Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 123
لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ١ؕ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ١ۙ وَ لَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
لَيْسَ : نہ بِاَمَانِيِّكُمْ : تمہاری آرزؤوں پر وَلَآ : اور نہ اَمَانِيِّ : آرزوئیں اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مَنْ يَّعْمَلْ : جو کرے گا سُوْٓءًا : برائی يُّجْزَ بِهٖ : اس کی سزا پائے گا وَلَا يَجِدْ : اور نہ پائے گا لَهٗ : اپنے لیے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ مددگار
نہ تو تمہاری ہی آرزوئوں پر کچھ موقوف ہے نہ اہل کتاب کی خواہشوں پر کچھ منحصر ہے (بلکہ) جو کوئی برائی کرے گا اس کی سزا پاوے گا اور نہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی اپنے لئے حمایتی پائے گا اور نہ مددگار
ترکیب : لیس کا اسم اور خبر دونوں محذوف اور بامانیکم خبر سے متعلق ہے اے لیس الامر منوطا بامانیکم۔ من یعمل سوئً یجزبہ جواب ولا یجد معطوف ہے یجز پر۔ من ذکر او انثی بیان ہے من کا ومن مبتداء احسن ممیز دینا تمیز ممن متعلق ہے احسن افضل التفضیل سے وھو محسن جملہ حال ہے فاعل اسم سے واتبع معطوف ہے اسلم پر پھر یہ سب مجموعہ خبر ہے۔ تفسیر : پہلی آیت میں تھا وما یعدھم الشیطان الا غرورا کہ ان لوگوں سے شیطان جو کچھ وعدہ کرتا ہے ٗ فریب کا کرتا ہے۔ عام ہے کہ شیطان سے ابلیس مراد یا قوت وہمیہ اور اس کے وعدوں میں خیالات باطلہ کہ جو ہر ایک قوم میں خلاف حق چلے آتے ہیں مثلاً عیسائیوں میں یہ ہے کہ تمام گناہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اٹھا کرلے گئے۔ اب ہم شریعت اور حلال حرام کی قید سے آزاد ہیں۔ اسی طرح یہود میں یہ تھا کہ ہم انبیاء (علیہم السلام) کی اولاد اور خدا کے پیارے بیٹے ہیں۔ نجات اور ہر ایک قسم کی کرامات کے ہم ہی مستحق ہیں یا ہندوئوں میں مشہور ہے کہ برہمن خدا کے گھر اور مکتی کے مالک ہیں اور چار قوم برہمن ‘ چھتری ‘ بیش ‘ شودر کے علاوہ سب ملیچھ یعنی ناقابل نجات ہیں یا مشرکین کے خیالات تھے کہ ہمارے یہ معبود ہم کو نجات دیں گے خواہ ہم کچھ ہی کیوں نہ کریں یا یہ خیالات کہ نہ حشر ہے نہ دوزخ نہ جنت نہ ثواب و عقاب یا بعض اہل اسلام کے یہ خیالات تھے کہ گو ہم کبائر کے مرتکب ہوں ہم پر کچھ سرزنش نہ ہوگی۔ اسلام کی وجہ سے ہم کو کچھ ضرر نہ ہوگا جیسا کہ مرجیہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ ان سب کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فیصلے کے طور یہ فرمایا ہے کہ نہ کچھ تمہارے خیالات پر ہے نہ اہل کتاب کے جو کوئی گناہ کرے گا اس کی سزا پاوے گا اور اس سزا کے روکنے میں نہ ان کا کوئی حامی ہوگا نہ مددگار نہ مسیح (علیہ السلام) نہ موسیٰ (علیہ السلام) نہ کوئی اور جو کوئی کسی قوم کا ہو نیکی کرے گا بشرطیکہ وہ ایمان بھی رکھتا ہو اس کو جنت ملے گی اور ان کے اجر سے کچھ بھی کم نہ کیا جاوے گا۔ حقیقت میں یہی ایک بات انصاف اور قانون عقل کے موافق قرآن اور مذہب کے برحق ہونے کے لئے کافی ہے کیونکہ خدا جب تمام عالم کا خدا ہے تو اس کو اپنے تمام بندوں سے نسبت مساوی ہے۔ انہیں حق اور روح افزا تعلیموں کی تلوار نے چند روز میں اگلے مذہب کو سرنگوں کردیا اور مشرق سے مغرب تک قومیں کی قومیں اپنے مذاہب باطلہ سے توبہ کرکے اسلام قبول کرتی گئیں اور جبکہ نجات اور حیات ابدی کا مدار ایمان پر ٹھہرایا تھا جو دراصل دین اسلام میں پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد دین اسلام کے برحق ہونے پر دو دلیل کس لطف کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ جن کو تسلیم کرنے میں کسی منصف مزاج کو انکار کی مجال نہیں۔ اول دلیل عقلی مقدمات یقینیہ پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہ ہر ایک دین کے دو جزو ہوتے ہیں۔ اول عقائدِ صحیحہ توحید و نبوت و معاد کے متعلق دوم اعمال صالحہ عبادات و خیرات و صلہ رحمی۔ پس جس دین میں یہ دونوں جزو موجود ہوں اس کے برحق ہونے میں کیا کلام ہے اور اسلام میں یہ دونوں ہیں۔ اول کی طرف من اسلم وجہہ للّٰہ میں اشارہ ہے اور دوسری کی طرف وھو محسن میں اشارہ ہے۔ یہ دو کیا مختصر سے جملہ ہیں کہ جن میں سینکڑوں بار یک معانی رکھے ہیں مثلاً اسلم وجہ للہ میں یہود و نصاریٰ و مشرکین کی طرف ایک لطف کے ساتھ الزام ہے کہ وہ خدا کے آگے سر نہیں جھکائے ہوئے ہیں بلکہ کہیں مسیح کو خدا کہتے ہیں ٗ کہیں عزیر کو کہیں کسی اور کو دوسری دلیل مقدمات مسلمہ اہل کتاب و مشرکین عرب پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے نزدیک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خدا کے برگزیدہ تھے جن کو بلفظ خلیل تعبیر کیا ہے اور ان کا مذہب برحق تھا۔ اب ہر شخص اپنے مذہب کو اسی کے مطابق کرکے دیکھے کہ کون موافق اور کون مخالف ہے اور اسلام کی بنیاد سراسر انہیں سچے اصول پر رکھی گئی ہے۔ اسی دلیل کی طرف واتبع ملۃ ابراھیم حنیفا میں اشارہ کردیا اور ابراہیم (علیہ السلام) کا وصف حنیف اور خلیل بیان فرما کر یہ بھی ظاہر کردیا کہ وہ کچھ خدا کے کارکن یا بیٹے نہ تھے کہ احتیاج کی وجہ سے ان کو خلیل بنایا تھا بلکہ محض ان کی عبودیت کی وجہ سے اس بات کی طرف للّٰہ ما فی السموات وما فی الارض الخ میں اشارہ فرما دیا۔
Top