Tafseer Ibn-e-Kaseer - Hud : 44
وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَقِيْلَ : اور کہا گیا يٰٓاَرْضُ : اے زمین ابْلَعِيْ : نگل لے مَآءَكِ : اپنا پانی وَيٰسَمَآءُ : اور اے آسمان اَقْلِعِيْ : تھم جا وَغِيْضَ : اور خشک کردیا گیا الْمَآءُ : پانی وَقُضِيَ : اور پورا ہوچکا (تمام ہوگیا) الْاَمْرُ : کام وَاسْتَوَتْ : اور جا لگی عَلَي الْجُوْدِيِّ : جودی پہاڑ پر وَقِيْلَ : اور کہا گیا بُعْدًا : دوری لِّلْقَوْمِ : لوگوں کے لیے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان تھم جا۔ تو پانی خشک ہوگیا اور کام تمام کردیا گیا اور کشی کوہ جودی پر جا ٹھہری۔ اور کہہ دیا گیا کہ بےانصاف لوگوں پر لعنت
طوفان نوح ؑ کی روداد روئے زمین کے سب لوگ اس طوفان میں جو درحقیقت غضب الٰہی اور مظلوم پیغمبر کی بد دعا کا عذاب تھا غرق ہوگئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ عزوجل نے زمین کو اس پانی کے نگل لینے کا حکم دیا جو اس کا اگلا ہوا اور آسمان کا برسایا ہوا تھا۔ ساتھ ہی آسمان کو بھی پانی برسانے سے رک جانے کا حکم ہوگیا۔ پانی گھٹنے لگا اور کام پورا ہوگیا یعنی تمام کافر نابود ہوگئے، صرف کشتی والے مومن ہی بچے۔ کشتی بحکم ربی جو دی پر رکی۔ مجاہد کہتے ہیں یہ جزیرہ میں ایک پہاڑ ہے سب پہاڑ ڈبو دیئے گئے تھے اور یہ پہاڑ بوجہ اپنی عاجزی اور تواضع کے غرق ہونے سے بچ رہا تھا یہیں کشتی نوح لنگر انداز ہوئی۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مہینے بھر تک یہیں لگی رہی اور سب اتر گئے اور کشتی لوگوں کی عبرت کے لیے یہیں ثابت وسالم رکھی رہی یہاں تک کہ اس امت کے اول لوگوں نے بھی اسے دیکھ لیا۔ حالانکہ اس کے بعد کی بہترین اور مضبوط سینکڑوں کشتیاں بنیں بگڑیں بلکہ راکھ اور خاک ہوگئیں۔ ضحاک فرماتے ہیں جودی نام کا پہاڑ موصل میں ہے۔ بعض کہتے ہیں طور پہاڑ کو ہی جودی بھی کہتے ہیں۔ زربن حبیش کو ابو اب کندہ سے داخل ہو کر دائیں طرف کے زاویہ میں نماز بکثرت پڑھتے ہوئے دیکھ کر نوبہ بن سالم نے پوچھا کہ آپ جو جمعہ کے دن برابر یہاں اکثر نماز پڑھا کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کشتی نوح یہیں لگی تھی۔ ابن عباس کا قول ہے کہ حضرت نوح ؑ کے ساتھ کشتی میں بال بچوں سمیت کل اسی (80) آدمی تھے۔ ایک سو پچاس دن تک وہ سب کشتی میں ہی رہے۔ اللہ تعالیٰ نے کشتی کا منہ مکہ شریف کی طرف کردیا۔ یہاں وہ چالیس دن تک بیت اللہ شریف کا طواف کرتی رہی۔ پھر اسے اللہ تعالیٰ نے جودی کی طرف روانہ کردیا، وہاں وہ ٹھہر گئی۔ حضرت نوح ؑ نے کوے کو بھیجا کہ وہ خشکی کی خبر لائے۔ وہ ایک مردار کے کھانے میں لگ گیا اور دیر لگا دی۔ آپ نے ایک کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتوں کے درخت کا پتہ اور پنجوں میں مٹی لے کر واپس آیا۔ اس سے حضرت نوح ؑ نے سمجھ لیا کہ پانی سوکھ گیا ہے اور زمین ظاہر ہوگئی ہے۔ پس آپ جودی کے نیچے اترے اور وہیں ایک بستی کی بنا ڈال دی جسے ثمانین کہتے ہیں۔ ایک دن صبح کو جب لوگ جاتے تو ہر ایک کی زبان بدلی ہوئی تھی۔ ایسی زبانیں بولنے لگے جن میں سب سے اعلیٰ اور بہترین عربی زبان تھی۔ ایک کو دوسرے کا کلام سمجھنا محال ہوگیا۔ نوح ؑ کو اللہ تعالیٰ نے سب زبانیں معلوم کرا دیں، آپ ان سب کے درمیان مترجم تھے۔ ایک کا مطلب دوسرے کو سمجھا دیتے تھے۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ کشتی نوح مشرق مغرب کے درمیان چل پھر رہی تھی پھر جودی پر ٹھہر گئی۔ حضرت قتادہ وغیرہ فرماتے ہیں رجب کی دسویں تاریخ مسلمان اس میں سوار ہوئے تھے پانچ ماہ تک اسی میں رہے انہیں لے کر کشتی جودی پر مہینے بھر تک ٹھہری رہی۔ آخر محرم کے عاشورے کے دن وہ سب اس میں سے اترے۔ اسی قسم کی ایک مرفوع حدیث بھی ابن جریر میں ہے، انہوں نے اس دن روزہ بھی رکھا۔ واللہ اعلم۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی ﷺ نے چند یہودیوں کو عاشوررے کے دن روزہ رکھے ہوئے دیکھ کر ان سے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتارا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو دیا تھا۔ اور اسی دن کشتی نوح جودی پر لگی تھی۔ پس ان دونوں پیغمبروں نے شکر الٰہی کا روزہ اس دن رکھا تھا۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا پھر موسیٰ ؑ کا سب سے زیادہ حق دار میں ہوں اور اس دن کے روزے کا میں زیادہ مستحق ہوں۔ پس آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں سے جو آج روزے سے ہو وہ تو اپنا روزہ پورا کرے اور جو ناشتہ کرچکا ہو وہ بھی باقی دن کچھ نہ کھائے۔ یہ روایت اس سند سے تو غریب ہے لیکن اس کے بعض حصے کے شاہد صحیح حدیث میں بھی موجود ہیں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ظالموں کو خسارہ، ہلاکت اور رحمت حق سے دوری ہوئی۔ وہ سب ہلاک ہوئے ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا۔ تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ قوم نوح میں سے کسی پر بھی رحم کرنے والا ہوتا تو اس بچے کی ماں پر رحم کرتا۔ حضرت نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک ٹھہرے آپ نے ایک درخت بویا تھا جو سو سال تک بڑھتا اور بڑا ہوتا رہا پھر اسے کاٹ کر تختے بنا کر کشتی بنانی شروع کی۔ کافر لوگ مذاق اڑاتے کہ یہ اس خشکی میں کشتی کیسے چلائیں گے ؟ آپ جواب دیتے تھے کہ عنقریب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے جب آپ بنا چکے اور پانی زمین سے ابلنے اور آسمان سے برسنے لگا اور گلیاں اور راستے پانی سے ڈوبنے لگے تو اس بچے کی ماں جسے اپنے اس بچے سے غایت درجے کی محبت کی تھی وہ اسے لے کر پہاڑ کی طرف چلی گئی اور جلدی جلدی اس پر چڑھنا شروع کیا، تہائی حصے پر چڑھ گئی لیکن جب اس نے دیکھا کہ پانی وہاں بھی پہنچا تو اور اوپر کو چڑھی۔ دو تہائی کو پہنچی جب پانی وہاں بھی پہنچا تو اس نے چوٹی پر جا کر دم لیا لیکن پانی وہاں بھی پہنچ گیا جب گردن گردن پانی چڑھ گیا تو اس نے اپنے بچے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اونچا اٹھالیا لیکن پانی وہاں بھی پہنچا اور ماں بچہ دنوں غرق ہوگئے۔ پس اگر اس دن کوئی کافر بھی بچنے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس بچے کی ماں پر رحم کرتا۔ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے کہ کعب احبار، مجاہد اور ابن جبیر سے بھی اس بچے اور اس کی ماں کا یہی قصہ مروی ہے۔
Top