Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 54
وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
وَاَنِيْبُوْٓا : اور رجوع کرو اِلٰى : طرف رَبِّكُمْ : اپنا رب وَاَسْلِمُوْا لَهٗ : اور فرمانبردار ہوجاؤ اس کے مِنْ قَبْلِ : اس سے قبل اَنْ : کہ يَّاْتِيَكُمُ : تم پر آئے الْعَذَابُ : عذاب ثُمَّ : پھر لَا تُنْصَرُوْنَ : تم مدد نہ کیے جاؤ گے
اور لوٹ آئو اپنے رب کی طرف، اور اس کے مطیع بن جائو، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آدھمکے، پھر تم مدد نہیں کیے جائو گے
وَاَنِیْبُـوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَـہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ ۔ (الزمر : 54) (اور لوٹ آئو اپنے رب کی طرف، اور اس کے مطیع بن جاؤ، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آدھمکے، پھر تم مدد نہیں کیے جاؤ گے۔ ) رحمت کے طلب گاروں کے لیے رہنمائی اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس طریقے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف متوجہ ہونے والوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنی شخصیت، اپنی صلاحیتوں، اپنے رویوں اور اپنے رجحانات کا رخ بدلو۔ آج تک تم نے کبھی تو خواہشات کی پیروی کی، کبھی شیطان کی اطاعت کی، کبھی مفادات کی ہوس نے تمہیں اپنے راستے پر لگایا، کبھی مال و دولت کی محبت کے تم اسیر رہے، کبھی قوت و شوکت کے آستانے تمہاری سجدہ گاہ بنے رہے، تمہیں ان تمام حوالوں سے کٹ کر صرف پنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔ اسی کی بندگی کرنی ہے، اسی سے محبت کا تعلق قائم کرنا ہے، اسی کی خوشنودی کے حصول کو اپنا مقصود بنانا ہے۔ اس طرح سے فکر کا قبلہ درست ہوجانے کے بعد تم نے اطاعت بھی صرف اللہ تعالیٰ کی کرنی ہے۔ اپنی ذات کو بہمہ وجوہ اسی کے حوالے کردینا ہے۔ اور یہ کام اس یقین کے ساتھ کرنا ہے کہ اس کام میں تاخیر عذاب کا باعث بھی بن سکتی ہے اور عذاب آجانے کے بعد پھر کسی تدبیر کے روبعمل لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور اسی طرح اس عذاب کے ظہور کے بعد ایمان کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔ عذاب سے مراد وہ عذاب بھی ہوسکتا ہے جو رسول کی طرف سے اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد تکذیب کے نتیجے میں آیا کرتا ہے اور اس عذاب سے آخرت کا عذاب بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ آخرت کا عذاب یوں تو بہت قریب نہیں، لیکن موت کا تو کوئی وقت مقرر نہیں، وہ تو انسان کے پائوں کے تسمے سے بندھی ہوئی ہے۔ اور موت کے بعد پھر صرف قیامت ہی باقی رہ جاتی ہے، مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے اب صرف نتیجے کا ظہور باقی ہوتا ہے۔
Top