Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 98
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں الرِّبٰوا : سود لَا يَقُوْمُوْنَ : نہ کھڑے ہوں گے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَقُوْمُ : کھڑا ہوتا ہے الَّذِيْ : وہ شخص جو يَتَخَبَّطُهُ : اس کے حواس کھو دئیے ہوں الشَّيْطٰنُ : شیطان مِنَ الْمَسِّ : چھونے سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَا : در حقیقت الْبَيْعُ : تجارت مِثْلُ : مانند الرِّبٰوا : سود وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا اللّٰهُ : اللہ الْبَيْعَ : تجارت وَحَرَّمَ : اور حرام کیا الرِّبٰوا : سود فَمَنْ : پس جس جَآءَهٗ : پہنچے اس کو مَوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب فَانْتَهٰى : پھر وہ باز آگیا فَلَهٗ : تو اس کے لیے مَا سَلَفَ : جو ہوچکا وَاَمْرُهٗٓ : اور اس کا معاملہ اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر لوٹے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جو کوئی ہو وے دشمن اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرائیل اور میکائیل189 کا تو اللہ دشمن ہے ان کافروں کا
189 پچھلی آیت میں تو دلائل سے عداوتِ جبریل کی غیر معقولیت بیان کی تھی اب اس آیت میں جبریل اور دوسرے فرشتوں سے عداوت رکھنے والوں کا انجام بیان کیا ہے اس لیے یہ عداوت سے اسم ہے اور عداوت محبت اور دوستی کی ضد ہے اور اس سے مراد ہر وہ فعل ہے جو دوستی اور محبت کے منافی ہو۔ تمام فرشتوں کے ذکر کے بعد جبریل اور دوسرے فرشتوں سے عداوت رکھنے والوں کا انجام بیان کیا ہے اس لیے یہ عداوت جبریل کی غیر معقولیت کی پانچویں دلیل۔ عدوٌ عداوت سے اسم ہے اور عداوت محبت اور دوستی کی ضد ہے اور اس سے مراد ہر وہ فعل ہے جو دوستی اور محبت کے منافی ہو۔ تمام فرشتوں کے ذکر کے بعد جبریل اور میکال کی تخصیص باقی فرشتوں پر ان کی فضیلت اور برتری کے اظہار کے لیے یا دونوں کی تخصیص باقی فرشتوں پر ان کی فضیلت اور برتری کے اظہار کے لیے یا دونوں کی تخصیص اس لیے کی ہے کہ یہودیوں نے ان دونوں کا ذکر کیا تھا اور انہیں کے سبب سے یہ آیت نازل ہوئی۔ لان الیہود ذکر وھما ونزلت الایۃ بسببھما (روح ص 324 ج 1) ۔ من شرطیہ ہے اور جواب شرط محذوف ہے۔ تقدیرہ فھو کافر مجزی باشد العذاب (روح ص 334 ج 1) یعنی جو شخص اللہ کا، اس کے فرشتوں اور رسولوں کا خصوصاً جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو وہ کافر ہے اور اسے سخت سزا دی جائے گی۔ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ ۔ یہ جواب شرط محذوف کی علت ہے یعنی ان کی سزا کی علت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کا دشمن ہے اور ان کے کفر کی وجہ سے انہیں سزا دیگا اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں سے دشمنی خدا کی ناراضی اور اس کے غضب کا موجب ہے آگے اہل کتاب کے لیے زجر وتنبیہ ہے۔
Top