بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 1
وَ اِنْ كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآئِفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَا١ۚ وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہے طَآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْكُمْ : تم سے اٰمَنُوْا : جو ایمان لایا بِالَّذِيْٓ : اس چیز پر جو اُرْسِلْتُ : میں بھیجا گیا بِهٖ : جس کے ساتھ وَطَآئِفَةٌ : اور ایک گروہ لَّمْ يُؤْمِنُوْا : ایمان نہیں لایا فَاصْبِرُوْا : تم صبر کرلو حَتّٰي : یہاں تک کہ يَحْكُمَ : فیصلہ کردے اللّٰهُ : اللہ بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَهُوَ : اور وہ خَيْرُ : بہترین الْحٰكِمِيْنَ : فیصلہ کرنے والا
اے نبی ڈر اللہ سے اور کہا نہ مان منکروں کا اور دغابازوں کا مقرر اللہ ہے سب کچھ جاننے والا حکمتوں والا
خلاصہ تفسیر
اے نبی اللہ سے ڈرتے رہئے (اور کسی سے نہ ڈریئے اور ان کی دھمکیوں کی ذرا پروا نہ کیجئے) اور کافروں کا (جو کھلم کھلا دین کے خلاف مشورے دیتے ہیں) اور منافقوں کا (جو درپردہ ان کے ساتھ متفق ہیں) کہنا نہ مانئے (بلکہ اللہ ہی کا کہنا کیجئے) بیشک اللہ تعالیٰ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے (اس کا ہر حکم فوائد اور مصالح پر مشتمل ہوتا ہے) اور (اللہ کا کہنا ماننا یہ ہے کہ) آپ کے پروردگار کی طرف سے جو حکم آپ پر وحی کیا جاتا ہے اس پر چلئے (اور اے لوگو) بیشک تم لوگوں کے سب اعمال کی اللہ تعالیٰ پوری خبر رکھتا ہے (تم میں سے جو ہمارے پیغمبر کی مخالفت اور مزاحمت کر رہے ہیں ہم سب کو سمجھیں گے) اور (اے نبی) آپ (ان لوگوں کی دھمکیوں کے معاملہ میں) اللہ پر بھروسہ رکھئے اور اللہ کافی کارساز ہے (اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کی کوئی تدبیر نہیں چل سکتی، اس لئے کچھ فکر نہ کیجئے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کسی ابتلاء کو مقتضی ہو اور اس کی وجہ سے کوئی عارضی تکلیف پہنچ جائے تو وہ ضرر نہیں بلکہ عین منفعت ہے۔

معارف و مسائل
یہ مدنی سورة ہے اس کے بیشتر مضامین رسول کریم ﷺ کی محبوبیت اور خصوصیت عند اللہ پر مشتمل ہیں، جس میں آپ کی تعظیم کا واجب ہونا اور آپ کی ایذا رسانی کا حرام ہونا مختلف عنوانات سے بیان ہوا ہے اور باقی مضامین سورة بھی انہی کی تکمیل و اتمام سے مناسبت رکھتے ہیں۔
شان نزول
اس سورة کے سبب نزول میں چند روایات منقول ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں تشریف فرما ہوئے، تو مدینہ کے آس پاس یہود کے قبائل بنو قریظہ، بنو نضیر، بنو قینقاع وغیرہ آباد تھے۔ رحمة العالمین کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ کسی طرح یہ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ اتفاقاً ان یہودیوں میں سے چند آدمی آپ کی خدمت میں آنے لگے اور منافقانہ طور پر اپنے آپ کو مسلمان کہنے لگے، دلوں میں ایمان نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو غنیمت سمجھا، کہ کچھ لوگ مسلمان ہوجائیں تو دوسروں کو دعوت دینا آسان ہوجائے گا۔ اس لئے آپ ان لوگوں کے ساتھ خاص مدارات کا معاملہ فرماتے اور ان کے چھوٹے بڑے آنے والوں کا احترام کرتے تھے اور کوئی بری بات بھی ان سے صادر ہوتی تو دینی مصلحت سمجھ کر اس سے چشم پوشی فرماتے تھے۔ اس واقعہ پر سورة احزاب کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ (قرطبی)
