Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 56
ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ : پھر ہم نے تمہیں زندہ کیا مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ : تمہاری موت کے بعد لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
تم بے جان ہوکر گر چکے تھے ،مگر پھر ہم نے تم کو جِلا اُٹھایا ، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاوٴ71
سورة الْبَقَرَة 71 یہ اشارہ جس واقعہ کی طرف ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر جب حضرت موسیٰ ؑ طُور پر تشریف لے گئے تھے، تو آپ ؑ کو حکم ہوا تھا کہ اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستّر نمائندے بھی لے کر آئیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو کتاب اور فرقان عطا کی، تو آپ نے اسے ان نمائندوں کے سامنے پیش کیا۔ اس موقع پر قرآن کہتا ہے کہ ان میں سے بعض شریر کہنے لگے کہ ہم محض تمہارے بیان پر کیسے مان لیں کہ خدا تم سے ہم کلام ہوا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور انہیں سزا دی گئی۔ لیکن بائیبل کہتی ہے کہ ”انہوں نے اسرائیل کے خدا کو دیکھا۔ اس کے پاؤں کے نیچے نیلم کے پتھر کا چبوترا تھا، جو آسمان کی مانند شفاف تھا۔ اور اس نے بنی اسرائیل کے شرفا پر اپنا ہاتھ نہ بڑھایا۔ سو انہوں نے خدا کو دیکھا اور کھایا اور پیا۔“ (خرُوج، باب 24۔ آیت 11-10) لُطْف یہ ہے کہ اسی کتاب میں آگے چل کر لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جلال دکھا دے، تو اس نے فرمایا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ (دیکھو خروج، باب 33۔ آیت 23-18)
Top