Tafseer-e-Haqqani - Ash-Shu'araa : 3
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
لَعَلَّكَ : شاید تم بَاخِعٌ : ہلاک کرلوگے نَّفْسَكَ : اپنے تئیں اَلَّا يَكُوْنُوْا : کہ وہ نہیں مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لاتے
نبی شاید (اے نبی ! ) آپ اپنی جان کو گھونٹ کر مار دیں گے اس پر کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے
ترکیب : ان لایکون مفعول لہ اے لئلا خاضعین و القیاس خاضعات انما جاء جمع المذکر لان المراد اصحاب الاعناق ولیس المراد الرقاب کم انبتنافی موضع نصب بانبتنا من ذکر ای قرآن من الرحمن صفۃ ذکر محدث صفۃ اخری۔ تفسیر : یہ سورة بھی مکہ میں اسی وقت نازل ہوئی ہے جبکہ کافروں کا حضرت ﷺ پر اور مسلمانوں پر ہر طرف سے سخت ہجوم تھا اور اسلام کی روح افزا باتیں ان کو عجیب و غریب معلوم ہوتی تھیں۔ حضرت ﷺ کی نبوت پر وہ طرح طرح سے لغو شبہات وارد کیا کرتے تھے اور جب جواب سے عاجز آجاتے تھے تو اپنی خواہش کے موافق ہر شخص ایک عجیب و غریب معجزے کا طالب ہوتا تھا۔ کوئی کہتا تھا اس پہاڑ کو یہاں سے ہٹا دو تو جانوں ‘ کوئی کہتا تھا کہ اس خشک اور پہاڑی جگہ میں نہر جاری کر دو تو مانوں ‘ علی ہذا القیاس حضرت ﷺ کے دل میں قوم کی خراب حالت کی اصلاح کا جوش تھا دردمندی حد سے بڑھی ہوئی تھی ان کے نہ ماننے اور کج بحثیاں کرنے سے نہایت رنج ہوتا تھا اس سورة میں آپ کو تسلی دی گئی کہ اگر یہ ایمان نہ لائیں گے تو کیا آپ غم میں گھٹ کر اپنے آپ کو ہلاک کردیں گے۔ اور پھر اس کے بعد چند انبیائِ اولوالعزم اور ان کی سرکش امتوں کا تذکرہ کرکے یہ بتلا دیا کہ پہلے لوگ بھی اپنے انبیاء کے ساتھ ایسا ہی کرتے آئے ہیں اور چونکہ عرب میں شاعری کا بڑا زور شور تھا اور عاجز ہو کر قرآن کو شعر کہہ دیا کرتے تھے اس لیے اخیر سورة میں شعراء کی حقیقت بھی بیان کردی کہ وہ واہی تباہی باتیں اشعار میں جمع کیا کرتے ہیں ہر وادی سخن میں حیران و پریشان پھرا کرتے ہیں برخلاف قرآن مجید کے کہ جس میں سراسر راستی اور مکارم اخلاق اور توحید وغیرہ کے مضامین عالیہ ہیں۔ اس مناسبت سے اس سورة کا نام سورة شعراء ہوا اور نیز ان کو روحانی بلاغت کا اس میں ایک جداگانہ لطف دکھا کر ان پر کوڑا سا مار دیا۔ سورة فرقان کے اخیر میں یہ جملہ تھا کہ تم جھٹلا چکے اب دیکھو کیسی سزا ملتی ہے چند ان کی تکذیب کے مقابلہ میں بہت سے مواقع پر شہادتیں پیش کی گئیں تھیں کہ ان میں غور کرنے کے بعد عاقل کو تکذیب کی گنجائش نہیں رہتی مگر اس کے بعد دلائلِ اثبات نبوت بیان کرنا اور ساتھ ہی گزشتہ انبیاء اور ان کی نافرمان اور سرکش قوموں کے واقعات بیان کرنا اتمام حجت اور اپنے محبوب رسول کے دل کی تشفی اور دفع ملال مقصود تھا جو آپ کو اس بدنصیب قوم کی بےنصیبی اور آنے والی مصیبت سے تھا۔ اس لیے سورة فرقان کے بعد اس سورة کا آنا مناسب ہوا۔ طسم الم کی تفسیر میں حروف مقطعات کی بابت ہم بہت کچھ کہہ آئے ہیں۔ یہاں ط سے مراد طرب اور س سے سرور دائمی اور میم سے محمد ﷺ ہیں یعنی محمد ﷺ کو طرب و سرور ابدی مبارک ہو یہ غم چند روزہ ہے۔ واللہ اعلم تلک ایات الکتاب المبین یہ آیتیں جو اے لوگو ! تم کو سنائی جاتی ہیں روشن اور کھلی ہوئی کتاب یعنی قرآن کی ہیں جن میں عقل سلیم کو کچھ بھی تردد نہیں ہاں جو کورازلی اور بدنصیب اصلی ہیں ان کو ان پر طرح طرح کے شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مضمون الہامی ان کے دل میں نہیں اترتا اس لیے وہ ایمان نہیں لاتے پھر جب وہ ایسے کو رباطن ہیں تو اے نبی ! آپ کو ان کے ایمان نہ لانے سے کچھ رنج نہ کرنا چاہیے۔ پھر آپ کیوں جی میں گھٹتے ہیں۔ لعلک باخع نفسک الخ اب رہا ان کا یہ عذر کہ ہمارے سوال کے مطابق حضرت کیوں کوئی نشانی نہیں دکھاتے سو یہ بھی غلط ہے ان کو اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا ورنہ ہم قادر ہیں ان نشاء ننزل علیہم من السماء و آیتہ الخ کہ آسمان سے ان پر کوئی ایسی نشانی اتاریں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جاویں مگر ان کا تو یہ حال ہے کہ ومایاتہم من ذکر من الرحمن الخ کہ جب کوئی نئی بات نصیحت کی ان کے پاس خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے تو اس سے انکار ہی کرتے ہیں فقد کذبوا الخ یہ جھٹلا چکے نہ مانے ہیں نہ مانیں گے۔ اب عنقریب اس کی حقیقت ان کو معلوم ہوجائے گی۔ اور نشانی دیکھتے ہیں تو ہر وقت دیکھ سکتے ہیں۔ زمین کی جڑی بوٹیوں کو دیکھیں کہ کس صناع نے کس حکمت سے پیدا کیں ہیں ؟ اس جڑی بوٹیوں کے اگانے میں چند نمونہ قدرت ہیں اول یہ کہ جس طرح ہر سال جڑی بوٹیاں برسات میں پیدا ہوجاتی ہیں اور موسم خزاں میں ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ دوسرے سال پھر وہی اسی طرح سے برآمد ہوتی ہیں اس میں حشر اور قیامت اور انسانی بقاء کا پورا نمونہ ہے۔ دوم جب عالم حسی میں اس کا ایک بار نہیں بلکہ باربار یہ فضل ہے کہ وہ آسمانی پانی سے حیوانات بالخصوص انسان کے لیے کیا کیا مفید چیزیں پیدا کرتا ہے تو پھر وہ رحیم و کریم اس کی دوسری حیات کے لیے ابر رحمت یعنی نبوت کے فیض سے کیوں محروم کرتا مگر اکثر جاہل ان باتوں پر ایمان نہیں لانے والے۔
Top