Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 138
وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰى قَوْمٍ یَّعْكُفُوْنَ عَلٰۤى اَصْنَامٍ لَّهُمْ١ۚ قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ١ؕ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ
وَجٰوَزْنَا
: اور ہم نے پار اتارا
بِبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل کو
الْبَحْرَ
: بحرِ (قلزم)
فَاَتَوْا
: پس وہ آئے
عَلٰي
: پر (پاس)
قَوْمٍ
: ایک قوم
يَّعْكُفُوْنَ
: جمے بیٹھے تھے
عَلٰٓي
: پر
اَصْنَامٍ
: صنم (جمع) بت
لَّهُمْ
: اپنے
قَالُوْا
: وہ بولے
يٰمُوْسَى
: اے موسیٰ
اجْعَلْ
: بنادے
لَّنَآ
: ہمارے لیے
اِلٰهًا
: بت
كَمَا
: جیسے
لَهُمْ
: ان کے لیے
اٰلِهَةٌ
: معبود (جمع) بت
قَالَ
: بیشک تم
اِنَّكُمْ
: بیشک تم
قَوْمٌ
: تم لوگ
تَجْهَلُوْنَ
: جہل کرتے ہو
بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا ، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے " اے موسیٰ ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جسیے ان لوگوں کے معبود ہیں۔ موسیٰ نے کہا " تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو
درس نمبر 80 ایک نظر میں اس سبق میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کی ایک دوسری کڑی چلتی ہے۔ اب آپ کا معاملہ اپنی قوم بنی اسرائیل سے ہے۔ یہ لوگ اب دشمن سے نجات پا چکے ہیں۔ اللہ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کردیا ہے۔ اور وہ تمام ترقی اور تعمیر جسے وہ سب کچھ سمجھتے تھے ، تباہ و برباد کردی گئی ہے۔ آج حضرت موسیٰ کو فرعون اور اس کے طاغوتی نظام سے واسطہ نہیں پڑا ہوا ، طاغوت کے ساتھ جو معرکہ تھا وہ تو سر ہوچکا ہے۔ آج آپ کو ایک نئے محاذ میں لڑنا ہے۔ انسانی شخصیت کے اندر جو جاہلیت رچی بسی ہوتی ہے۔ آج اس کے ساتھ معرکہ درپیش ہے۔ آج حضرت موسیٰ اس ذلت اور پستی سے برسر پیکار ہیں جو بنی اسرائیل کی شخصیت میں ، دور غلامی کے اندر تہ بہ تہ بیٹھی ہوئی ہے۔ ان کے مزاج میں کجی آگئی ہے ، ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوگئے ہیں اور میدان جنگ میں وہ سخت بزدل نظر آتے ہیں۔ زندگی اور بلند تر زندگی کی راہ میں جو مشکلات ہوتی ہیں ان کے انگیز کرنے میں وہ نہایت ہی کمزور ہیں۔ اور وہ شخصی میلانات کے بندے ہوگئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ذلت ، غلامی اور مظلومیت انسان کی شخصیت کو تباہ کردیتی ہیں۔ طویل عرصے تک خائف زندگی گزارنا۔ ، خفیہ سرگرمیاں ، کج فطرتی اور تشدد اور عذاب سے بچنے کے لیے مخفی رہنا۔ اور رات کے اندھیرے میں کام کرنا ہر وقت تشدد اور مصیبت میں ابتلاء کا ڈر ایک ایسا ماحول ہوتا ہے جس سے انسان کی فطرت میں سخت بگاڑ اور عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ بنی اسرائیل ایک طویل عرصے تک سخت ترین تشدد کا شکار رہے تھے۔ طویل عرصے تک ان پر خوف ، ڈر ، بت پرستی اور فرعونیت کا سایہ رہا۔ فرعون کی ان بچیوں کو زندہ رکھتا اور لڑکوں کو ذبح کردیتا۔ یہ سنگ دلانہ تشدد کبھی موقوف بھی ہوتا لیکن ذلت غلامی اور توہین آمیز زندگی تو مستقلاً ان کی قسمت میں تھی۔ ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا ہوگیا تھا۔ ان کا مزاج غیر معتدل ہوگیا تھا۔ فطرت میں کجی داخل ہوگئی تھی۔ خیالات بگڑ گئے تھے۔ ان کی نفسیات میں ذلت ، بزدلی ، کینہ پروری ، نفرت رچی بسی تھی۔ جب بھی کوئی انسانی طبقہ اس قسم کے مظالم کا شکار ہو تو ان میں اسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ حضرت عمر ؓ کو اللہ تعالیٰ نے ربانی بصیرت عطا کی تھی۔ آپ انسانوں کی نفسیات سے اچھی طرح باخبر تھے۔ انہوں نے اپنے تمام حکام سے کہہ رکھا تھا اور یہ وصیت کردی تھی " آپ لوگوں کے چہرے پر مار مار کر سزا مت دو ، اس طرح تم لوگوں کو ذلیل کردوگے " ان کو علم تھا کہ چہرے پر مار کی وجہ سے لوگ ذلیل ہوجاتے ہیں اور اسلام کی تو یہ بنیادی پالیسی ہے کہ رعیت کو ذلیل و خوار نہیں کرنا ہے ۔ کیونکہ اسلامی مملکت میں لوگ باعزت تصور ہوتے ہیں۔ اسلام کی پالیسی اور خواہش یہ ہے کہ لوگ باعزت ہوں۔ اور حکام کو اس بات سے منع کیا گیا کہ وہ لوگوں کو مار مار کر ذلیل کریں۔ اسلام نے یہ کہا کہ لوگ حکام کے غلام نہیں ہوتے۔ وہ اللہ کے غلام اور معزز لوگ ہوتے ہیں۔ وہ تمام غیر اللہ سے محترم ہیں۔ فرعونیت کے طاغوتی نظام میں فرعونیوں نے بنی اسرائیل کو مار مار کر ذلیل کردیا تھا۔ بلکہ ان پر جو مظالم ڈھائے گئے ان کے مقابلے میں یہ مار بالکل معمولی بات نظر آتی تھی۔ بنی اسرائیل کے بعد تمام مصری قوم کو بعد میں آنے والے حکمرانوں نے مار مار کر ذلیل کیا ، فرعونی طاغوت کے بعد رومی طاغوت نے مصریوں کو اسی طرح مار مار کر ذلیل کیا۔ ان مصائب سے مصری قوم کو صرف اسلام نے نجات دی۔ جب اسلام آیا تو اس نے مصری قوم کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نجات دی۔ عمرو ابن العاص حاکم مصر اور فاتح مصر کے بیٹے نے جب ایک قبطی کو صرف ایک کوڑا مارے جانے پر بہت ہی غصہ آیا اور وہ بھی فاتح مصر اور گورنر کے بیٹے کی طرف سے۔ اس نے اونٹنی پر سوار ہوکر ایک ماہ تک سفر کیا اور یہ شکایت حضرت عمر ابن خطاب تک پہنچائی۔ صرف ایک کوڑا مارنے کی شکایت۔ حالانکہ فتح مصر سے پہلے رومیوں کی جانب سے مارے جانے والے کئی کوڑوں پر وہ صبر کرتا تھا۔ یہ تھا اسلامی انقلاب کا معجزہ۔ جس نے قبطیوں کے اندر بھی انقلاب پیدا کردیا۔ اگرچہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ اسلام نے انسانیت کو ذلت و خواری کی جمی ہوئی تہوں کے نیچے سے نکالا اور آزادی دی۔ لوگ اس طرح اٹھے کہ ان کا جسم و روح آزاد ہوگیا اور انہوں نے اپنے آپ سے ذلت کے غبار کو ایک دم جھاڑ دیا۔ کسی غیر اسلامی نظام نے انسانیت کو اس قدر آزادی نہیں دی تھی۔ اب حضرت موسیٰ کا واسطہ اس مہم سے تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کی شخصیت سے صدیوں کی غلامی وجہ سے اور طاغوتی نظام کے تحت ذلت کی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوریوں کو دور کرنا تھا۔ بنی اسرائیل مصر سے نکل چکے تھے اور انہوں نے سمندر کو عبور کرلیا تھا۔ قرآن کریم کے بیان کردہ قصص میں ان لوگوں کی شخصیات صاف صاف نظر آتی ہیں۔ یہ غلامی کے گرد و غبار سے اٹی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آثار جاہلیت سے مقابلہ ہے۔ حضرت موسیٰ کا مقابلہ اب ان لوگوں کی کٹ حجتی ، اخلاقی بےراہ روی ، فکر و نظر کی جہالت سے ہے جو ان کی شخصیت میں ، اس طویل عرصہ اسیری میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھیں۔ اس سلسلے میں ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے حضرت موسیٰ کس قدر ان تھک مصائب برداشت کررہے ہیں۔ ان کو ایسے لوگوں سے واسطہ ہے جن کی فطرت صدیوں تک زمین بوس رہی ہے۔ ان کی حالت یہ تھی جس طرح غلاظت کا کیڑا غلاظت سے نکلنا پسند نہیں کرتا اور ذلت اور غلاظت کو اپنے لیے معمولی سمجھتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی جدوجہد میں ہر صاحب دعوت کے لیے ایک سبق ہے۔ خصوصاً ایسے صاحب دعوت کے لیے جسے ایسے لوگوں سے واسطہ ہو ، جو صدیوں تک ذلت اور غلامی میں رہے ہوں اور جنہوں نے ایسے طاغوتی نظام میں زندگی بسر کی جو ظالم بھی ہو اور متشدد بھی۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ لوگ یہ بھی جانتے ہوں کہ داعی جس طرف بلا رہا ہے وہ راہ نجات ہے۔ بلکہ وہی راہ نجات ہے لیکن ایک طویل عرصہ عالم ہونے اور مومن ہونے کی وجہ سے ان کے لیے یہ دعوت ایک عادی دعوت بن گئی ہو اور ان کا دین ایک بےروح روسمی دین بن گیا ہو۔ ایسے حالات میں ایک داعی کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ دگنا ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے داعی کے لیے صبر کی بھی بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے داعی کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی کج فہمی ، ان کی بد اخلاقی ، ان کے مزاج کی سہل انگاری اور ان کے اقدام کی سست رفتاری پر صبر کرے۔ ہر مرحلے پر ایسے لوگوں میں شکست اور دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ جانے کی خواہشات پر نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ صبر کرے۔ قصہ بنی اسرائیل کو امت مسلمہ کے لیے قرآن کریم میں اسی لیے ثبت کردیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کے لیے اس میں بڑی عبرتیں ہیں اور اسی حکمت کے تحت اسے بار بار مختلف پہلوؤں سے لایا گیا ہے۔ تاکہ امت مسلمہ اس تجربے سے فائدہ اٹھائے اور حضور اکرم ﷺ کے بعد آنے والے تمام داعیوں کے لیے بھی اس قصے میں بڑی مقدار میں زاد راہ موجود ہے۔ درس نمبر 80 تشریح آیات۔ 138 ۔ تا۔ 171 ۔۔۔ اس قصے کا یہ ساتواں منظر ہے۔ اس میں بنی اسرائیل اس وقت نظر آتے ہیں جب وہ نجات پا کر بحر قلزم سے اس پار چلے گئے ہیں۔ اب ہمیں فرعونی مناظر کے برعکس اس میں بنی اسرائیل کی سرکش ، معصیت کیش اور نہایت ہی کج مزاج شخصیت کا سامنا ہے۔ اور یہ اخلاقی کمزوریاں ان کے مزاج میں تہ بہ تہ صدیوں کی تاریخ کے دوران جمی ہوئی ہیں۔ اس پر کوئی طویل عرصہ نہ گزرا تھا کہ اللہ نے انہیں فرعون سے نجات دی تھی جس نے انہیں خوب ذلیل کرکے رکھا ہوا تھا۔ فرعون کی قوم بھی اس کام میں شریک تھی اور یہ نجات انہیں حضرت موسیٰ کی وجہ سے ملی تھی ، حضرت موسیٰ نے یہ تحریک اللہ رب العالمین کے نام سے چلائی تھی۔ رب العالمین نے ان کے دشمن کو ہلاک کیا اور ان کی نجات کے لیے سمندر کے ٹکڑے کیے اور انہیں اس ذلت آموز زندگی سے نجات دی۔ وہ تو مصر کی بت پرستی اور سرزمین ظلم سے ابھی رہا ہوکر آئے تھے۔ لیکن سمندر کو پار کرتے ہی جب وہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرتے ہیں جس کا ایک بت ہے اور وہ اس کی پوجا کرتی ہے اور ہر شخص اپنے بتوں کی پوجا پاٹ میں مشغول ہے تو وہ جھٹ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان کے لیے بھی ایسا ہی بت تجویز کردیں تاکہ وہ بھی اسی طرح پوجا پاٹ شروع کردیں حالانکہ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش خالص نظریہ توحید پر مبنی تھی اور اسی نظریہ کے تحت فرعون کی ہلاکت ہوئی تھی اور ان کو نجات ملی تھی۔ (وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰي قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰٓي اَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰـهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ ) ۔ بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا ، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے " اے موسیٰ ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جسیے ان لوگوں کے معبود ہیں۔ متعدی بیماریاں جس طرح جسم کو آ لیتی ہیں اسی طرح روحانی بیماریاں بھی متعدی ہوتی ہیں ، لیکن متعدی بیماریاں تب ہی پھیلتی ہیں جب لوگوں کے اندر ان کے پھیلاؤ کے لیے جراثیم موجود ہوں اور قرآن کریم نے جس طرح بنی اسرائیل کے مزاج کا نہایت ہی سچا ، گہرا اور ہمہ جہت نقشہ کھینچا ہے اس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ خلاقی اعتبار سے نہایت ہی بودے ، ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست تھے ، وہ گمراہی کو اسی طرح قبول کرتے تھے جس طرح پٹرول کو آگ لگتی ہے۔ وہ اٹھتے ہی گر جاتے تھے ، چند قدم ہی راہ مستقیم پر چلتے تھے کہ اچانک ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیتے تھے ، اس لیے کہ ان کے کلیجے میں گمراہی کے جراثیم داخل ہوچکے تھے۔ وہ سچائی سے دور تھے۔ ان کا احساس مر چکا تھا ، اور ان کا شعور بجھ چکا تھا۔ اچانک جب وہ ایک بت پرست قوم کو بت پرستی میں مشغول دیکھتے ہیں تو وہ حضرت موسیٰ کی بیس یا تئیس سالہ جدوجہد اور اپنی غلامی کی صدیاں بھول جاتے ہیں اور مطالبہ کردیتے ہیں کہ ان کے لیے بھی بت تجویز کیے جائیں۔ سابقہ معجزات کو تو چھوڑ دیں ایک طرف ، ابھی ابھی تو وہ سمندر پھٹا اور بڑے بڑے تودوں سے گزر کر آئے ہیں۔ جس میں ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا دشمن ہلاک کیا گیا۔ فرعون اور اس کا ظالم عملہ سب بت پرست تھے اور وہ بنی اسرائیل کے خلاف فرعون کو اسی بت پرستی کے نام پر ابھارتے تھے۔ وہ اہل فرعون کی یہ باتیں بھول گئے جو وہ کہتے تھے۔ " ا تذر موسیٰ و قومہ لیفسدوا فی الارض و یذرک و الھتک " کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ رہا ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں اور وہ تمہیں اور تمہارے الہوں کو چھوڑ دیں " یہ سب کچھ بھول بھلا کر وہ اپنے نبی اور رسول سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح تمہارے کہنے پر وسرے تمہارے کہنے پر دوسرے معجزات سرزد ہوئے اب اپنے رب سے ہمارے لیے بتوں کی منظوری بھی لے لے تاکہ ہم بھی بت پرستی شروع کردیں۔ اگر یہ لوگ خود ہی بت پرستی شروع کردیتے تو پھر بھی کوئی بات تھی مگر انہیں اس قدر حیا نہ آئی نبی اور رب العالمین سے بت پرستی کی اجازت چاہی لیکن یہ بنی اسرائیل ہیں ، ان سے سب کچھ متوقع ہے۔ اس مطالبے پر حضرت موسیٰ کو بہت غصہ آتا ہے ، جس طرح رب العالمین کے کسی رسول کو اپنے رب کے بارے میں آنا چاہئے۔ اس لیے کہ کوئی بھی رسول عقیدہ توحید کے بارے میں سخت غیرت مند ہوتا ہے اور اس کے لیے شرک ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ چناچہ آپ ان کو ایسا جواب دیتے ہیں جو ان کے لیے مناسب ہے۔ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ ۔ " موسیٰ نے کہا تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو "۔ یہاں ان کی جہالت کو مخصوص نہیں کیا گیا۔ لہذا مفہوم یہ ہوا کہ تم غایت درجے کے جاہل ہو ، اگر یہ علم کے مقابلے میں استعمال ہو تو مراد بےعلمی ہوتی ہے اور اگر یہ غلط عقل کے مقابلے میں آئے تو مراد حماقت ہوتی ہے یعنی تم غایت درجہ کے احمق اور غایت درجے کے کورے اور علم ہو۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ عقیدہ توحید سے جو لوگ منحرف ہوتے ہیں وہ جاہل بھی ہوتے ہیں اور احمق بھی ہوتے ہیں اور یہ کہ علم اور سائنس اور عقلمندی انسان کو عقیدہ توحید پر پہنچاتی ہے۔ علم اور عقل کبھی بھی عقیدہ توحید کے سوا کسی اور عقیدہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ علم اور عقل تو اس پوری کائنات کا مشاہدہ کرکے یہ شہادت پاتے ہیں کہ اس کا ایک خالق اور مدبر ہے ، یہ خالق اور مدبر ہے بھی وحدہ لاشریک۔ اس لیے کہ اس پوری کائنات کے ضوابط و قوانین اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس کا مدبر ایک ہے۔ اور جس قدر اس کائنات میں غور و فکر کیا جاتا ہے اور اس کے اندر جستجو کی جاتی ہے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ضوابط و آثار کی یک رنگی دلیل ہے وحدت خالق کی۔ اس سے اعراض اور صرف نظر وہی لوگ کرسکتے ہیں جو پرلے درجے کے جاہل ہوں یا احمق ہوں۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو عالم اور سائنس دان کہتے ہیں۔
Top