Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Hujuraat : 14
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ١ؕ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ١۫ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اشْتَرٰي : خرید لیے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَنْفُسَھُمْ : ان کی جانیں وَاَمْوَالَھُمْ : اور ان کے مال بِاَنَّ : اس کے بدلے لَھُمُ : ان کے لیے الْجَنَّةَ : جنت يُقَاتِلُوْنَ : وہ لڑتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَيَقْتُلُوْنَ : سو وہ مارتے ہیں وَيُقْتَلُوْنَ : اور مارے جاتے ہیں وَعْدًا : وعدہ عَلَيْهِ : اس پر حَقًّا : سچا فِي التَّوْرٰىةِ : تورات میں وَالْاِنْجِيْلِ : اور انجیل وَالْقُرْاٰنِ : اور قرآن وَمَنْ : اور کون اَوْفٰى : زیادہ پورا کرنیوالا بِعَهْدِهٖ : اپنا وعدہ مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے فَاسْتَبْشِرُوْا : پس تم خوشیاں مناؤ بِبَيْعِكُمُ : اپنے سودے پر الَّذِيْ : جو کہ بَايَعْتُمْ : تم نے سودا کیا بِهٖ : اس سے وَذٰلِكَ : اور یہ ھُوَ : وہ الْفَوْزُ : کامیابی الْعَظِيْمُ : عظیم
خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں (اور اس کے) عوض میں ان کے لئے بہشت (تیار کی) ہے۔ یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے جاتے بھی ہیں۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے جس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے اور خدا سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے ؟ تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
(111) اللہ تعالیٰ نے خالص مسلمانوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا یعنی وہ لوگ اطاعت خداوندی میں لڑتے ہیں جس میں کبھی دشمن کو قتل کرتے ہیں اور کبھی دشمن ان کو قتل کردیتا ہے، اس قتال اور جہاد پر ان سے ایسا سچا وعدہ کیا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ ضرور پورا کریں گے، اور یہ بات طے شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنے وعدہ کو کون پورا کرنے والا ہے تو اب تم اپنی تجارت پر جس کا تم نے اللہ تعالیٰ سے معاہدہ ٹھہرایا ہے جنت کی خوشخبری مناؤ اور جنت کا ملنا تمہارے حق بہت ہی بڑی کامیابی ہے۔ شان نزول : (آیت) ”ان اللہ اشتری“۔ (الخ) ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ عبدالل بن رواحہ ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ اپنے پروردگار کے لیے اور اپنی ذات کے لیے جو آپ چاہیں شرط قرار دیدیں، آپ نے فرمایا اپنے پروردگار کے لیے تو یہ شرط قرار دیتا ہوں کہ صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ اور اپنی ذات کے لیے یہ شرط قرار دیتا ہوں کہ جن سے اپنی حفاظت کرتے ہو ان سے میری حفاظت کرو، صحابہ کرام ؓ یہ سن کر بولے یہ تجارت تو بہت ہی کامیاب ہے نہ ہم اس کو واپس دیں گے اور نہ واپس لیں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں جنت کے بدلے میں خرید لی ہیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
Top