Siraj-ul-Bayan - Al-Anfaal : 26
وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَ اَیَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَاذْكُرُوْٓا : اور یاد کرو اِذْ : جب اَنْتُمْ : تم قَلِيْلٌ : تھوڑے مُّسْتَضْعَفُوْنَ : ضعیف (کمزور) سمجھے جاتے تھے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تَخَافُوْنَ : تم ڈرتے تھے اَنْ : کہ يَّتَخَطَّفَكُمُ : اچک لے جائیں تمہیں النَّاسُ : لوگ فَاٰوٰىكُمْ : پس ٹھکانہ دیا اس نے تمہیں وَاَيَّدَكُمْ : اور تمہیں قوت دی بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد سے وَرَزَقَكُمْ : اور تمہیں رزق دیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہوجاؤ
اور اس وقت کو یاد کرو جب تم زمین (مکہ) میں قلیل اور ضعیف سمجھے جاتے تھے اور ڈرتے رہتے تھے کہ لوگ تمہیں اُڑا (نہ) لے جائیں (یعنی بےخان وماں نہ کردیں) تو اس نے تم کو جگہ دی اور اپنی مدد سے تم کو تقویت بخشی اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں تاکہ (اس کا) شکر کرو
واذکروا اذ انتم قلیل مستضعفون فی الارض تخفون ان یتخطفکم الناس فاوکم وایدکم بنصرہ ورزقکم من الطیبت لعلکم تشکرون۔ اور اس حالت کو یاد کرو جب تم تھوڑے تھے ‘ اس زمین میں کمزور شمار کئے جاتے تھے۔ تم کو اندیشہ لگا رہتا تھا کہ (مخالف) لوگ تم کو نوچ کھسوٹ (نہ) لیں سو اللہ نے تم کو (مدینہ میں) رہنے کا ٹھکانا دیا اور اپنی نصرت سے تم کو قوت دی اور تم کو نفیس نفیس چیزیں عطا کیں تاکہ تم شکر کرو۔ واذکروا سے خطاب مہاجروں کو ہے اور قلیلہونے سے مراد ہے تعداد کم ہونا اور الارض سے مراد ہے مکہ اور الناس سے مراد قریش ہیں۔ لیکن ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ حضور اقدس ﷺ سے دریافت کیا گیا : الناس سے مراد کون لوگ ہیں ؟ فرمایا : اہل فارس۔ قوت دینے سے مراد ہے بدر میں قوت عطا کرنا۔ الطیبٰت سے مراد ہے مال غنیمت جو صرف مسلمانوں کیلئے حلال کیا گیا ‘ پہلے کسی امت کیلئے حلال نہیں کیا گیا۔ بعض اہل تفسیر کا قول ہے کہ واذکروا میں تمام عرب سے خطاب ہے۔ عرب اسلام سے پہلے ذلیل تھے ‘ روم وفارس کے غلام تھے ‘ رومی اور ایرانی باہم دشمن تھے مگر عرب کے دشمن دونوں تھے۔ عربوں میں تاب مقابلہ نہ تھی۔ جب اسلام آیا تو اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے پاس عربوں کا محفوظ ٹھکانا بنا دیا ‘ عربوں کو مضبوط پناہ گاہ مل گئی اور تمام مذاہب والوں کے مقابلہ میں اللہ نے ان کی نصرت کی۔ بغوی نے سعید بن منصور کی روایت سے لکھا ہے کہ عبد اللہ بن ابی قتادہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اکیس روز تک بنی قریظہ کا محاصرہ رکھا۔ بنی قریظہ نے درخواست کی کہ جن شرائط پر آپ نے بنی نضیر سے صلح کی ہے ‘ اسی شرط پر ہم سے بھی صلح کرلیجئے۔ جس طرح بنی نضیر کو اذرعات اور اریحا علاقۂ شام میں جا کر رہنے کی اجازت دے دی گئی ‘ ہم کو بھی ان کے پاس جا کر آباد ہونے کی اجازت دے دی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ شرط ماننے سے انکار کردیا اور فرمایا : سعد بن معاذ کی ثالثی پر اگر راضی ہو تو اپنے پہاڑی قلعوں سے باہر آجاؤ اور سعد کے فیصلہ پر رضامند ہوجاؤ۔ بنی قریظہ نے سعد بن معاذ کی ثالثی قبول نہیں کی اور عرض کیا : ہمارے پاس ابولبابہ بن عبدالمنذر کو (گفتگو کرنے کیلئے) بھیج دیں۔ حضرت ابولبابہ کے بیوی بچے اور سارا مال یہودیوں کے پاس (یعنی ان کی بستی میں) تھا ‘ اسلئے آپ ان کے خیرخواہ تھے۔ حضور ﷺ نے حضرت ابولبابہ کو بھیج دیا۔ حضرت ابو لبابہ پہنچے تو یہودیوں نے حضرت سعد بن معاذ کی ثالثی کے متعلق ان کی رائے دریافت کی۔ حضرت ابو لبابہ نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کردیا ‘ مراد یہ تھی کہ حضرت سعد کا فیصلہ تمہارے سب کے قتل کا ہوگا ‘ تم ان کی ثالثی پر رضامند نہ ہو۔ سبیل الرشاد میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابولبابہ کو بھیج دیا ‘ آپ کو دیکھ کر یہودی استقبال کیلئے کھڑے ہوگئے اور عورتوں اور بچوں نے آپ کے سامنے رونا پیٹنا شروع کردیا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ کا دل نرم پڑگیا۔ کعب بن اسد نے کہا : ابو لبابہ ! دوسروں کے مقابلہ میں ہم نے آپ کا انتخاب کیا ہے۔ محمد ﷺ اپنے فیصلہ پر اڑے ہوئے ہیں اور اپنی ہی شرط کے مطابق ہم کو باہر نکل آنے کا حکم دے رہے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے ‘ کیا ہم محمد ﷺ کے فیصلہ کے مطابق (اپنی پناہ گاہوں سے) نیچے اتر آئیں ؟ حضرت ابولبابہ نے زبان سے تو ہاں کہہ دیا مگر ہاتھ سے حلق کی طرف اشارہ کردیا ‘ مطلب یہ تھا کہ قتل کر دئیے جاؤ گے۔ حضرت ابولبابہ کا بیان ہے کہ یہ اشارہ کرنے کے بعد اس جگہ سے میں ہٹا بھی نہ تھا کہ فوراً مجھے یقین ہوگیا کہ یہ تو میں نے اللہ اور اس کے رسول سے غداری کی۔ یہ یقین آتے ہی پشیمان ہوا ‘ انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور (اتنا رویا کہ) ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ لوگ میری واپسی کے منتظر تھے مگر میں گڑھی کے پیچھے سے دوسرے راستہ سے نکل کر سیدھا مسجد میں پہنچا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر نہ ہوا۔ مسجد میں پہنچ کر پچھلے ستون سے جس کو (اب) ستون توبہ کہا جاتا ہے ‘ اپنے کو باندھ دیا اور پکا ارادہ کرلیا کہ یہاں سے نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ مرجاؤں یا اللہ توبہ قبول فرما لے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابو لبابہ نے یہ الفاظ کہے تھے : میں نہیں کھولوں گا ‘ نہ کھانے پینے کا مزہ چکھوں گا تاوقتیکہ اللہ میری توبہ قبول نہ کرلے یا میں یونہی مرجاؤں۔ اس واقعہ کی رسول اللہ ﷺ کو اطلاع پہنچی تو فرمایا : اگر وہ میرے پاس آجاتا تو میں اس کیلئے استغفار کرتا لیکن جب اس نے خود وہ کام کرلیا جو اس نے چاہا تو اب جب تک اللہ اس کی توبہ قبول نہیں فرمائے گا ‘ میں اس کو نہیں کھولوں گا۔ چناچہ حضرت ابولبابہ سات روز تک اسی حالت میں بغیر کچھ کھائے پئے رہے ‘ آخر بےہوش ہو کر گرپڑے ‘ پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ سبیل الرشاد میں ابن ہشام کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت ابولبابہ چھ روز تک بندھے رہے۔ بی بی آکر ہر نماز کے وقت کھول دیتی تھی ‘ آپ وضو کر کے نماز پڑھ لیتے اور پھر بندھ جاتے تھے۔ ابن عقبہ کا بیان ہے : لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت ابولبابہ تقریباً بیس روز تک بندھے رہے۔ بدایہ میں اسی کو سب سے زیادہ صحیح روایت کہا گیا ہے۔ ابن اسحاق نے پچیس دن بندھے رہنے کی صراحت کی ہے۔ ابن وہب نے بروایت مالک ‘ حضرت عبدا اللہ بن ابی بکر کا بیان نقل کیا ہے جس میں بکری (باندھنے) کی رسی سے کچھ اوپر دس روز تک بندھے رہنے کی صراحت کی ہے اور بیان کیا ہے کہ ان کی شنوائی اور بینائی تقریباً مفقود ہوگئی تھی ‘ کچھ سن نہ سکتے تھے اور نماز یا ضروری حاجت کیلئے بیٹی آکر کھول دیتی تھی اور فراغت کے بعد پھر باندھ دیتی تھی۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کبھی بیوی یہ خدمت انجام دیتی تھی اور کبھی بیٹی۔ حضرت ابولبابہ کی توبہ ہی کے متعلق آیت وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْ خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّاٰخَرَاللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفْوُرٌ رَحَّیْمِ 5 نازل ہوئی۔ ابن اسحاق نے بروایت یزید بن عبد اللہ بن قسیط بیان کیا کہ حضرت ابولبابہ کی توبہ قبول ہونے کی آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ حضرت ام سلمہ کے مکان میں تھے۔ اوّل صبح (سحر کے وقت) رسول اللہ ﷺ مسکرانے لگے ‘ حضرت ام سلمہ نے عرض کیا : اللہ آپ کو ہنساتا رہے ‘ آپ کے (اس وقت) ہنسنے کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا : ابولبابہ کی توبہ قبول کرلی گئی۔ حضرت ام سلمہ نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میں یہ خوشخبری (باہر کے لوگوں کو) نہ دے دوں ؟ فرمایا : کیوں نہیں (دے دو ) پردہ کا حکم اس وقت تک نازل نہیں ہوا تھا ‘ اسلئے حضرت ام سلمہ نے دروازہ پر آکر کہا : ابولبابہ ! تم کو بشارت ہو ‘ اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی۔ یہ سنتے ہی لوگ حضرت ابولبابہ کو کھولنے کیلئے چڑھ دوڑے۔ حضرت ابولبابہ نے کہا : نہیں (مجھے کوئی نہ کھولے) خدا کی قسم ! جب تک رسول اللہ ﷺ خود اپنے ہاتھ سے مجھے نہیں کھولیں گے (میں کسی کو کھولنے نہ دوں گا) چناچہ فجر کی نماز کو جاتے میں رسول اللہ ﷺ حضرت ابولبابہ کی طرف تشریف لائے اور ان کو آزاد کیا۔ سہیلی نے حضرت علی بن حسین (یعنی امام زین العابدین) کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ (شروع میں) حضرت ابولبابہ کو کھولنے کیلئے تشریف لے گئی تھیں ‘ مگر حضرت ابولبابہ نے کہا : میں نے قسم کھالی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سوا مجھے اور کوئی نہیں کھول سکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فاطمہ میرا ہی جزء ہے (اس کا کھولنا میرا کھولنا ہے) اس روایت کی سند میں علی بن زید بن جذعان ضعیف راوی ہے ‘ پھر علی بن حسین کی یہ روایت مرسل بھی ہے (امام زین العابدین نے حضرت فاطمہ کو نہیں دیکھا اور آپ نے کس سے سنا ‘ اس کا ذکر نہیں کیا ‘ نہ اپنے والد امام حسین کا ‘ نہ امام حسن کا ‘ نہ کسی اور صحابی کا) ۔ رہا ہونے کے بعد حضرت ابولبابہ نے کہا : میری توبہ کی تکمیل اس وقت ہوگی جب میں اپنے خاندانی مکان کو چھوڑ دوں گا کیونکہ اسی مکان میں مجھ سے گناہ کا صدور ہوا ہے اور اپنے تمام مال سے بھی کنارہ کش ہوجاؤں (کل مال خیرات کر دوں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم کو خیرات کرنی ہی ہے تو ایک تہائی مال خیرات کرنا تمہارے لئے کافی ہے۔ حضرت ابولبابہ کے متعلق اس کے بعد آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top