Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 98
مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِیْنَ
مَنْ ۔ کَانَ : جو۔ ہو عَدُوًّا لِلّٰهِ : دشمن وَمَلَآئِکَتِهٖ ۔ وَرُسُلِهٖ : اور اس کے فرشتے۔ اور اس کے رسول وَجِبْرِیْلَ : اور جبرئیل وَمِیْکَالَ : اور میکائیل فَاِنَّ اللہ : تو بیشک اللہ عَدُوٌّ : دشمن لِلْکَافِرِينَ : کافروں کا
جو کوئی مخالف ہو اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبرئیل کا یا میکائیل کا،342 ۔ تو اللہ (بھی) بالیقین مخالف ہے (ایسے) کافروں کا،343 ۔
342 ۔ یعنی جو شخص بھی اللہ یا اس کے پیغمبروں یا اس کے فرشتوں، خصوصا جبرئیل ومیکائیل جیسے مقرب فرشتوں سے وہ رشتہ وتعلق قائم رکھتا ہے جو ان کے مرتبہ واجب کے منافی ہے۔ عدو۔ عربی میں بطور مصدر بھی آتا ہے، اور اس معنی میں یہ ضد ہے دوستی و محبت کا، منافاۃ الالتیام (راغب) دوسرا استعمال اس کا بحثییت اسم کے ہے، جیسا کہ یہاں ہے، اور اس معنی میں یہ مقابل ہے دوست کے۔ العدو للشخص ضد الصدیق (روح) اور اس کے مفہوم میں محض عداوت نہیں، بلکہ انکار، نافرمانی، حق ناشناسی، غرض دوستی و محبت کے منافی جو کچھ ہے سب داخل ہے۔ میکال یا میکائل بھی جبرئیل کی طرح ایک فرشتہ مقرب کا نام ہے، مشہور روایتوں میں آیا ہے کہ ان کے ذمہ مخلوق کی رزق رسانی اور بارش ہے گویا جس طرح احکام تشریعی کے لیے واسطہ خاص حضرت جبرئیل ہیں، احکام تکوینی کے لیے واسطہ خاص میکائل ہیں، پہلے کا تعلق خاص بارگاہ الوہیت سے ہے، دوسرے کا کارگاہ ربوبیت سے، تو بریت میں ان کا ذکر بڑے تعظیمی لہجہ میں موجود ہے۔ یہود نے اپنے سارے تعلقات انہیں سے جوڑ رکھے تھے، اور انہیں اپنا قومی محافظ سمجھتے تھے۔ یہود نے جب حضرت جبرئیل کے حامل وحی ہونے سے انکار کیا تھا (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 339) تو اپنی عداوت ورغبت کا اظہار انہیں دو فرشتوں کا نام لے کر کیا تھا، اسی مناسبت سے قرآنی جواب میں بھی تصریح انہیں دونوں کے نام کی ہے، اور ساتھ ہی جیسا کہ قرآن مجید کا عمومی دستور کسی واقعہ خاص سے ایک ہدایت عام بیان کردینے کا ہے، ایک عام قاعدہ عمام معصوموں (یعنی انبیاء وملائ کہ) سے متعلق بیان کردیا گیا، و۔ اہل لغت نے لکھا ہے کہ حرف واؤ ہمیشہ عطف وجمع ہی کے لیے نہیں آتا، بلکہ، ” یا “ کے معنی میں ہے۔ یعنی ان اسماء کا مجموعہ مراد نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کا بھی مخالف ہے۔ یعنی من کان عدوا لا حد ھولاء انہ عدو للکل (معالم) یعنی من کان عدوا لاحد من ھولاء (کبیر) 343 ۔ یعنی ایسا ہر شخص کافر سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ معاملہ وہ کیا جائے گا، جو دشمن کے ساتھ دشمن کرتا ہے۔ فقہاء نے آیت سے نکالا ہے کہ معصوموں کی اطاعت عین اطاعت الہی، اور معصوموں کی مخالفت عین مخالفت حق ہے، فرشتہ کی اطاعت توریت میں بھی عین اطاعت رب بتائی گئی ہے :۔ ” دیکھ میں ایک فرشتہ تیرے آگے بھجتا ہوں کہ راہ میں تیرا نگہبان ہو، اور تجھے اس جگہ جو میں نے تیار کی ہے لے آوے، اس کے آگے ہوشیار رہ اور اس کا کہا مان۔ اسے مت چڑا، کیونکہ وہ تیری خطا نہ بخشے گا کہ میرا نام اس میں ہے۔ پر اگر تو سچ مچ اس کا کہا مانے اور سب جو میں کہتا ہوں کرے تو میں تیرے دشمنوں کا دشمن اور تیرے بیریوں کا بیری ہوں گا، “۔ (خروج۔ 23:2 ۔ 2 1) یہ بھی کہا گیا ہے کہ خلفائے راشدین واصحاب رسول ﷺ جن کے فضائل گویا تواتر کی حدتک پہنچے ہوئے ہیں، ان کی مخالفت وعداوت بھی اسی حکم میں داخل ہے۔ مرشد تھانوی نے فرمایا کہ اہل اللہ سے عداوت رکھنا خود اللہ تعالیٰ کی عداوت کا سبب بن جاتا ہے۔
Top