بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے نبی اللہ سے ڈرا کرو اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ ماننا البتہ اللہ جو ہے سو خبردار حکیم ہے
ترکیب : من ربک متعلق بیوحیٰ وکیلا تمیز للکفیٰ باللہ فاعلہ والباء زائدۃ۔ تفسیر : احزاب حزب کی جمع جس کے معنی جماعت اور گروہ کے ہیں، اس سورة میں ان جماعتوں کا بھی تذکرہ ہے جو نبی ﷺ اور صحابہ ؓ پر چڑھ کر آئی تھیں اور چاروں طرف سے مدینہ طیبہ کو گھیر لیا تھا، جس کی مدافعت کے لیے حضرت ﷺ نے شہر کے اردگرد خندق کھودنے کا حکم دیا تھا، اس واقعہ کو غزوئہ خندق کہتے ہیں جو شوال کے مہینے میں احد کی لڑائی کے ایک برس بعد ہجرت کے پانچویں سال میں واقع ہوا تھا، اس لیے اس سورة کا نام سورة احزاب ہوگیا۔ یہ سورة بقول ابن عباس اور ابن الزبیر ؓ مدینہ میں نازل ہوئی ہے، بعض روایتوں میں یہ پایا جاتا ہے کہ اس سورة میں سے بعض آیات آنحضرت ﷺ کے عہد میں منسوخ التلاوۃ ہوگئی ہیں۔ گو اس سے بھی قرآن مجید پر تحریف کا الزام قائم نہیں ہوسکتا، کس لیے کہ تحریف جب ہوتی ہے کہ جب آپ کے بعد قرآن میں کمی کی جاتی … یا آپ کے بغیر اجازت اور جبکہ منزل قرآن ہی نے کسی قدر اجزاء کو کسی حکمت سے کم کردیا تو پھر کسی کو کیا مجال گفتگو ہے، اس بحث کو ہم تعریف القرآن جواب تحریف القرآن میں خوب بیان کرچکے ہیں، مگر ابو مسلم وغیرہ محققین اس کے سرے سے قائل ہی نہیں، وہ ان آیات منسوخ التلاوۃ کو قرآنی آیات نہیں کہتے بلکہ وہ جملہ بطور تفسیر کے آنحضرت ﷺ نے پڑھے تھے، جس کو لوگوں نے آیت سمجھ کر اپنے مصاحف میں لکھ لیا، مگر جب قرآن اصلی حالت پر لکھوایا گیا عرضہ اخیرہ کے مطابق اس میں درج نہ ہونے دیا۔ سورة سجدہ کے اخیر میں آنحضرت ﷺ کو انتظار کا حکم دیا گیا تھا اور نصرت کا وعدہ بھی تھا، ایسی حالت میں کچھ عجب نہیں کہ کفار و منافقین نے آنحضرت ﷺ کو اپنی اطاعت پر آمادہ کرنا چاہا ہو کہ آپ فلاں فلاں باتیں مان لیں تو ہم آپ کے دین میں آجاتے ہیں، ورنہ ہم آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو ستائیں گے۔ گو آپ سے یہ بات متوقع نہ تھی مگر ایسی خطرناک حالتوں میں طبیعت انسانی کا مائل ہوجانا کچھ بعید نہیں، اس لیے بنظر احتیاط آنحضرت ﷺ کو اول ہی آگاہ کردیا۔ فقال یا ایہا النبی اے نبی ! اس میں آنحضرت ﷺ کی کمال عزت ہے کہ قرآن مجید میں کسی جگہ آپ کا اسم مبارک لے کر نہیں پکارا گیا، بلکہ بلقب نبی یارسول یا مزمل یا مدثر یاد فرمایا گیا اتق اللہ اللہ سے ڈرا کرو اور کسی سے نہ ڈرو۔ اگرچہ آپ اللہ ہی سے ڈرتے تھے مگر یا اس پر دوام کے لیے یا ازد یاد کے لیے یہ حکم دیا کہ تقویٰ کا بےنہایت میدان ہے۔ ولا تطع الکافرین والمنافقین اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ ماننا۔ واحدی کہتے ہیں کافروں میں سے ابوسفیان و عکرمہ و ابو الاعور اور منافقوں میں سے عبداللہ بن ابی و عبداللہ بن ابی سرح آپ سے طرح طرح کی باتیں دھمکی دے کر کہا کرتے تھے کہ ایسا کر ایسا کر۔ ان کا کہنا اس لیے نہ مان کہ وہ یہ باتیں کہتے ہیں جس کو مصلحتِ الٰہی نہیں چاہتی تھی، ان اللہ کان علیما حکیما البتہ اللہ عالم ہے۔ ہر بات کی ابتداء و انتہاء شروع و انجام جانتا ہے، اس نے جو کچھ حکم دیا ہے اس میں سراسر حکمت ہے۔ پس و اتبع مایوحٰی الیک من ربک اللہ نے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی ہے اسی پر چلو اور نہایت استحکام اور صدق دل سے وحی کا اتباع کرو، کس لیے کہ ان اللہ کان بما تعملون خبیرا جو کچھ تم کرتے ہو اس کو اللہ خوب جانتا ہے، اس پر کوئی بات مخفی نہیں۔ ان سرکشوں کی دھمکیوں سے نہ ڈرو و توکل علی اللہ اللہ پر بھروسہ رکھو، وکفیٰ باللہ وکیلا وہ کافی ہے، سب کار وہی کردے گا، کوئی دشمن تم پر غلبہ نہ پاوے گا۔ حاصل کلام جب قومیں ورطہ ضلالت میں غرق ہوں اور جہالت کی تاریک اندھیریوں میں بند ہوں، اس وقت خدا کے ہادی کو جو قوانین ملیہ و احکام سیاسیہ کا سرچشمہ اس کا الہام ہو بڑا مستقل رہنا چاہیے، لوگوں کی بےہودہ خواہشوں کی تعمیل اور خلاف ایذاء و تکلیف کی کچھ بھی پروا نہ کرنا چاہیے۔ قرآن نے لوگوں کو ہمیشہ 1 ؎ کے لیے کیا عمدہ قانون بتلادیا ہے۔ 1 ؎ یعنی کلام بھی اور خطاب بھی ہے۔ لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ 12 منہ
Top