Al-Qurtubi - Maryam : 54
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِسْمٰعِيْلَ : اسمعیل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صَادِقَ الْوَعْدِ : وعدہ کا سچا وَكَانَ : اور تھے رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں اسمعیل کا بھی ذکر کرو وہ وعدہ کے سچے اور (ہمارے) بھیجے ہوئے نبی تھے
(تفسیر 54-55) اس میں چھ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذکر فی الکتب اسمعیل اس میں اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : اس اسماعیل سے مراد اسماعیل بن حزقیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا تھا تو انہوں نے ان کے سر کی جلد اتار لی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قوم کو عذاب دینے میں اختیار دیا تھا تو انہوں نے عفو طلب کیا اور اللہ تعالیٰ کے ثواب پر راضی ہوئے اور ان کا معاملہ، معاف کرنے یا عذاب دینے میں اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا۔ جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ یہ اسماعیل ذبیح ابوالعربب ابن ابراہیم ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : ذبیح حضرت اسحاق تھے۔ پہلا قول اظہر ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے٭ اور مزید بحث سورة الصافات میں آئے گی ان شاء الللہ تعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وعد الصدق کے ساتھ مشرف و عزت بخشنے کے لیے خاص کیا ہے اگرچہ یہ صفت دوسرے انبیاء کرام میں بھی موجود تھی جیسے علم، اواہ اور الصدیق، لقب کے طور پر دئیے گئے ہیں نیز وہ ان خصائل سے مشہور تھے۔ مسئلہ نمر 2 ۔ وعدہ کی سچائی محمود صفت ہے اور یہ انبیاء اور مرسلین کے اخلاق سے ہے۔ اس کی ضد وعدہ خلافی ہے اور مذموم ہے یہ فاسقین اور منافقین کے اخلاق سے ہے جیسا کہ سورة برأ میں گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اسماعیل (علیہ السلام) کی تعریف کی اور وعدہ کی سچائی کی صفت سے موصوف فرمایا۔ اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ صفت اس لیے خشی گئی کہ انہوں نے اپنے نفس پر ذبح کے وقت صبر کا وعدہ کیا تو انہوں نے صبر کیا حتیٰ کہ فدیہ دیا گیا۔ یہ ان کا قول ہے جو کہتے ہیں : ذبیح اسماعیل تھے۔ بعض علماء نے فرمایا : انہوں نے ایک شخص سے کسی جگہ ملاقات کا وعدہ کیا حضرت اسماعیل آئے اور اس جگہ اس شخص کا ایک دن اور ایک رات انتظار کرتے رہے جب دوسرا دن تھا وہ شخص آیا تو آپ نے اسے فرمایا : میں کل سے تیرے انتظار میں یہاں ہوں۔ بعض نے فرمایا : آپ تین دن انتظار میں رہے (1) اس کی مثل ہمارے نبی کریم ﷺ سے بعثت سے پہلے واقعہ آیا ہے۔ یہ واقعہ نقاش نے ذکر کیا ہے اور ترمذی وغیرہ (2) نے عبداللہ بن ابی الحمساء سے روایت کیا ہے فرمایا میں نے بعثت سے پہلے نبی اکرم ﷺ سے کوئی بیع کی تو آپ کے لیے کچھ باقی رہ گیا میں نے وعدہ کیا کہ میں وہ مال اسی جگہ لے آئوں گا پھر میں بھول گیا پھر مجھے تین دن کے بعد یاد آیا، میں آیا تو آپ ﷺ اس کی جگہ موجود تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے جوان ! تو نے مجھے بہت تکلیف دی ہے میں تین دن سے یہاں تیرا انتظار کر رہا ہوں۔ “ یہ ابو دائود کے الفاظ کا ترجمہ ہے۔ یزیدرقاشی نے کہا : حضرت اسماعیل نے بائیس دن اس شخص کا انتظار کیا تھا، یہ ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ ابن السلام کی کتاب میں ہے کہ آپ نے ایک سال انتظار کیا تھا۔ زمخشری نے یہ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ آپ نے اپنے ساتھی سے وعدہ کیا ” اس جگہ وہ اس کا انتظار کریں گے “ تو آپ نے پورا سال انتظار کیا اور قشیری نے یہ ذکر کیا ہے کہ ایک سال آپ اپنی جگہ پر رہے حتیٰ کہ جبریل امین آپ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ تاجر جس نے آپ سے بیٹھنے کا سوال کیا تھا حتیٰ کہ واپس آجائے وہ شیطان تھا آپ نہ بیٹھے اور اس کے لیے کوئی عزت نہیں۔ یہ بعید ہے اور صحیح نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے جو بھی وعدہ کیا اسے پورا کیا۔ یہ صحیح قول ہے اور آیت کا ظاہر بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اس باب سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : العدۃ دین (3) (وعدہ کرنا دین ہے) اور اثر میں مومن کا وعدہ واجب ہے یعنی مومنین کے اخلاق میں وعدہ پورا کرنا واجب ہے ہم نے کہا : یہ بطور فرض واجب نہیں کیونکہ علمائء کا اس پر اجماع ہے جو ابو عمر نے حکایت کیا ہے کہ جس نے مال کا وعدہ کیا جو موجود تھا تو وہ دوسرے قرض خواہوں کے ساتھ اس کو حساب سے لے گا اسی وجہ سے ہم نے کہا : وعدہ پورا کرنا مرئوت اور اچھی ببات ہے اس کا قطعی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ عرب وعدہ پورا کرنے پر مدح کرتے ہیں اور وعدہ شکنی پر مذمت کرتے ہیں۔ اسی طرح تم امتوں میں تھا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے : متی ما یقل حر لصاحب حاجۃ نعم یقضھا والحر للوای ضامن ” آزاد آدمی جب اپنے کسی حاجت مند ساتھی سے ہاں کہتا ہے تو اس کی حاجت پوری کرتا ہے اور آزاد آدمی وعدے کا ضامن ہوتا ہے۔ “ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وفا کرنے والا شکر اور تعریف کا مستحق ہے جبکہ عہد شکنی کرنے والا مذمت کا مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ سچ کرنے والے اور نذر پوری کرنے والے کی تعریف فرمائی تو اس کے لیے یہی مدح و ثنا کافی ہے جبکہ اس کے مخالف کے لیے مذمت ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ امام مالک نے فرمایا : جب کوئی شخص کسی کو ہبتہ کرنے کا سوال کرے اور وہ اسے ہاں کہے پھر اس کے لیے ایسا نہ کرنا ظاہر ہو تو میرے خیال میں اس پر کچھ لازم نہیں۔ امام مالک نے کہا : اگر یہ صورت اگر قرض کی ادائیگی میں ہو پھر وہ اس سے کہے کہ اس کی طرف سے قرض ادا کر دے اس نے کہا : ٹھیک ہے اور وہاں اور بہت سے افراد ہوں جو اس پر گواہی دیں تو اس پر چیز لازم ہوگی جب اس پر دو آدمی گواہی دیں۔ امام ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب اور امام اوزاعی، امام شافعی اور تمام فقہاء نے کہا : وعدہ کرنے سے کوئی چیز لازم نہیں کیونکہ یہ منافع ہیں عار یہ چیز میں اس کا قبضہ نہیں ہوا کیونکہ وہ طاری ہے اور غیر عاریہ میں جو اشخاص اور اعیان ہیں جو ہبتإ کیے جاتے ہیں ان پر قبضہ نہ ہو تو مالک کو ان میں رجوع کا حق ہوتا ہے۔ امام بخاری میں ہے : اذکرفی الکتب اسمعیل انہ کان صادق صادق الوعد، ابن اشوع نے وعدہ کی وجہ سے فیصلہ کیا یہ انہوں نے حضرت سمرہ بن جندب سے روایت کر کے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری نے فرمایا : میں نے اسحاق بن ابراہیم کو دیکھا وہ اببن اشوع کی حدیث سے حجت پکڑتے تھے (1) مسئلہ نمبر 5 ۔ وکان رسولا نبیا۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو جرہم قبیلہ کی طرف مبعوث کیا گیا اور تمام نبی جب وعدہ کرتے تھے تو اسے سچا کر دکھاتے تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا خصوصی اس صفت کے ساتھ ذکر کرنا ان کو شرف بخشنے کے لیے ہے۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ وکان یامر اھلہ، حسن نے فرمایا : اہل سے مرادان کی امت ہے اور حضرت ابن مسعود کی قرأت میں اس طرح تھا۔ وکان یامر اھلہ جرھم وولدہ بالصلوٰۃ والزکاۃ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکان عند ربہ مرضیاً یعنی پسندیدہ پاکیزہ اور صالح تھے۔ کسائی اور فراء نے کہا : جنہوں نے مرضی کہا انہوں نے رضیت کی بنا پر کہا۔ کسائی اور فراء نے کہا : اہل حجاز مرضو کہتے ہیں، نیز ان نحویوں نے کہا : عربوں میں سے کچھ لوگ رضوان، رضیان کہتے ہیں۔ پس رضوان، مرضو کی بنا پر ہے۔ بصری علماء صرف رضوان اور ریوان کہنا جائز قرار دیتے ہیں۔ ابو جعفر نحاس نے کہا میں نے ابواسحاق زجاج کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ لکھنے میں غلطی کرتے ہیں اور ریا کو یاء کے ساتھ لکھتے ہیں، پھر اس سے بڑی شدید غلطی یہ کرتے ہیں کہ ربیان کہتے ہیں اور یہ صرف ربوان اور رضوان جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ما اتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس (روم : 39) (تفسیر آیت 56-57) اللہ تعالیٰ کا ارشادہ : واذکر فی الکتب ادریسز انہ کان صدیقا نبیا۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جنہوں نے قلم کے ساتھ لکھا اور کپڑے سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کا آغاز بھی آپ سے ہوا۔ علم نجوم اور حساب اور ستاروں کے چلنے میں غورو فکر بھی آپ سے شروع ہوا۔ اور ادریس کو ادریس اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کا کثرت سے درس دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازل کیے جیسا کہ حضرت ابوذر کی حدیث میں ہے۔ زمخشری نے کہا : بعض علماء نے کہا : ادریس کو، ادریس کتاب اللہ کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ پ کا نام اخنوخ تھا اور یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ درس سے افعیل کے وزن پر ہوتا تو اس میں غیر منصرف ہونے کا صرف ایک سبب ہوتا اور وہ علمیت ہے اور اس کا غیر منصرف ہونا اس کے عجمہ ہونے پر دلیل ہے اسی وجہ سے ابلیس عجمی ہے یہ ابلاس سے مشتق نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے اور اسی طرح یعقوب، العقب سے نہیں ہے اور اسرائیل، اسرال سے نہیں ہے جیسا کہ ابن السکیت نے گمان کیا ہے۔ جو تحقیق نہیں کرتا اور علوم میں مہارت حاصل نہیں کرتا اس سے اس قسم کی اغلاط کثرت سے ہوتی ہے اور یہ جائز ہے کہ ادریس کا معنی اس لغت میں اس مفہوم کے قریب ہو اور راوی نے الدرس سے مشتق خیال کرلیا ہے۔ ثعلبی اور غزنوی وغیرہ ہما نے کہا : یہ حضرت نوح کے دادا تھے اور یہ خطا ہے۔ سورة اعراف میں اس کا بیان گذر چکا ہے اسی طرح سیرت میں واقع ہے حضرت نوح (علیہ السلام) بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ یہ ادریس نبی (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ گمان کرتے ہیں واللہ اعلم۔ اور یہ پہلے شخص تھے جس کو بنی آدم سے نبوت دی گئی تھی اور قلم کے ساتھ سب سے پہلے انہوں نے لکھا اس کا شجرہ نسب یہ ہے ادریس ببن بن برد بن مہلائیل بن قنان بن یانش بن شیث بن آدم ﷺ ۔ واللہ اعلم۔
Top