Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 42
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ١٘ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَا نُكَلِّفُ : ہم بوجھ نہیں ڈالتے نَفْسًا : کسی پر اِلَّا : مگر وُسْعَهَآ : اس کی وسعت اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ حکم بھی نہیں دیتے وہی اہل جنت ہیں جو اس میں ہمیشہ رہا کریں گے
ترکیب : والذین مبتداء اولئک الخ خبر لاتکلف جملہ معترضہ ما موصولہ مع صلہ مفعول نزعنا من غل اس کا بیان تجری الخ جملہ حال صدورھم کی ضمیر سے والعامل معنی الاضافۃ۔ وما کنا الخ جملہ حال ہے ان ھدانا بتاویل مصدر محل رفع میں ہے مبتداء ہو کر کس لئے کہ لولا کے بعد جو اسم واقع ہوا ہے وہ ایسا ہی ہوتا ہے ‘ جو اب لولا محذوف دلالت کرتا ہے اس پر لنہتدی ان تلکم ان مفسرہ ہے اور مخففہ بھی ہوسکتا ہے۔ تب اس کا اسم محذوف ہوگا اور اس کے بعد کا جملہ خیر ہوگا تقدیرہ ای نودوا انہ تلکم الجنۃ اول صورت میں بیان ہوگا نداء کا۔ تفسیر : جبکہ اہل شقاوت کا مآل کار بیان فرما چکا تو اس کے بعد اہل سعادت کا حال بیان فرماتا ہے گرچہ اول آیت میں اجمالاً ان کا کچھ حال بیان کیا تھا کہ لاخوف علیہم ولا ھم یحزنون جیسا کہ کافروں کا بھی اجمالاً حال کھول دیا تھا کہ اولئک اصحاب النارھم فیہا خلدون لیکن ہنوز کان مشتاق تھے کہ اصحاب النار اور اصحاب الجنہ کی کچھ اور بھی تفصیل فرمائی جاوے اس لئے کفار کے حال کی تفصیل فرما کر مومنوں کے حال کی تفصیل فرماتا ہے والذین آمنوا وعملوا الصلحت کہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام بھی کئے ہیں (اور چونکہ اچھے کاموں کا ذکر آیا تو اس کے ساتھ ہی جملہ معترضہ میں یہ بھی کہہ دیا کہ ہم کسی کو طاقت سے بڑھ کر تکلیف بھی نہیں دیتے یعنی جن اعمال صالحہ پر دارالخلد ملتا ہے وہ کچھ ایسے بھاری اور مشکل بھی نہیں) وہ اہل جنت ہیں اور یہ بات بھی نہیں کہ جنت میں سے نکالے جانے کا یا موت کا کھٹکا لگا ہو بلکہ ھم فیہا 1 ؎ خلدون کہ وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ حیات ابدی ان کو نصیب ہوگی اور یہ بات بھی نہ ہوگی کہ وہاں درجات متفاوتہ دیکھ کر کم رتبہ والے کو بڑے رتبہ والے پر رشک و حسد آوے اور پھر یہی کوفت قلبی اس کے تمام عیش کو سرد کر دے جیسا کہ دنیا میں بعض لوگوں کے پاس تندرستی ‘ فراخ دستی آرام کے سامان مہیا ہوتے ہیں مگر پھر بھی کسی کے حسد و رشک میں یا کسی کاوش میں ایسا مبتلا ہوتا ہے کہ اس کے یہ سب لذائذ اس کی آنکھوں میں ہیچ ہوجاتے ہیں اور وہ ان سے متمتع نہیں ہوسکتا۔ برخلاف عالم قدس کے کہ نزعنا مافی صدورھم من غل کہ ہم ان کے دلوں کو بھی اس خباثت سے پاک کردیں گے۔ کسی پر حسد 2 ؎ و رشک باہم کینہ و رنج کچھ نہ ہوگا۔ دنیا کی رنجشیں بھی دور ہوجاویں گی۔ تجری من تحتہم الانہار ان کے عمدہ اور نفیس باغوں اور محلوں سے نہریں بہتی ہوں گی۔ اس کے فضل و رحمت اور انواع مکاشفات اور ہر قسم کی سعادت روحانیہ کے چشمہ اور انہار ان کے قدموں کے تلے سے بہیں گے۔ ان ناز و نعم میں وہ ہمیشہ اللہ کی ستائش کیا کریں گے۔ وقالوا الحمدللّٰہ الذی ھدانا لھذا وماکنا لنہتدی لولا ان ھدانا اللہ الخ کہ سب طرح کی ستائش اس اللہ کے لئے ہے کہ جس نے ہم کو اس کی رہنمائی کی یعنی ہمارے دل میں راہ راست کی طرف خواہش پیدا کی جو ہم کو اس دارالخلد میں لایا۔ انبیاء جنت کی سیدھی سڑک ہے۔ جنت میں وہ تمام نعمائِ الٰہی دیکھ کر جن کی رسولوں نے خبر دی تھی تصدیق کریں گے اور کہیں گے کہ خدا کے فرستادوں نے جو کچھ کہا تھا سب حق ہے۔ پھر وہاں منادی آواز دے کر کہے گا کہ یہ جنت تمہارے اعمال کا بدلہ ہے جو اس نے اپنے فضل سے تمہارے اعمال پر مرتب کیا۔ اللہم ارزقنا الجنۃ بلا حساب 1 ؎ یعنی جنت میں … آنے کا رستہ بتایا اگر وہ نہ چاہتا تو اس کا رستہ نہ ملتا یوں ہی بھٹکتے بھٹکتے مرجاتے جہنم میں جا گرتے۔ 12 منہ 2 ؎ بہشت آنجا کہ آزارے نباشد 12
Top