Aasan Quran - An-Nahl : 6
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمْ : اپنا رب اِنَّ : بیشک زَلْزَلَةَ : زلزلہ السَّاعَةِ : قیامت شَيْءٌ : چیز عَظِيْمٌ : بڑی بھاری
لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ ایک حادثہ عظیم ہوگا
آیت نمبر 1 تا 10 ترجمہ : سب سے زیادہ مہربان بہت رحم والے اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے مکہ وغیرہ کے لوگو اپنے رب یعنی اس کے عذاب سے ڈرو بایں طور کہ اس کی اطاعت کرو، بیشک قیامت کا زلزلہ یعنی زمین کی شدید حرکت جو کہ مغرب کی جانب سے طلوع شمس کے بعد ہوگی، اور وہ قرب قیامت ہوگا، لوگوں کو بےقرار کرنے (خوف زدہ کرنے) میں بڑی بھاری چیز ہوگی، وہ عذاب کی ایک قسم ہوگی، جس روز تم اس کو دیکھو گے اس (زلزلہ) کی وجہ سے بالفعل ہر دودھ پلانے والی عورت دودھ پیتے بچہ کو فراموش کر دے گی، یعنی بھول جائے گی، اور ہر حمل والی یعنی حاملہ اپنے حمل کو ساقط کر دے گی اور (اے مخاطب) تو لوگوں کو شدت خوف کی وجہ سے نشہ کی سی حالت میں دیکھے گا حالانکہ وہ شراب کی وجہ سے نشہ میں نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا جس کی وجہ سے لوگ خوف زدہ ہوں گے، اور نضر بن حارث اور ایک جماعت کے بارے میں آئندہ آیت نازل ہوئی، اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کے بارے میں بےعلمی کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں (اور) کہتے ہیں فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور قرآن پچھلے لوگوں کے گھڑے ہوئے قصے ہیں، اور وہ بعث کے منکر ہیں، اور مٹی ہونے کے بعد زندہ ہونے کے منکر ہیں، اور اس جھگڑے میں ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہو لیتے ہیں اور شیطان کی بابت یہ بات لکھی جا چکی ہے یعنی اس کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ جو کوئی اس کی رفاقت کرے گا یعنی اس کی اتباع کرے گا تو وہ اس کو گمراہ کر دے گا، اور اس کو عذاب نار کی طرف لے جائے گا، اے مکہ کے لوگو اگر تم دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں شک میں ہو (تو ذرا غور کرو) ہم نے تم کو یعنی تمہاری اصل آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر آدم کی ذریت نطفہ منی اور پھر علقہ سے اور وہ خون بستہ ہے اور پھر لوتھڑے سے اور وہ چپائے جانے کی مقدار گوشت کا ٹکڑا ہے (بوٹی) کہ خلقت کے اعتبار سے پوری بھی ہوتی ہے اور ادھوری بھی ہوتی ہے تاکہ ہم تم پر اپنی کمال قدرت کو ظاہر کردیں تاکہ تم ابتداء تخلیق پر قدرت سے اعادہ تخلیق پر استدلال کرو ونقر جملہ مستانفہ ہے، اور ہم رحم مادر میں جس کو چاہتے ہیں ایک معین مدت یعنی پیدائش کے وقت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر ہم تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے بچہ بنا کر باہر لاتے ہیں اور طفلاً اطفالاً کے معنی میں ہے پھر تم کو عمر دیتے ہیں تاکہ تم بھرپور جوانی کو یعنی کمال اور قوت کو پہنچ جاؤ اور وہ تیس سے چالیس سال کے درمیان ہے اور بعض تم میں کے وہ بھی ہیں جو بالغ ہونے سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں اور بعض تم میں سے وہ ہیں جو نکمی عمر کو پہنچا دئے جاتے ہیں یعنی بڑھاپے کی وجہ سے عمر کے گھٹیا مرحلہ اور فساد عقل کی منزل کو پہنچ جاتے ہیں (جس کا اثر یہ ہوتا ہے) کہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد بیخبر ہوجاتے ہیں (حضرت) عکرمہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص قرآن خوانی کا شغف رکھتا ہے وہ اس حالت کو نہیں پہنچتا، اور اے مخاطب تو دیکھتا ہے زمین کو کہ خشک ہے اور جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ہلتی ہے یعنی حرکت کرتی ہے اور ابھرتی ہے مرتفع اور زیادہ ہوتی ہے اور ہر قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے یہ جو مذکور ہوا ابتداء آفرینش انسان سے احیاء ارض تک اس سبب سے ہے کہ اللہ ہی ثابت اور دائم ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور ہر شئ پر قادر ہے اور قیامت یقیناً آنے والی ہے اس میں ذرہ برابر شک نہیں اور اللہ تعالیٰ قبر والوں کو دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ آیت ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کے بارے میں بدون واقفیت اور بدون دلیل کے کہ جو اس کے پاس