Tafseer-e-Madani - Yaseen : 82
اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَمْرُهٗٓ : اس کا کام اِذَآ : جب اَرَادَ شَيْئًا : وہ ارادہ کرے کسی شے کا اَنْ : کہ يَّقُوْلَ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتی ہے
اس کی تو یہ شان ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اتنا ہی فرما دیتا ہے کہ ہو۔ سو وہ ہوجاتی ہے،
انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون اس میں ان کی تمثیل کا بھی بطلان ہے کہ وہ کہتے تھے کوئی بھی حشر پر قادر نہیں، غائب کا حاضر پر قیاس کرتے تھے، فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مخلوق پر قیاس نہ کرو کس لیے کہ مخلوق میں سے جو کوئی کسی چیز کو بنانا چاہتا ہے تو وہ چند باتوں کا محتاج ہوتا ہے۔ (اول) اپنی قوت و طاقت کا ہونا۔ (دوم) آلات بدنیہ۔ (سوم) دیگر آلات۔ (چہارم) اس چیز کا مادہ موجود ہونا۔ (پنجم) زمانہ کا درمیان آنا۔ (ششم) مواقع کا دور ہونا، مثلاً کوئی معمار کسی مکان بنانے کا ارادہ کرے تو اس میں قوت و طاقت فن معماری کا علم ہونا چاہیے، پھر اس کے ہاتھ پائوں، اعضائِ بدنیہ بھی درست ہونے چاہییں، پھر اس کے اوزار ‘ آلات بھی ضرور ہیں، پھر اس مکان کا مادہ اینٹ پتھر لکڑی گارا چونا، لوہا وغیرہ بھی کہ جن سے وہ مکان بنے گا۔ پھر یہ بھی ضرور ہے کہ وہ مکان دفعۃً نہیں بنے گا، زمانہ میں تیار ہوگا۔ ایک ساعت سے لے کر دس برس بیس برس کا کسی قدر ہو زمانہ ضرور ہوگا، ان سب کے بعد یہ بھی کہ کوئی مانع پیش نہ آوے، اگر کسی زبردست نے بننے سے روک دیا تو رک جاوے گا یا بارش آندھی کوئی بات پیش آجاوے، تب بھی رک جاوے گا۔ برخلاف خدا تعالیٰ کے کہ وہ ان چیزوں میں سے کسی کا بھی محتاج نہیں۔ ہمہ وقت اس کے لیے سب سامان مہیا ہیں، پھر اس کو مخلوق پر قیاس کرنا کیسی بےعقلی ہے۔ اس بات کو خدا تعالیٰ اس آیت میں بیان کرتا ہے کہ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو صرف یہی بات ہوتی ہے کہ اس کو کہتا ہے کن یعنی ہوجا سو وہ فوراً موجود ہوجاتی ہے۔ امر سے مراد امر تکوینی ہے اور قول اور کن سے بھی قول اور کن تکوینی مراد ہے تو یہ کہ اس معدوم چیز سے خطاب کیا جاتا ہے کہ تو ہوجا کس لیے کہ وہ تو اس وقت معدوم ہوتی ہے۔ قابل خطاب ہی نہیں ہوتی اور جو موجود ہو تو پھر موجود کو موجود کرنے کے کیا معنی ؟ بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کے علم میں ہر شے ہے، خواہ وہ خارج میں موجود ہو یا معدوم اور یہ علم اس کا علم ازلی ہے، جب سے وہ ہے اسی کے ساتھ اس کی ذات بابرکات میں تمام چیزوں کا علم ان چیزوں کے پیدا کرنے سے پیشتر ہی رکھا ہوا ہے، پھر جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا قصد کرتا ہے تو اس موجود علمی سے یہ فرما دیتا ہے، یعنی ارادہ کرلیتا ہے کہ ہوجا، سو وہ فوراً موجود ہوجاتی ہے۔ ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔
Top