Mufradat-ul-Quran - Al-Muminoon : 14
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا١ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ١ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ
ثُمَّ : پھر خَلَقْنَا : ہم نے بنایا النُّطْفَةَ : نطفہ عَلَقَةً : جما ہوا خون فَخَلَقْنَا : پس ہم نے بنایا الْعَلَقَةَ : جما ہوا خون مُضْغَةً : بوٹی فَخَلَقْنَا : پھر ہم نے بنایا الْمُضْغَةَ : بوٹی عِظٰمًا : ہڈیاں فَكَسَوْنَا : پھر ہم پہنایا الْعِظٰمَ : ہڈیاں لَحْمًا : گوشت ثُمَّ : پھر اَنْشَاْنٰهُ : ہم نے اسے اٹھایا خَلْقًا : صورت اٰخَرَ : نئی فَتَبٰرَكَ : پس برکت والا اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنُ : بہترین الْخٰلِقِيْنَ : پید ا کرنے والا
پھر نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا پھر اس کو نئی صورت میں بنادیا تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا ہے بڑا بابرکت ہے
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝ 0ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۝ 0ۭ فَتَبٰرَكَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ۝ 14ۭ علق العَلَقُ : التّشبّث بالشّيء، يقال : عَلِقَ الصّيد في الحبالة، وأَعْلَقَ الصّائد : إذا علق الصّيد في حبالته، والمِعْلَقُ والمِعْلَاقُ : ما يُعَلَّقُ به، وعِلَاقَةُ السّوط کذلک، وعَلَقُ القربة كذلك، وعَلَقُ البکرة : آلاتها التي تَتَعَلَّقُ بها، ومنه : العُلْقَةُ لما يتمسّك به، وعَلِقَ دم فلان بزید : إذا کان زيد قاتله، والعَلَقُ : دود يتعلّق بالحلق، والعَلَقُ : الدّم الجامد ومنه : العَلَقَةُ التي يكون منها الولد . قال تعالی: خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق/ 2] ، وقال : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً «1» والعِلْقُ : الشّيء النّفيس الذي يتعلّق به صاحبه فلا يفرج عنه، والعَلِيقُ : ما عُلِّقَ علی الدّابّة من القضیم، والعَلِيقَةُ : مرکوب يبعثها الإنسان مع غيره فيغلق أمره . قال الشاعر : أرسلها علیقة وقد علم ... أنّ العلیقات يلاقین الرّقم «2» والعَلُوقُ : النّاقة التي ترأم ولدها فتعلق به، وقیل للمنيّة : عَلُوقٌ ، والعَلْقَى: شجر يتعلّق به، وعَلِقَتِ المرأة : حبلت، ورجل مِعْلَاقٌ: يتعلق بخصمه . ( ع ل ق ) العلق کے معنی کسی چیز میں پھنس جانیکے ہیں کہا جاتا ہے علق الصید فی الحبالتہ شکار جال میں پھنس گیا اور جب کسی کے جال میں شکار پھنس جائے تو کہا جاتا ہے اعلق الصائد ۔ المعلق والمعلاق ہر وہ چیز جس کے ساتھ کسی چیز کا لٹکا یا جائے اسی طرح علاقتہ السوط وعلق القریتہ اس رسی یا تسمیہ کو کہتے ہیں جس سے کوڑے کا یا مشک کا منہ باندھ کر اسے لٹکا دیا جاتا ہے ۔ علق الکبرۃ وہ لکڑی وغیرہ جس پر کنوئیں کی چرخی لگی رہتی ہے ۔ اسی سے العلقتہ ہر اس چیز کہا کہا جاتا ہے جسے سہارا کے لئے پکڑا جاتا ہے ۔ علق دم فلان بزید فلاں کا خون زید کے ساتھ چمٹ گیا یعنی زید اس کا قاتل ہے ۔ العلق ( جونک ) ایک قسم کا کیڑا جو حلق کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ نیز جما ہوا خون اسی سے لوتھڑے کی قسم کے خون کو علقہ کہا جاتا جس سے بچہ بنتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق/جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا ؛ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله کے آخر میں فرمایا : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةًپھر لو تھڑے کی بوٹی بنائی ۔ العلق اس عمدہ چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ مالک کا دل چمٹا ہوا ہو اور اس کی محبت دل سے اترتی نہ ہو العلیق ۔ جو وغیرہ جو سفر میں جو نور کے کھانے کے لئے اس پر باندھ دیتے ہیں اور العلیقتہ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ بھیجا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( رجز ) ( ارسلھا علیقتہ وقد علم ان العلیقات یلاقیں الرقم اس نے غلہ لینے کے لئے لوگوں کے ساتھ اپنا اونٹ بھیجد یا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ دوسروں کے ساتھ بھیجے ہوئے اونٹ تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں ۔ العلوق وہ اونٹنی جو اپنے بچے پر مہربان ہو اور اس سے لپٹی رہے اور موت کو بھی علوق کہا جاتا ہے العلقی درخت جس میں انسان الجھ جائے تو اس سے نکلنا مشکل علقت المرءۃ عورت حاملہ ہوگئی ۔ رجل معلاق جھگڑالو آدمی جو اپنے مخالف کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس سے چمٹار ہے ۔ مضغ المُضْغَةُ : القطعة من اللّحم قدر ما يُمْضَغُ ولم ينضج . قال الشاعر : يلجلج مضغة فيها أنيض أي : غير منضج، وجعل اسما للحالة التي ينتهي إليها الجنین بعد العلقة . قال تعالی: فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً [ المؤمنون/ 14] ، وقال : مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ [ الحج/ 5] . والمضاغة : ما يبقی عن المَضْغ في الفم، والمَاضِغان : الشّدقان لمضغهما الطّعام، والمَضَائِغ : العقبات اللّواتي علی طرفي هيئة القوس الواحدة مَضِيغَة . ( م ض غ ) المضغۃ گوشت کا چھوٹا سا ٹکڑا جو چبانے کے لئے منہ میں ڈالا جاسکے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 410 ) یلجع مضغۃ فیھا انیض یوہ گویا نیم پختہ گوشت کی بوٹی کو منہ میں پھیرا تا ہے ۔ پھر جنین کی اس حالت کو جو علقہ کے بعد ہوتی ہے ۔ مضغۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً [ المؤمنون/ 14] اور لوتھڑے کی بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ۔ اور فرمایا : ۔ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ [ الحج/ 5] بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی ۔ المضاغۃ چبانے اسے جو آخر کار منہ میں باقی رہ جائے ۔ الما ضغان دونوں جبڑے کیونکہ ان سے کھانا چبایا جاتا ہے المضائغ واحد مضیغۃ ) وہ تانت جو کمان کے دونوں سروں پر کسی ہوتی ہے ۔ عظم العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها، ( ع ظ م ) العظم کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔ كسا الكِسَاءُ والْكِسْوَةُ : اللّباس . قال تعالی: أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة/ 89] ، وقد كَسَوْتُهُ واكْتَسَى. قال : وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء/ 5] ، فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، واكْتَسَتِ الأرض بالنّبات، وقول الشاعر : 385- فبات له دون الصّبا وهي قرّة ... لحاف ومصقول الکساء رقیق «5» فقد قيل : هو كناية عن اللّبن إذا علته الدّواية «6» ، وقول الآخر : 386- حتی أرى فارس الصّموت علی ... أَكْسَاءِ خيل كأنها الإبل«1» قيل : معناه : علی أعقابها، وأصله أن تعدی الإبل فتثیر الغبار، ويعلوها فيكسوها، فكأنه تولّى إِكْسَاءَ الإبل، أي : ملابسها من الغبار . ( ک س و ) الکساء والکسوۃ کے معنی لباس کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة/ 89] یا ان کو کپڑا دینا کسوتہ ۔ میں نے اسے لباس پہنایا ۔ اکتسیٰ ( افتعال ) اس نے پہن لیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء/ 5] ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو ۔ فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] پھر ہڈیوں پر فوشت پوست چڑھا تا ۔ اکتست الارض بالنیات زمین نے نباتات کا لباس پہن لیا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 376 ) فبات لہ دون الصباوھی قرۃ لخاف ومصقول الکساء رقیق بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہاں مصقول الکسائ سے مراد دودھ ہے جس پر لائی کی تہ آچکی ہو ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 373 ) حتیٰ ارٰی فارس الص موت علٰی اکساء خیل کا فھا الا بل یہ ان تک کہ ہیں صموت کے شہسور کو دیکھوں کہ وہ اونٹ جیسے قد آور گھوڑوں کا تعاقب کر رہا ہے بعض نے کہا ہے کہ اکساء بمعنی اعقاب کے ہے لیکن اصل میں اونٹ کے تیز دوڑ انے سے جو فبار اٹھتا ہے اور وہ بلند ہو کر انہیں چھپا لیتا ہے ۔ اسے اکسائ کہا جاتا ہے ۔ یہاں علی اکساء ابل سے مراد یہ ہے کہ وہ اس کے لباس کے غبار میں متصل آرہا ہے ۔ لحم اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة/ 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو : لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ: اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم : قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات/ 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ. ( ل ح م ) اللحم ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة/ 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات/ 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی [ الواقعة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأُ «1» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں پنشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ تبارک وقوله تعالی: تَبارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً [ الفرقان/ 61] فتنبيه علی ما يفيضه علینا من نعمه بواسطة هذه البروج والنيّرات المذکورة في هذه الآية، وكلّ موضع ذکر فيه لفظ «تبارک» فهو تنبيه علی اختصاصه تعالیٰ بالخیرات المذکورة مع ذکر «تبارک» . وقوله تعالی: فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] ، تَبارَكَ الَّذِي إِنْ شاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْراً مِنْ ذلِكَ جَنَّاتٍ [ الفرقان/ 10] ، فَتَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمِينَ [ غافر/ 64] ، تَبارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ [ الملک/ 1] . كلّ ذلک تنبيه علی اختصاصه تعالیٰ بالخیرات المذکورة مع ذکر «تبارک» . اور آیت کریمہ : تَبارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً [ الفرقان/ 61] برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے ۔ میں ان نعمتوں پر تنبیہ کی ہے جو ان برجوں اور نیرات کے ذریعہ ہم پر نازل ہوتی ہیں اور آیات کریمہ : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا ہے بڑا با برکت ہے تبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] وہ خدائے عزوجل ) بہت ہی با برکت ہے ۔ تَبارَكَ الَّذِي إِنْ شاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْراً مِنْ ذلِكَ جَنَّاتٍ [ الفرقان/ 10] وہ خدا بہت بابرکت ہے جو اگر چاہے تو تمہارے لئے اس سے بہتر ( چیزیں ) بناد ی ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمِينَ [ غافر/ 64] پس خدائے پر دیگار عالم بہت ہی بابرکت ہے ۔ تَبارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ [ الملک/ 1] وہ خدا ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے بڑی برکت والا ہے میں تنبیہ کی ہے کہ وہ تمام خیرات جن کو لفظ تبارک کے تحت ذکر کیا ہے ذات باری تعالیٰ ہی کے ساتھ مختص ہیں ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔
Top