں ہے ۔ وقفے وقفے سے اللہ تعالیٰ انسانوں کو ان کے بارے میں بتاتا جاتا ہے ۔ آسمانوں سے انسان کو کس طرح رزق فراہم ہوتا ہے ؟ دنیا میں انسان کو آسمانوں سے روشنی فراہم ہوتی ہے ، حرارت فراہم ہوتی ہے ، بارش فراہم ہوتی اور تمام دوسری چیزیں جن کا مرکز آسمانوں میں ہے اور قیامت میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو جو درجات بلند اور جو انعامات دے گا وہ بھی معنوی اعتبار سے ایک آسمانی رزق ہے کیو ن کہ قرآن بھی آسمان ارتفاع اور بلندی سے آتا ہے اور بلندی کے لیے آتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے تخلیق اور اعادہ تخلیق کے بعد اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کو آسمانوں سے رزق فراہم کرتا ہے ۔ اس لیے کہ آغاز تخلیق کے ساتھ زمین کے ارزاق کا واضح تعلق ہے ۔ تمام مخلوق زمین کے ارزاق کی وجہ سے زندہ ہیں ۔ اور آخرت کے ساتھ ان ارزاق کا تعلق بھی آغاز تخلیق سے واضح ہے۔ دنیا میں حیات انسانی کے لیے آسمانوں کے ارزاق اور سامان زیست کی ضرورت ہے اور آخرت میں یہ انعامات انسان کے جزاء و فاقا ” پوری پوری جزا “ کی صورت میں ہوں گے ۔ لہٰذا آغاز تخلیق اور زمین و آسمان کے ارزاق سے اس کا تعلق واضح ہے اور کلام الٰہی باہم حیرت انگیز انداز میں مربوط ہے۔ آغاز تخلیق اور اعادہ تخلیق تو درحقیقت پیش پا افتادہ حقائق ہیں۔ اسی طرح زمین و آسمان سے انسانوں اور تمام مخلوقات کے لیے رزق کا سامان بھی دراصل معلوم حقائق ہیں لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان حقائق پر غور نہیں کرتے۔ اس لیے قرآن نہایت زوردار اور تحدی یعنی چیلنج کے انداز میں ان کو اس طرح متوجہ کرتا ہے۔ قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین (27: 64) ” کہو لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو “۔ بیشک اس وقت بھی مخالفین اس قسم کی کوئی دلیل لانے سے عاجز رہے اور آج تک کوئی اس قسم کی کوئی دلیل نہیں لاسکا۔ یہ ہے نظریاتی مباحث میں قرآن کا انداز کلام۔ قرآن کریم کائنات کے مناظر و مشاہد پیش کرتا ہے۔ انسانی نفس کے اندر موجود حقائق کو پیش کرتا ہے۔ اس طرح قرآن جو منطق پیش کرتا ہے اس کا دائرہ اس پوری کائنات تک وسیع ہوتا ہے۔ انسانی فکر و نظر کو پوری کائنات میں گھماتا ہے۔ انسان کی فطرت کو میقل کرتا ہے تاکہ انسانی دماغ اور انسانی فطرت خود کسی نتیجے تک پہنچ سکیں جو واضح اور سادہ ہو۔ اور انسانی شعور پر جوش ہو اور اسکی وجدانی قوت اچھی طرح کام کر رہی ہو ، کیونکہ دلائل تو خود انسانی نفس اور انسانی فطرت میں موجود ہیں لیکن غفلت اور نسیان کی وجہ سے انسان ان کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اور کفر اور انکار ان دلائل پر پردے ڈال دیتے ہیں۔ چناچہ ان وجدانی اور کائناتی دلائل سے اور اپنی اس فطری منطق کے بل بوتے پر قرآن کریم انسان کو اس کائنات اور نفس انسانی کے اندر پائے جانے والے عظیم حقائق تک پہنچاتا ہے۔ یہ حقائق اس طرح واضح ہوجاتے ہیں کہ ان میں وہ شکوک و شبہات نہیں رہتے جو کسی خشک منطقی استدلال سے بذریعہ صغریٰ و کبریٰ ثابت کیے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ کتابی منطق ہم تک یونانی ثقافت کے ذریعے آتی ہے اور ہمارے علم الکلام کا حصہ بن گئی حالانکہ اس کا انداز قرآنی نہ تھا ۔ اس نے ہمیں قرآنی منطق سے دور کردیا۔ انفس وآفاق کی وا دیوں میں سیر کرتے ہوئے اور عقیدہ تو حید اور نفی شرک کو وجدانی طور پر ثا بت کرنے کے بعد ، اب قران کر یم ہمیں اس وادی میں لے جاتا ہے جو عا لم غیب کے اندر مستور ہے اور جس کے حالات صرف وہ خالق اور مدبر ہی بتا سکتا ہے جس نے اس کا ئنات کو پیدا کیا ہے یعنی یہ کہ موت بعد کیا ہوگا ۔ آخرت کس طرح کیونکہ یہ اللہ کے غیوب میں ایک غیب ہے ۔ اور قرآن منطقٰ وجد انی ہدایت اور انسانی فطرت اس کے و قوع کی شہادت دیتی ہیں اور انسان علم وادراک کے ذریعہ اس بات کے تعین سے قاصر ہیں کہ یہ گھڑی کب آئے گی ؟ قل لایعلم من فی السوتوالارض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والارض الا فی کتب مبین (75) ” ان سے کہو ، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ (تمہارے معبود تو یہ بھی) نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے۔ بلکہ آخرت کا تو علم ہی ان لوگوں سے گم ہوگیا ہے ، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں ، بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں۔ یہ منکرین کہتے ہیں ” کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوچکے ہوں گے تو ہمیں واقعی قبروں سے نکالا جائے گا ؟ یہ خبریں ہم کو بھی بہت دی گئی ہیں اور پہلے ہمارے آباؤ اجداد کو بھی دی جاتی رہی ہیں ، مگر یہ بس افسانے ہی افسانے ہیں جو اگلے وقتوں سے سنتے چلے رہے ہیں “۔ کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوچکا ہے۔ اے نبی ﷺ ، ان کے حال پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چالوں پر دل تنگ ہو۔ ۔ وہ کہتے ہیں کہ ” یہ دھمکی کب پوری ہوگی اگر تم سچے ہو ؟ “ کہو کیا عجب کہ جس عذاب کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو ، اس کا ایک حصہ تمہارے قریب ہی آلگا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب تو لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ بلاشبہ تیرا رب خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے سینے اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔ آسمان و زمین کی کوئی پوشیدہ چیز ایسی نہیں ہے جو ایک واضح کتاب میں لکھی ہوئی موجود نہ ہو “۔ غیب پر ایمان لانا ، موت کے بعد اٹھایا جانا اور پوری زندگی کے اعمال کا حساب و کتاب دینا اسلامی عقائد کے اندر ایک بنیادی عنصر ہے۔ اسلامی زوایہ سے زندگی کا کوئی نظام ان عقائد کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ آنے والے جہان پر ایمان لائے ، جہاں اعمال کی مکمل جزاء و سزا ہو اور عمل اور اس کی اجرت کے درمیان مکمل توازن ہو۔ یہ عقیدہ انسان کے دل میں جاگزیں ہو ، انسانی نفس اس کے بارے میں حساس ہو ، اور اس دنیا میں انسان کی تمام سرگرمیاں اس عقیدے پر قائم ہوں کہ اس نے آخرت میں اپنی زندگی کا پورا حساب و کتاب دینا ہے۔ انسانیت نے اپنی طویل تاریخ میں عقیدہ آخرت کے بارے میں مختلف رسولوں کے مقابلے میں عجیب و غریب موقف اختیار کیے ، حالانکہ یہ عقیدہ بہت ہی سادہ ہے اور ہادی النظر میں بہت ہی ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ جب بھی کوئی رسول آیا اور اس نے لوگوں کو عقیدہ آخرت کی طرف متوجہ کیا تو لوگوں نے اس دعوت کو بہت ہی عجیب و غریب سمجھا۔ حالانکہ یہ کائنات موجود تھی ، اس کے اوپر یہ رنگا رنگ حیات موجود تھی ، وہ کود موجود تھے کیا ان معجزات کو پہلی مرتبہ صادر کرنا اور پیدا کرنا مشکل تھا یا دوسری مرتبہ ان کو دہرانا مشکل تھا ؟ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ انسانوں نے آخرت کے بارے میں ڈرانے والوں کی دعوت سے منہ موڑا۔ وہ اس دعوت کے بارے میں بکواس کرتے رہے۔ اور کفر و انکار میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ قیام قیامت ایک غیب ہے جسے صرف اللہ جانتا ہے ، اور اس کے بارے میں علم صرف اللہ کو ہے۔ کفار نے ہمیشہ نبیوں سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ قیامت کے وقوع کے وقت کا تعین کردیں۔ جب یہ یقین نہ ہوا تو انہوں نے اس کا انکار کردیا اور اسے محض پرانے وقتوں کی ایک کہانی سمجھا کہ یہ ایک بات ہے جو پرانے وقتوں سے کہی جا رہی ہے لیکن ابھی تک واقع نہیں ہوئی۔ یہاں پہلے یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا علم آخرت کے بارے میں محدود ہے اور آخرت کا وقوع ان غیبی امور میں سے ایک ہے جس کا انسان کو علم نہیں ہے۔
Top