Tafseer-e-Haqqani - Maryam : 64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ
وَمَا : اور ہم نَتَنَزَّلُ : نہیں اترتے اِلَّا : مگر بِاَمْرِ : حکم سے رَبِّكَ : تمہارا رب لَهٗ : اس کے لیے مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا : جو ہمارے ہاتھوں میں ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَنَا : ہمارے پیچھے وَمَا : اور جو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے رَبُّكَ : تمہارا رب نَسِيًّا : بھولنے والا
(ملائکہ نے کہا) اور ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر اتر کر نہیں آیا کرتے۔ اسی کا ہے جو کچھ کہ ہمارے سامنے اور ہمارے پیچھے اور اس کے درمیان ہے اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں۔
تفسیر : واذکر فی الکتاب اور یہ چھٹا قصہ حضرت ادریس ( علیہ السلام) کا ہے جو نوح (علیہ السلام) کے پردادا تھے (نوح بن ملک بن متوسلح بن حنوک) یا اخنوخ ان کا نام اور ادریس لقب تھا بوجہ کثرت درس صحف ِ آسمانی کے۔ وہ صدیق نبی تھے یعنی بہت برگزیدہ۔ اس لیے رفعناہ مکانا علیا اس کے معنی بعض مفسرین کے نزدیک یہ ہیں کہ ان کو بلند مرتبہ کیا۔ وہ رفعت منزلت مراد لیتے ہیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ کی نسبت آیا ہے ورفعنا لک ذکرک اور ایک گروہ کہتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو بلند مکان میں اٹھا لیا۔ اول تقدیر میں یوں کہا جائے گا کہ خدا نے ادریس ( علیہ السلام) کا بلند مرتبہ کیا تیس صحیفے ان پر نازل کئے بہت سے علوم اور صنعتیں ان کے ہاتھ سے ایجاد ہوئیں دوسری صورت پر بعض کہتے ہیں کہ خدا نے ان کو زندہ آسمان پر بلا لیا اور جنت میں داخل کردیا۔ بعض کہتے ہیں کہ صرف آسمانوں پر بلایا۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور ادریس ( علیہ السلام) زندہ آسمانوں پر ہیں والعلم عنداللہ۔ توریت سفر پیدائش کے 5 باب 23 درس میں یہ ہے اور حنوک کی ساری عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی (24) اور حنوک خدا کے ساتھ چلتا تھا اور غائب ہوگیا اس لیے کہ خدا نے اسے لے لیا۔ ان درسوں کی شرح میں علمائِ اہل کتاب کے بھی ایسے اقوال ہیں کہ جیسا اوپر بیان ہوا۔ ان سب بزرگواروں کا ذکر خیر کر کے فرماتا ہے اولئک الذین انعم اللہ علیہم کہ یہ انبیاء اور وہ لوگ ہیں کہ جن پر خدا نے کرم و فضل کیا تھا آدم اور ابراہیم اور نوح کے ساتھ والے اور اسرائیل کی نسل اور دیگر لوگ کہ جن کو خدا نے ہدایت دی اور برگزیدہ کیا ان کا یہ حال تھا کہ اللہ کی آیتیں سن کر سجدہ میں روتے ہوئے گر پڑا کرتے تھے اور خدا کے نہایت فرمان بردار نیک کردار بندے تھے۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جو لوگ ان کو خدا جانتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں اور جو لوگ ان کی نسبت فسق و فحش کی باتیں منسوب کرتے ہیں جیسا کہ کتب یہودو نصاریٰ میں ہے وہ بھی غلطی پر ہیں ان کا یہ مرتبہ خدا کی اطاعت سے ہوا۔ پھر ان کے بعد ناخلف پیدا ہوئے جو نماز و عبادت چھوڑ کر خواہش نفسانی کے درپے ہوگئے بجز کھانے پینے جماع کرنے کے اور کوئی بات ان میں نہ رہی۔ انہوں نے طریق بگاڑ دیا سو وہ اپنے کئے کا برا نتیجہ دیکھیں گے اور جو توبہ کر گئے اور نیک ہوگئے وہ جنت میں رہیں گے جس کے یہ اوصاف ہیں کہ وہاں کوئی خراب بات ‘ دل شکن رنج دہندہ ان کی یا ان کے اعزہ و احباء کی موت یا وہاں سے نکالے جانے کی یا کسی نعمت کے زوال ہونے کی خبر یا گالی گلوچ، بدکلامی، غیبت، بدگوئی سنائی نہ دے گی۔ سلام سلام کی آوازیں سنائی دیں گی۔ آپس کا تحیہ سلام یا فرشتوں کی طرف سے سلامتی کا مژدہ یعنی تعظیم و تکریم کے کلمات۔ دوم بلامحنت و مشقت ہمہ وقت بالخصوص صبح و شام ان کو تیار روزی ملے گی روحانی و جسمانی پھر یہ بہشت ہر ایک کا حصہ اور ورثہ نہیں بلکہ ہمارے بندوں میں سے صرف انہیں کا جو پرہیزگار ہیں دراصل وہی آدم کے حقیقی فرزند ہیں اور جنت آدم کو مل چکی ہے یہی اپنے جد کا ورثہ پانے کے مستحق ہیں۔ وما نتنزل الا بامر ربک یہاں سے ایک جداگانہ کلام شروع ہوتا ہے جس کے شان نزول میں بخاری نے ابن عباس ؓ سے یوں روایت کیا کہ آنحضرت ﷺ نے جبرئیل ( علیہ السلام) سے فرمایا کہ آپ میرے پاس جلدی جلدی کیوں نہیں آیا کرتے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی گویا خدا تعالیٰ نے جبرئیل ( علیہ السلام) کی طرف سے یہ جواب دیا کہ خود نہیں آتے بلکہ تمہارے رب کے حکم سے آیا کرتے ہیں۔ وہ مصلحت وقت سے خوب واقف ہے اس کو آگے اور پیچھے کا سب حال معلوم ہے یعنی ابتداء اور انتہا اور حال سب جانتا ہے وہ جب مصلحت جانتا ہے ہم کو بھیجتا ہے دیر کر آنے میں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ خدا تعالیٰ آپ کو بھول گیا کیونکہ وہ بھولنے والا نہیں وہ رب ہے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کا اور رب وقتاً فوقتاً پرورش کیا کرتا ہے جس کو علم ہمہ وقت لازم ہے پس اے نبی ! اس کی عبادت کرو اور ہمارے دیر کر آنے سے ملول نہ ہونا بلکہ اس کے لیے عبادت میں تکالیف برداشت کرتے رہو کیوں کہ وہ یکتا ہے اس کا کوئی ہمنام بھی نہیں یعنی ایسا دوسرا نہیں جو اس بےقراری کو دفع کرسکے۔ جنت عالم قدس کے بعد یہ جملہ جبرئیل ( علیہ السلام) کی طرف سے بیان ہونا جو عالم قدس میں رہتے اور وہاں کی خبریں لایا کرتے ہیں ایک عمدہ مناسبت رکھتا ہے۔
Top