Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 20
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
بجلی ان کی بینائی کو اچکے لیتی ہے جب ان کو روشنی معلوم ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو ٹھہر جاتے ہیں اور اگر خدا چاہے تو ان کی شنوائی اور بینائی کو کھو دے ‘ بیشک اللہ ہر بات پر قادر ہے
ترکیب : یکاد فعل البرق اسم یکاد یخطف ابصارھم جملہ فعلیہ اس کی خبر یہ اپنے اسم اور خبر سے مل کر جملہ مستانفہ ہوا گویا کہ کوئی پوچھتا تھا کہ اس کڑک میں ان کا کیا حال ہے فرمایا کہ گویا بجلی کی چمک سے اندھے ہی ہوجاویں گے۔ کلما کلمہ شرط اضائلہم بمعنی لمع لہم شرط مشوفیہ جملہ جواب شرط فیہ اے فی ضوء البرق یہ جملہ بھی مستانفہ ہے گویا کوئی سوال کرتا تھا کہ اس چمکنے اور تھم جانے میں وہ کیا کرتے ہیں ؟ فرمایا ذرا روشنی ہوئی تو چل پڑے ورنہ وہیں کھڑے رہے۔ اذا کلمہ شرط اظلم علیہم جملہ شرط قاموا جملہ فعلیہ جواب شرط لو حرف شرط شاء فعل اللہ فاعل لذھب الخ جملہ اس کا جواب اور مفعول شاء کا ان یذہب بسمعھم محذوف۔ کس لیے کہ جواب اس پر دلالت کرتا 1 ؎ ممکن ہے کہ برق اور رعد اور صاعقہ اس وجہ سے بھی ہوتی ہوں اور باہم بادلوں کی سخت رگڑ سے بھی۔ 12 منہ 2 ؎ بعض حمقا نے جو علم طبیعات کے دو چار رسالے پڑھ لیتے ہیں یہ کہا کہ خدا کی کیا ضرورت ہے اگر توپ کے ہزار دو ہزار فیر کردیے جائیں تو دھوئیں کا بادل بن کر برسنے لگے چناچہ امریکہ میں فلاں نے ایسا کیا اور بچہ پیدا ہونے کے لیے فلاں مسٹر نے ایک آلہ تیار کیا ہے اگر اس میں منی ڈال دی جائے تو بچہ بن جاتا ہے۔ افسوس کہ یورپ کی روشنی نے ان حمقا کو اور بھی اندھا کردیا۔ 12 منہ ہے ان مشبہ بفعل اللہ اس کا اسم اور علی کل شیئٍ قدیر اس کی خبر۔ تفسیر : یعنی جس طرح بارش میں بجلی کی چمک سے آنکھیں چندھاتیں اور بند ہوجاتی ہیں اور جب بجلی کی چمک ہوتی ہے تو انسان چلنے لگتا ہے ورنہ خوف راہ سے اندھیرے میں ٹھہر جاتا ہے یہی حال ان منافقوں کا برق ایمان اور نور قرآن سے ہے کہ ان کی آنکھیں خیرہ اور چندھیائی جاتی ہیں اور اس روشنیِ حق کے دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتی ہیں جب اسلام کی بجلی چمکتی ہے تو چلتے ہیں یعنی جب فوائدِ ظاہریہ غنیمت وغیرہ ہا پیش آتے ہیں تو راہ اسلام پر چلنے لگتے ہیں ورنہ پھر اپنی جبلی کجروی سے رک جاتے ہیں یا یوں کہو کہ جب آنحضرت (علیہ السلام) کے معجزات و آیات بینات کی برق چمکتی ہے تو اس وقت اضطراراً دل سے تصدیق کرلیتے ہیں ورنہ پھر تاریکی شکوک و شبہات میں آ کر رک جاتے ہیں اور برق قرآن کی روشنی سے آنکھیں بند کرنا بےفائدہ ہے۔ اول تو اس سے بصیرت دور نہیں ہوتی اور جو خدا چاہے تو یوں بھی ان کو اندھا اور بہرا کرسکتا ہے کس لیے کہ وہ ہر بات پر قادر ہے۔ نکات : (1) لفظ لو سے یہ بات ثابت کردی کہ ہرچند انسان کے آلات ادراک خدائے تعالیٰ کی طرف سے عطا ہیں مگر جب وہ ان کو اس کے حکم کے موافق استعمال میں نہیں لاتا تو خوف کرنا چاہیے کہ خدائے تعالیٰ ان کو معدوم نہ کر دے اور جتنی دیر وہ معدوم نہیں ہوئے اس میں غرہ نہ کرنا چاہیے۔ کس لیے کہ ہر گناہ کی سزا میں جو دیر ہو تو مغرور نہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ سزا اس کی قدرت سے باہر نہیں یہ دیر کسی مصلحت یا رحمت سے ہے۔ (2) اس جملہ ولوشاء اللہ الخ کو ذکر کرکے بعد میں ان اللّٰہ علی کل شیء قدیر کہنا دعوے کو دلیل سے ثابت کردیتا ہے اور اس کا لطف ارباب فہم پر مخفی نہیں ہے۔ (3) اگرچہ کلما واذا کلمات شرط ہیں مگر تاہم باہم فرق ہے کلما میں معنی شرط زائد ہیں اس لیے اس کو اضائلہم کے ساتھ اور اذا کو اظلم کے ساتھ ذکر کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ ان کو اس ابر رحمت سے بھاگنے کی نہایت حرص اور سخت رغبت تھی اور ذرا مینہ میں ٹھہرتے ہیں تو بحر جابر اور قصر قاصر ورنہ بالطبع اس حیات ابدی کے مینہ سے بھاگتے ہیں۔ ربط : سب سے پیشتر نبی کو یہ ضرور ہے کہ اپنی کتاب کا کتاب الٰہی ہونا ثابت کر دے اور جب اس کو محکم دلائل سے ثابت کرچکے اور یہ اول مرحلہ طے ہوچکے تو پھر جو کچھ مقصود اصلی ہو اس کو بیان فرما دے کہ جس کے لیے وہ دنیا میں بھیجا گیا ہے اور جس لیے اس کی اطاعت بندگان خدا پر فرض ہوئی ہے اس لیے خدا نے الم ذلک الکتاب الخ میں قرآن کا کتاب الٰہی ہونا بیان کیا اور اس کی یہ خاصیت بتائی کہ اس سے ازلی نیک بختوں یعنی متقیوں کو ہدایت ہوتی ہے اور وہ ان اوصاف سے متصف ہوتے ہیں اور جب ان نیکوں یعنی متقیوں کا ذکر کیا تو ان کے مقابلہ میں بحکم تعرف الاشیاء با ضداد ہا بدبختوں کے دونوں گروہوں کفار اور منافقین کا بھی ذکر کیا تاکہ تقویٰ اور ہدایت کی بھلائی اور کفر و نفاق کی برائی مخاطب کے سامنے محسوس ہوجائے۔ پس جب یہ مرحلہ طے ہوچکا اور بندے کو سعادت اور ہدایت کا از بس مشتاق کردیا تو مقصود اصلی یعنی عبادت کا ذکر کیا اور یہ بتلا دیا کہ اس عبادت سے وہ وصف تقویٰ کہ جس کے تم مشتاق ہو اور جو سعادت ابدی اور ہدایت قرآنی کا ذریعہ ہے تم کو حاصل ہوجاوے گا۔ پس فرمایا :
Top