Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 67
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ١ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَكْفُرُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اَنَّا جَعَلْنَا : کہ ہم نے بنایا حَرَمًا : حرم (سرزمین مکہ) اٰمِنًا : امن کی جگہ وَّ : جبکہ يُتَخَطَّفُ : اچک لیے جاتے ہیں النَّاسُ : لوگ مِنْ : سے (کے) حَوْلِهِمْ ۭ : اس کے ارد گرد اَفَبِالْبَاطِلِ : کیا پس باطل پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ : اور اللہ کی نعمت کی يَكْفُرُوْنَ : ناشکری کرتے ہیں
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو مقام امن بنایا ہے اور لوگ اس کے گرد و نواح سے اچک لئے جاتے ہیں کیا یہ لوگ باطل پر اعتقاد رکھتے ہیں اور خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں
عبدالرحمن بن زید نے کہا : حرم سے مراد مکہ مکرمہ ہے وہ قریش ہیں مکر مکرمہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں امن دیا (1) ۔ ضحاک نے کہا : وہ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو قیدی بنا لیتے ہیں۔ (2) ، خطف کا معنی تیزی سے اچک لینا ہے۔ سورة قصص اور دوسری صورتوں میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ نعمت یاد دلائی تاکہ وہ اس کی اطاعت بجا لائیں یعنی میں نے ان کے لئے امن والا حرم بنایا جس میں وہ قید، غارت گری اور قتل سے امن میں ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں خشکی سے نجات عطا فرمائی ہے۔ جس طرح سمندر میں انہیں نجات عطا فرمائی۔ وہ خشکی میں شرک کرتے ہیں اور سمندر میں شرک نہیں کرتے : یہ ان کے احوال کے تناقص پر تعجب کا اظہار ہے۔ قتادہ نے کہا : باطل سے مراد شرک ہے۔ یحییٰ بن سلام نے کہا : باطل سے مراد ابلیس ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : نعمت سے مراد عافیت ہے۔ ابن شجرہ نے کہا : اللہ تعالیٰ کا احسان اور عطا مراد ہے۔ (4) ابن سلام نے کہا : اس سے مراد وہ ہدایت ہے جو نبی کریم ﷺ لائے۔ نقاش نے کہا : مراد بھوک میں انہیں کھانا کھلانے اور خوف سے امن دینے کا وہ انکار کرتے ہیں۔ (5) یہ تعجب و انکار ہے جو استفہام کے طریقہ پر کلام آئی ہے۔ جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا اور اس کا بچہ تسلیم کیا اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں۔ جب بھی کوئی برا فعل کیا تو کہا : (الاعراف 28) ۔ ہم نے اپنے آباء کو ایسا کرتے ہوئے پایا اور اللہ تعالیٰ نے یہیں اس کا حکم دیا۔ بن سلام نے کہا : بالحق سے مراد قرآن ہے (5) سدی نے کہا : مراد توحید ہے (7) ابن شجرہ نے کہا : مراد حضرت محمد ﷺ کی ذات ہغ۔ یہ قول دونوں قولوں کو جامع ہے۔ اس سے مراد مستقر ہے یہ استفہام تقریر ہے۔ ” اور جو (بلند ہمت) مصروف جہاد رہتے ہیں ہمیں راضی کرنے کے لئے ہم ضرور سکھا دیں گے انہیں اپنے راستے، اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ (ہر وقت) محسنین کے ساتھ ہے۔ “ یعنی جنہوں نے کفار سے ہماری رضا کی خاطر جہاد کیا سدی وغیرہ نے کہا : یہ آیت جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے نازل ہوئیں۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ جہاد عرفی سے پہلے نازل ہوئی (1) یہ اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی رضا کی خاطر عام جہاد ہے۔ حضرت حسن بن ابی الحسن نے کہا : یہ آیت عبادت گزاروں کے حق میں نازل ہوئی (2) حضرت ابن عباس اور ابراہیم بن ادھم نے کہا : یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی جو جسے جانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : (3) جو اس پر عمل کرے وہ جانتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی تعلیم دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا۔ بعض علماء نے اسے اس ارشاد کی طرف منسوب کیا ہے : (البقرہ 282) حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا : جس چیز کے علم سے ہم جاہل ہیں اس کے علم سے ہمیں اس چیز نے روک دیا جو ہم اس چیز پر عمل کرنے سے کوتاہی کرتے ہیں جس کا ہم علم رکھتے ہیں اگر ہم جو کچھ جانتے ہیں اس کے بعض پر بھی عمل کرتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس چیز کا علم عطا فرما دیتا کہ ہمارے بدن اس کو اٹھا نہ سکتے۔ (4) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (البقرہ 282) ابو سلیمان دارمی نے کہا : آیت میں جہاد کا مصداق صرف کفار سے جہاد نہیں بلکہ اس سے مراد دین کی مدد ہے اور باطل پرستوں کا رد ہے، ظالموں کا قلع قمع کرنا ہے، معروف کی نصیحت کرنا ہے اور منکر سے منع کرنا ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں نفوس کا مجاہدہ ہے اور یہی جہاد اکبر ہے۔ سفیان بن عیینہ نے حضرت ابن مبارک سے کہا : جب تو لوگوں کو دیکھے کہ وہ اختلاف میں پڑگئے ہیں تو مجاہدین اور سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کے ساتھ ہو جائو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ” ضحاک نے کہا : آیت کا معنی ہے جنہوں نے ہجرت میں جہاد کیا ہم انہیں ایمان پر ثابت قدم رہنے کے راستوں کی طرف ہدایت عطا فرمائیں گے۔ (5) پھر فرمایا : دنیا میں سنت ایسے ہی ہے جس طرح آخرت میں جنت، جو آخرت میں جنت میں داخل ہوگیا وہ سلامتی پا گیا اس طرح وہ آدمی جو دنیا میں سنت کو لازم پکڑتا ہے اور وہ سلامت رہتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا : جو لوگ ہماری اطاعت میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے ثواب کے راستوں کی طرف ہدایت فرمائیں گے یہ قول اطاعت کے عموم کی وجہ سے تمام اقوام کو شامل ہے، اسی کی مثل حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا قول ہے : فرمایا : حکمت کہتی ہے جو مجھے تلاش کرلے اور مجھے نہ پائے تو وہ مجھے دو مواقع پر تلاش کرے (1) جس چیز کو چاہتا ہے اس میں سے اچھی پر عمل کرے (2) جو چیز جانتا ہے اس میں سے بری سے اجتناب کرے۔ حضرت حسن بن فضل نے کہا : اس میں تقدیم و تاخیر ہے مراد ہے جن کو ہم نے ہدایت عطاء فرمائی وہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہماری رضا کی خاطر جہاد کیا۔ مراد جنت کا راستہ ہے، یہ سدی کا قول ہے، نقاش نے کہا : اللہ تعالیٰ نے انہیں دین حق کی توفیق نصیب فرماتا ہے۔ یوسف بن اسباط نے کہا : معنی ہے ہم ان کی نتیوں، صدقات، نمازوں اور روزوں کو خالص کردیں گے (1) ۔ لام تاکید کا ہے مع پر ودو وجوہ میں سے ایک وجہ سے داخل ہوا (1) مع اسم ہو اور لام تاکید اسماء پر داخل ہوتا ہے (2) یہ حرف ہے اور اس پر لام داخل ہوا ہے کیونکہ اس میں استقرار کا معنی پایا جاتا ہے۔ جس طرح تو کہتا ہے : مع کو جب تو ساکن پڑھے تو یہ حرف نہیں ہوگا کوئی اور چیز نہ ہوگی۔ جب تو اس کو فتحہ دے تو یہ جائز ہے کہ اسم اور حرف ہو۔ اکثر علماء کی رائے میں یہ حرف ہے : جو معنی کے لئے آیا ہے احسان اور محسنین کی وضاحت سورة بقرہ اور دوسری سورتوں میں گزر چکی ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی معیت، نصرت، معونت، حفظ اور ہدایت کے ساتھ حاصل ہوتی ہے اور سب مخلوق کو معیت احاطہ اور قدرت کے ساتھ حاصل ہوتی ہے دونوں معیتوں میں بڑا فرق ہے۔
Top