ایک دوسرا واقعہ ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ میں سے ولید بن مغیرہ اور شیبہ ابن ربیعہ مدینہ طیبہ آئے اور آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ پیش کش کی کہ ہم سب قریش مکہ کے آدھے اموال آپ کو دے دیں گے اگر آپ اپنے دعوے کو چھوڑ دیں۔ اور مدینہ طیبہ کے منافقین اور یہود نے آپ کو یہ دھمکی دی کہ اگر آپ نے اپنا دعویٰ اور دعوت سے رجوع نہ کیا تو ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (روح)
تیسرا ایک واقعہ ثعلبی اور واحدی نے بغیر سند یہ نقل کیا ہے کہ ابو سفیان اور عکرمہ ابن ابی جہل اور ابو الاعو رسلمی اس زمانے میں جب واقعہ حدیبیہ میں کفار مکہ اور آنحضرت ﷺ کے مابین ترک جنگ پر معاہدہ ہوگیا تھا تو یہ لوگ مدینہ طیبہ آئے اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ہمارے معبودوں کا برائی سے ذکر کرنا چھوڑ دیں، صرف اتنا کہہ دیں کہ یہ بھی شفاعت کریں گے اور نفع پہنچائیں گے۔ آپ اتنا کرلیں تو ہم آپ کو اور آپ کے رب کو چھوڑ دیں گے، جھگڑا ختم ہوجائے گا۔
ان کی بات رسول اللہ ﷺ اور سب مسلمانوں کو سخت ناگوار ہوئی، مسلمانوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں ان سے معاہدہ صلح کرچکا ہوں اس لئے ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں (روح) یہ روایات اگرچہ مختلف ہیں مگر درحقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں، یہ واقعات بھی آیات مذکورہ کے نزول کا سبب ہو سکتے ہیں۔
ان آیتوں میں رسول اللہ ﷺ کو دو حکم دئے گئےپہلا اتق اللہ یعنی اللہ سے ڈرو، دوسرا لاتطع الکفرین، یعنی کافروں کا کہنا نہ مانو۔ اللہ سے ڈرنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ ان لوگوں کو قتل کرنا عہد شکنی ہے جو حرام ہے۔ اور کفار کی بات نہ ماننے کا حکم اس لئے کہ ان تمام واقعات میں کفار کی جو فرمائشیں ہیں وہ ماننے کے قابل نہیں۔ اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔
(آیت) یایھا النبی اتق اللہ، یہ رسول اللہ ﷺ کا خاص اعزازو اکرام ہے کہ پورے قرآن میں کہیں آپ کو نام لے کر مخاطب نہیں کیا گیا، جیسا کہ دوسرے انبیاء کے خطابات میں یا آدم، یا لوح، یا ابراہیم، یا موسیٰ وغیرہ بار بار آیا ہے، بلکہ خاتم الانبیاء ﷺ کو پورے قرآن میں جہاں خطاب کیا گیا وہ کسی لقب نبی یا رسول وغیرہ سے خطاب کیا گیا۔ صرف چار مواقع جن میں یہی بتلانا منظور تھا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، ان میں آپ کا نام ذکر کیا گیا ہے جو ضروری تھا۔
اس خطاب میں آنحضرت محمد ﷺ کو دو حکم دیئے گئے۔ ایک خدا تعالیٰ سے ڈرنے کا، کہ مشرکین سے جو معاہدہ ہوچکا ہے اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، دوسرے مشرکین اور منافقین و یہود کی بات نہ ماننے کا۔ یہاں جو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو ہر گناہ سے معصوم ہیں، عہد شکنی بھی گناہ کبیرہ ہے، اور کفار و مشرکین کی وہ باتیں جو شان نزول میں اوپر بیان کی گئیں، ان کا ماننا بھی گناہ عظیم ہے تو آپ خود ہی اس سے محفوظ تھے۔ پھر اس حکم کی ضرورت کیا پیش آئی ؟ روح المعانی میں ہے کہ مراد ان احکام سے آئندہ بھی ان پر قائم رہنے کی ہدایت ہے جیسا کہ اس واقعہ میں آپ ان پر قائم رہے اور اتق اللہ کے حکم کو اس لئے مقدم کیا کہ مسلمانوں نے ان مشرکین مکہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا جن سے معاہدہ صلح ہوچکا تھا۔ اس لئے عہد شکنی سے بچنے کی ہدایت لفظ اتق اللہ کے ذریعہ مقدم کی گئی۔ بخلاف اطاعت کفار و مشرکین کے کہ اس کا کسی نے ارادہ بھی نہ کیا تھا اس لئے اس کو موخر کیا گیا۔
اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں اگرچہ خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے مگر مراد امت کو سنانا ہے۔ آپ تو معصوم تھے، احکام آلہیہ کی خلاف ورزی کا آپ سے کوئی احتمال نہ تھا۔ مگر قانون پوری امت کے لئے ہے، ان کو سنانے کا عنوان یہ اختیار کیا گیا کہ خطاب رسول اللہ ﷺ کو فرمایا جس سے حکم کی اہمیت بڑھ گئی، کہ جب اللہ کے رسول بھی اس کے مخاطب ہیں تو امت کا کوئی فرد اس سے کیسے مستثنیٰ ہوسکتا ہے۔
اور ابن کثیر نے فرمایا کہ اس آیت میں کفار و مشرکین کی اطاعت سے منع کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ آپ ان سے مشورے نہ کریں، ان کو زیادہ مجالست کا موقع نہ دیں۔ کیونکہ ایسے مشورے اور باہمی روابط بسا اوقات اس کا سبب بن جایا کرتے ہیں کہ ان کی بات مان لی جائے تو اگرچہ ان کی بات مان لینے کا رسول اللہ ﷺ سے کوئی احتمال نہ تھا مگر ان کے ساتھ ایسے روابط رکھنے اور ان کو اپنے مشوروں میں شریک کرنے سے بھی آپ کو روک دیا گیا، اور اس کو اطاعت کے لفظ سے اس لئے تعبیر کردیا کہ ایسے مشورے اور باہمی روابط عادتاً ماننے کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔ تو یہاں درحقیقت آپ کو اسباب اطاعت سے منع کیا گیا ہے، نفس اطاعت کا تو آپ سے احتمال ہی نہ تھا۔
رہا یہ سوال کہ آیت مذکورہ میں کافروں کی طرف سے خلاف شرع اور خلاف حق باتوں کا اظہار تو کوئی بعید نہیں، ان کی اطاعت سے منع کرنا بھی ظاہر ہے۔ مگر منافقین نے اگر اسلام کے خلاف کوئی بات آپ سے کہی تو پھر وہ منافقین نہ رہے، کھلے کافر ہوگئے، ان کو الگ ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہوتی ؟ جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ منافقین نے بالکل کھول کر تو کوئی بات خلاف اسلام نہ کہی ہو مگر دوسرے کفار کی تائید اور حمایت میں کوئی کلمہ کہا ہو۔
اور منافقین کا جو واقعہ شان نزول میں اوپر بیان ہوا ہے، اگر اس کو سبب نزول قرار دیا جائے تو اس میں اشکال ہی نہیں۔ کیونکہ اس واقعہ کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کو اس سے روکا گیا ہے کہ ان اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے یہود سے آپ زیادہ مدارات کا معاملہ نہ کریں۔
اس آیت کے آخر میں (آیت) ان اللہ کان علیماً حکیماً ، فرما کر اس حکم کی حکمت بیان کردی گئی۔ جو اوپر دیا گیا ہے کہ اللہ سے ڈریں، اور کفار و منافقین کا کہنا نہ مانیں۔ کیونکہ عواقب امور اور نتائج کا جاننے والا اللہ تعالیٰ بڑا حکیم ہے، وہی مصالح عباد کو جانتا ہے، یہ اس لئے فرمایا کہ کفار یا منافقین کی بعض باتیں ایسی بھی تھیں جن سے شر و فساد کم ہونے اور باہمی رواداری کی فضا قائم ہونے وغیرہ کے فوائد حاصل ہو سکتے تھے۔ مگر حق تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا کہ ان لوگوں کے ساتھ یہ رواداری بھی مصلحت کے خلاف ہے، اس کا انجام اچھا نہیں۔
Top