Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 137
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ١ۙ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قَدْ خَلَتْ : گزر چکی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے سُنَنٌ : واقعات فَسِيْرُوْا : تو چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
تم سے پہلے (بہت سے) واقعات گذر چکے ہیں زمین میں پھر کر تو دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔
ترکیب : من قبلکم خلت سے متعلق ہے ‘ ولا تہنوا ماضی وہن سے ہے و حذف ہے کیونکہ وہ کسری اوری کے بیچ میں آگیا تھا۔ الاعلون اس کا مفرد اعلیٰ ہے التقاء ساکنین کی وجہ سے الف حذف کرکے اس کا یادگار فتح چھوڑ دیا گیا ہے۔ قرح مصدر قرحۃ بمعنی زخم ہے اور قرح بالضم زخم۔ تلک مبتداء الایام خبر نداولہا جملہ حال ہے ولیعلم معطوف ہے محذوف پر ای نداولہا لیکون کیت وکیت ولیعلم اللہ تاکہ معلوم ہو کہ اس گردش ایام کی چند علتیں ہیں۔ منجملہ ان کے یہ اور ہے ولیمحص معطوف ہے ولیعلم پر ام منقطعۃ بمعنی بل۔ تفسیر : پیشین گوئی : جبکہ خدا تعالیٰ نے عالم آخرت کی رغبت اور جنت کا شوق دلایا اور جہاد پر جو اصلاح عالم کا باعث ہے آمادہ کیا تو یہاں پیشتر دنیا اور اہل دنیا کی بےثباتی بیان فرمائی کہ تم سے پہلے کیا کچھ دنیا پر گذر چکا ہے دنیا میں پھر کر دیکھو کہ فرعون وغیرہ سرکش لوگ کہاں گئے۔ ان کے نعیم و ناز خاک میں مل گئے۔ انجام کار پرہیزگاروں نے فلاح پائی۔ انبیاء اور ان کی جماعت ہمیشہ کافروں سے لڑتے آئے ہیں۔ اس کے بعد اس واقعہ کی طرف توجہ کرتا ہے جو جنگ احد میں گذرا ہے یعنی وہ جو کچھ مسلمانوں کو ہزیمت اور مصیبت پہنچی تھی اس پر منافق ہنستے اور ایماندار دل میں آزردہ ہوتے تھے کہ اگر تم کو کچھ زخم پہنچا ہے تو اس کا کچھ غم نہ کھائو نہ سستی اختیار کرو کیونکہ اس سے پیشتر جنگ بدر میں تم ان کو ہزیمت اور زخم دے چکے ہو۔ دنیا میں زمانہ یکساں نہیں رہتا۔ کبھی رنج ہے ‘ کبھی راحت۔ ہم لوگوں میں زمانہ کو یوں ہی الٹتے پلٹتے رہتے ہیں مگر انجام کار تمہیں غالب رہو گے بشرطیکہ ایمان پر قائم رہو۔ چناچہ اس پیشین گوئی کے مطابق ظہور میں آیا۔ عرب کیا مشرق سے مغرب تک بڑے بڑے ملک صحابہ کے ہاتھ میں آگئے۔ ایمان کی بدولت۔ پھر اس احد کی شکست میں کچھ حکمتیں ہیں ان کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ اس میں ایک تو ایمانداروں کا امتحان مقصود تھا۔ دوم یہ کہ تم میں سے بہت لوگ عالم آخرت اور شہادت کے مشتاق تھے۔ ان کو شہادت دینی تھی۔ سوم یہ کہ جو خالص مسلمان ہیں وہ اس معرکہ میں پڑ کر پاک ہوجاویں اور کفار مخالفین مٹ جائیں کیونکہ ہمیشہ سے حق کی یہ تاثیر ہے کہ جہاں کہیں اس کی جماعت کا خوں بہا وہیں وہ ایک نیا رنگ لایا۔ غیرتِ الٰہی جوش میں آئی۔ پھر جو لوگ کفار میں قابل اصلاح ہوتے ہیں ٗ ایمانداروں کی جماعت میں داخل ہوجاتے ہیں اور باقی لوگوں پر غیب سے وہ مار پڑتی ہے کہ نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ فوائد : (1) جنگ احد میں جو کچھ اہل اسلام پر مصیبت پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اس کے لئے کئی طرح سے تسلی دی۔ اولاً تو یوں کہ انجام کار تم ہی غالب رہو گے۔ ثانیاً یہ کہ لا تہنوا ولا تحزنوا۔ ثالثاً یہ کہ اگر تم کو زخم پہنچا ہے تو تم نے بھی ایسا ہی زخم ان کو بدر میں دیا تھا۔ رابعاً تلک الایام نداولہا بین الناس کہ زمانہ یوں ہی ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ اگر کوئی مصیبت پیش آئے تو رنج نہ کرنا چاہیے ہمیشہ دن یکساں نہیں رہتے۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎ رنج و راحت گیتی مرنجان دل مشوخرم کہ آئین جہاں گاہے چناں گاہے چنیں باشد اس کے بعد مقتول و مجروح ہونے کے اسرار و درجات بیان کئے کہ ہم کو تو بعض کا امتحان اور مومنین کا پاک کرنا اور کچھ لوگوں کو درجہ شہادت دینا اور کافروں کو مٹانا منظور تھا۔ ان سب باتوں کے بعد پھر ایک نہایت تاکید اور تہدید کا حکم بھیجا کہ جس سے تمام اہل ایمان کانپ گئے اور طالبان عقبیٰ پر ایک کوڑا سا پڑگیا۔ وہ یہ کہ تمام ایمانداروں کو یہ سنا دو کہ تم یہ نہ سمجھ بیٹھو کو ہم یوں ہی اس جنت میں کہ جو عالم سرور کی بادشاہت ہے چلے جاویں گے بغیر اس کے کہ جہاد نہ کرو اور صبر اور مشقت کی کسوٹی پر نہ کسے جائو۔ اسی طرح ایک جگہ اور بھی فرمایا ہے الم احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون کہ ” لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بس آمنا کہنا اور لا الہ الا اللہ کہنا اسلام اور آسمانی بادشاہت کے لئے کافی ہے۔ اس پر کوئی آزمائش نہ ہوگی “۔ ایک بار نبی ﷺ خانہ کعبہ سے تکیہ لگائے کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے اور کفار قریش کا زور تھا ہر روز ایمانداروں پر ظلم و ستم ہوا کرتا تھا۔ اس میں ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ ! وہ کونسا وقت آئے گا کہ جس میں ہم اس سے نجات پاویں گے اور آپ کی بشارت کا ظہور ہوگا۔ یہ سنتے ہی آنحضرت ﷺ کا چہرہ ٔ مبارک غصہ کے مارے سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ بس اتنی ہی تکلیف پر یہ نوبت آگئی۔ واللہ ! تم سے پہلے انبیاء اور ان کے مخلصین آروں سے چیرے گئے ہیں اور وہ اف بھی نہ کرتے تھے (اس کا مضمون کتب صحاح میں ہے) در حقیقت دنیا میں بادشاہ پانچ سات روپے ماہوار پر سپاہی کو نوکر رکھتا ہے کہ جس کو سر کٹانے میں کوئی دریغ نہیں ہوتا پھر جس بادشاہ حقیقی نے جان دی اور جسم کو ہزاروں خوبیاں عطا کیں ‘ تندرستی دی ‘ لاکھوں نعمتیں پشت در پشت عطا کرتا چلا آیا ہے اس پر وہ عالم روحانی میں سلطنت کا وعدہ فرمائے اور یہی تنخواہ اس کے رسول کی معرفت مقرر ہوجاوے اور وہاں جانا بھی ضرور ہو۔ پھر جو کوئی صرف زبانی اسلام اور ایمان پر بھروسہ کرے اور خدا کی راہ میں جان اور مال اور عزت و آبرو دینے کو دریغ رکھے سو اس کو قطعی جان لیجئے کہ طمع خام رکھتا ہے اور کچھ نہیں یا دنیا میں جب کوئی کسی سے عشق مجازی رکھتا ہے تو دیکھئے اپنی آبرو اور مال اور جان کو اس کے لئے دریغ نہیں کرتا۔ سینکڑوں لوگ برائے نام مسلمان ہیں یا مسلمانوں کی اولاد ہیں۔ زبانی جمع خرچ بہت کچھ گائو تکیوں پر پشت لگائے ہمدردی اسلام اور حصول درجاتِ آخرت کے لئے باتیں بناتے ہیں۔ اگر اسلام کے لئے جان اور آبرو تو درکنار مال یا کسی مطلب میں کچھ بھی نقصان عائد ہوتا معلوم ہو تو پھر کہاں تھے۔ ایسے سگ دنیا انہیں منافقین کی ذریت ہیں کہ جن کا ذکر قرآن مجید میں بیشمار جگہ آیا ہے۔ انسان جنت اور اس کی خوشنودی کی امید جب رکھے کہ پہلے اپنے دل میں اپنے مال اور اولاد اور عزت و آبرو بلکہ جان عزیز اور ہر قسم کے عیش و راحت کو اس معبود حقیقی پر نثار کرنے کو تیار ہوجائے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے دار آخرت کی بادشاہی اور جنت میں دیدارِ الٰہی اور نعمائِ غیر متناہی ہیں۔
Top