Jawahir-ul-Quran - Al-Muminoon : 14
وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَ اَنْهٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙ
وَاَلْقٰى : اور ڈالے (رکھے) فِي الْاَرْضِ : زمین میں۔ پر رَوَاسِيَ : پہاڑ اَنْ تَمِيْدَ : کہ جھک نہ پڑے بِكُمْ : تمہیں لے کر وَاَنْهٰرًا : اور نہریں دریا وَّسُبُلًا : اور راستے لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : راہ پاؤ
اور رکھ دیے زمین پر14 بوجھ کہ کبھی جھک پڑیں تم کو لے کر   اور بنائیں ندیاں اور راستے تاکہ تم راہ پاؤ
14:۔ زمین میں پہاڑ رکھ دئیے تاکہ زمین میں حرکت و اضطراب پیدا نہ ہو اور دریا اور راستے بنائے یہ چیزیں اس لیے بنائیں تاکہ تمہیں راہنمائی حاصل ہو۔ ” لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ “ اگر صرف ” سُبُلًا “ کی مناسبت سے کہا گیا ہو تو مطلب واضح ہے۔ اور اگر اسے پہاڑوں اور دریاؤ کے ساتھ بھی متعلق مانا جائے تو بھی درست ہے کیونکہ پہاڑ اور دریا بھی مختلف ملکوں اور علاقوں کو ایک دوسرے جدا کرنے میں ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ یہ اشیاء ابطال شرک میں ہماری راہنمائی کرتی ہیں۔ ویجوز ان یکون تعلیلا بالنظر الی جمیع ما تقدم لان تلک الاثار العظام تدل علی بطلان الشرک (روح ج 14 ص 116) ۔ (” لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ “ ) الی مقاصدکم او الی توحید ربکم (مدارک ج 2 ص 218) ۔ ” وَ عَلٰمٰتٍ “ یہ بھی ” رَوَاسِیَ “ پر معطوف ہے یعنی راستوں کی علامتیں جن سے منزل مقصود کا صحیح راستہ متعین کیا جاسکے۔ ” و بِالنَّجْمِ ھُمْ یَھْتَدُوْنَ “ اور رات کو جب ہر طرف گھپ اندھیرا ہو اور مسافر راستہ بھول جائے تو ستاروں کو دیکھ کر وہ اپنی منزل کا راستہ متعین کرسکتا ہے۔
Top