Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 67
اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ رَبِّيْ : وہ رب ہے میرا وَرَبُّكُمْ : اور رب تمہارا فَاعْبُدُوْهُ : پس عبادت کرو اس کی ھٰذَا : یہ ہے صِرَاطٌ : راستہ مُّسْتَقِيْمٌ : سیدھا
کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک پرامن حرم بنایا، اور حال یہ ہے کہ لوگ ان کے گردوپیش سے اچک لیے جاتے ہیں، کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں
اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ط اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَکْفُرُوْنَ ۔ (العنکبوت : 67) (کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک پرامن حرم بنایا، اور حال یہ ہے کہ لوگ ان کے گردوپیش سے اچک لیے جاتے ہیں، کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں۔ ) کشتی کے غافلوں اور قریش میں وحدت فکر و عمل روئے سخن قریش کی طرف ہے۔ گزشتہ آیت میں دنیا کے فریب میں مبتلا لوگوں کی مثال کشتی کے مسافروں سے دی گئی تھی۔ پیش نظر آیت کریمہ میں قریش کی طرف اشارہ کرکے فرمایا گیا ہے کہ ان کا حال بھی کشتی کے مسافروں سے مختلف نہیں ہے۔ جس طرح کشتی کے مسافر جب تک ہوا سازگار رہتی ہے تو وہ بھول کر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے جس نے انھیں سازگار ہَوا، آبِ دریا کی تسخیر اور کشتی کی بےچون و چرا خدمت سے نوازا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا کہ کشتی اور ابروہَوا سب ان کے تابع فرمان ہیں۔ لیکن وہ اپنی سرمستیوں میں کھوئے ہوئے شکر تو دور کی بات ہے اس کا احساس بھی قریب نہیں آنے دیتے۔ یہی حال مکہ میں رہنے والے قریش کا ہے۔ ان کی تاریخ اللہ تعالیٰ کے احسانات سے معمور ہے۔ ایک مستقل احسان حرم کا وجود ہے جس کی وجہ سے انھیں اس طرح کا امن اور سکون میسر ہے کہ مکہ ان کے لیے سفینہ نجات بن گیا ہے جبکہ ان کے گردوپیش کا حال یہ ہے کہ لوگ دن دیہاڑے اچک لیے جاتے ہیں۔ نہ کسی کی جان کے لیے امان ہے اور نہ کسی کا مال محفوظ۔ پورا عرب بدامنی کا جہنم بنا ہوا ہے۔ اشہرِحرم کے سوا پورا سال بدامنی کے شعلے اہل عرب کو جلائے رکھتے ہیں۔ افراد تو خوف کا شکار ہیں ہی، قافلے بھی لوٹ لیے جاتے ہیں۔ لیکن انھیں مکہ معظمہ میں صرف اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے حرم کے باعث ایک ایسا سکون میسر ہے کہ کسی طرح کا کوئی خطرہ انھیں لاحق نہیں ہوتا۔ لیکن ان کی ناشکری کا عالم یہ ہے کہ حرم کے کونے کونے میں انھوں نے بتوں کو لا بٹھایا ہے۔ اور خود بھی ان کی پوجا کررہے ہیں اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں۔ کاش ان سے کوئی پوچھے کہ تمہیں حرم کی وجہ سے امن جیسی جو عظیم نعمت میسر ہے جبکہ سارا عرب اسے ترس رہا ہے تو کیا یہ حرم ان بتوں نے بنایا ہے یا ان قوتوں نے جنھیں تم اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھتے ہو۔ کیا اتنے بڑے احسان کو دیکھ کر بھی تم جس باطل یعنی شرک پر ایمان رکھتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفران کرتے ہو سے توبہ نہیں کرو گے، کیا تمہیں اس سے شرم نہیں آئے گی۔
Top