Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ahzaab : 18
قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَ الْقَآئِلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَا١ۚ وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ
قَدْ يَعْلَمُ : خوب جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُعَوِّقِيْنَ : روکنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَالْقَآئِلِيْنَ : اور کہنے والے لِاِخْوَانِهِمْ : اپنے بھائیوں سے هَلُمَّ : آجاؤ اِلَيْنَا ۚ : ہماری طرف وَلَا يَاْتُوْنَ : اور نہیں آتے الْبَاْسَ : لڑائی اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : بہت کم
اللہ تم میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو (جنگ کے کام میں) رکاوٹیں ڈالنے والے ہیں ، جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ” آؤ ہماری طرف جو لڑائی میں حصہ لیتے بھی ہیں تو بس نام گنانے کو
قد یعلم اللہ المعوقین ۔۔۔۔۔۔ ما قتلوا الا قلیلا (18 – 20) ” “۔ جو لڑائی میں حصہ لیتے بھی ہیں تو بس نام گنا نے کو ، جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں۔ خطرے کا وقت آجائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہے ، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آجاتے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے ، اس لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کر دئیے۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں۔ اور اگر وہ پھر حملہ آور ہوجائیں تو ان کا جی چاہتا ہے کہ اس موقع پر کہیں صحرا میں بدوؤں کے درمیان جا بیٹھیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں۔ تاہم اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیں گے “۔ آغاز یوں ہوتا ہے کہ اللہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو لوگوں کو جنگ سے روکتے ہیں اور اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ جو اپنے بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ جنگ میں شرکت نہ کریں ، گھروں میں بیٹھے رہیں۔ ولا یاتون الباس الا قلیلا (33: 18) ” “۔ یہ جہاد میں محض دکھا دے اور نام داخل کرنے کے لیے شریک ہوتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ معلوم لوگ ہیں اور ان کی مکاریاں بھی معلوم ہیں۔ اب اللہ اپنے معجزانہ قلم ان کے اور ان جیسے لوگوں کے خدوخال سے بڑی خوبصورتی سے رقم فرماتے ہیں :
Top