ہو اور بغیر کسی روشن کتاب کے جو اس کے لئے ہو اور اس کتاب کے ساتھ نور (وحی) ہو پہلو تہی کرتے ہوئے (یہ یجادل کی ضمیر سے) حال ہے، یعنی ایمان سے متکبرانہ طور پر گردن موڑتے ہوئے اور عطف دائیں یا بائیں جانب کو کہتے ہیں، لیضل یا کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ تاکہ اللہ کے راستہ یعنی اس کے دین سے بہکا دے ایسے شخص کے لئے دنیا میں رسوائی عذاب ہے چناچہ یوم بدر میں قتل کیا گیا اور قیامت کے دن بھی ہم اسے جلنے یعنی آگ میں جلانے کا عذاب چکھائیں گے، اور یہ تیرے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کا بدلہ ہے یعنی ان اعمال کا جو تو نے کئے شخص (ذات) کو ید سے تعبیر کیا ہے نہ کہ دیگر اعضاء سے اس لئے کہ اکثر اعمال کا صدور ہاتھوں ہی سے ہوتا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے کہ ان کو بغیر کسی جرم کے سزا دے۔ تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : زلزلۃ الساعۃ قیامت کے دن کا زلزلہ اس میں اضافت الی الظرف کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ یا سارق اللیل میں، اور یہ اتساعاً ہے۔ قولہ : التی یکون بعدھا طلوع الشمس مفسر علام کا مقصد اس عبارت کے اضافہ سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ زلزلہ دنیا ہی میں ہوگا اور مغرب کی جانب سے سورج کا طلوع ہونے سے بعد ہوگا، اور اسی قول کی تائید اللہ تعالیٰ کے قول ” تذھل کل مرضعۃ عما ارضعت “ سے بھی ہوتی ہے۔ قولہ : بالفعل کا مطلب ہے دودھ پلانے کی حالت جب کہ ماں بچہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتی ہے ایسی حالت میں اس شدید زلزلہ کو دیکھ کر اپنے بچہ سے غافل ہوجائے گی، عما ارضعت میں ما مصدریہ بھی ہوسکتا ہے ای عن ارضاعھا اور موصولہ بھی ہوسکتا ہے ای عن الذی ارضعتہ۔ قولہ : یوم ترونھا یوم کے نصب میں چند وجوہ ہیں (1) تذھل کی وجہ سے منصوب ہے (2) اذکر فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے (3) الساعۃ سے بدل ہے (4) عظیم کی وجہ سے منصوب ہے، قولہ : تذھل ترونھا کی ضمیر سے حال ہے اور رویت بصری مراد ہے، قولہ : ولکن عذاب اللہ شدید یہ محذوف سے استدراک ہے فھٰذہٖ الاحوال المذکورہ لیست بشدیدۃ ولکن عذاب اللہ شدید، لکن کا ما بعد ما قبل کے مخالف ہوا کرتا ہے۔ قولہ : وجماعۃ جماعت سے مراد ابوجہل اور ابی بن خلف وغیرہ ہیں۔ قولہ : کمال قدرتنا اس عبارت کو مقدر ماننے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ لنبین لکم کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : طفلاً یہ نکرجکم کی کم ضمیر سے حال ہے اور طفلا چوں کہ مصدر ہے جس کی وجہ سے معنی میں جمع کے ہے جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کردیا ہے۔ قولہ : ارذل العمر گھٹیا اور ناکارہ عمر، خرف دونوں کے فتحہ کے ساتھ، کبر سنی کی وجہ سے فساد عقل، جس کو اردو میں سٹھیانا کہتے ہیں۔ قولہ : لکیلا یعلم اس کا تعلق یرد سے ہے، قولہ : ھامدۃ یہ ھمدت النار سے مشتق ہے، اس کے معنی ہیں بجھ جانا۔ قولہ : ذٰلک بان اللہ اس میں تین وجہ اعراب ہوسکتی ہیں (1) ذٰلک مبتدا اور مابعد اس کی خبر اور مشار الیہ ما قبل میں تخلیق بنی آدم وغیرہ ہے، (2) ذٰلک مبتدا محذوف کی خبر ہے، ای الامر ذٰلک (3) ذٰلک فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے، ای فعلنا ذٰلک بسبب ان اللہ ھو الحق، قولہ : یجادل فی اللہ الخ یعنی یہ شخص اللہ کی ذات وصفات میں مجادلہ کرتا ہے حالانکہ نہ اس کے پاس علم ہے اور نہ دلیل اور نہ اس کے پاس کوئی روشن کتاب ہے، وأن الساعۃ آتیۃ، وأنہ یحییٰ الموتٰی کی تاکید ہے، ونزل فی ابی جھل اس کا ناعم عمر بن ہشام ہے اور ابو جہل کنیت ہے، اس کی ایک کنیت ابو الحکم بھی ہے، ومن یجادل فی اللہ کا عطف پہلے من یجادل فی اللہ بغیر علم پر ہے۔ قولہ : نورٌ معہٗ کا تعلق کتاب سے ہے ای ولا وحی کائن معہ، قولہ : حال ثانی عطفہ یجادل کی ضمیر سے ھال ہے اور لیضل کا تعلق یجادل سے ہے، قولہ : عذاب الحریق یہ اضافت موصوف الی الصفت کے قبیل سے ہے ای العذاب المحرق، قولہ : ای بذی ظلم یہ اشارہ ہے کہ ظلام جو کہ مبالغہ کا صیغہ ہے ذی ظلم (اس فاعل) کے معنی میں ہے۔ تفسیر و تشریح سابقہ سورة سے ربط : سورة انبیاء کے اختتام پر بعث بعد الموت کا ذکر تھا، اس سورة کو حق سبحانہ تعالیٰ نے قیامت اور اس کی ہولناکی کے بیان سے شروع فرمایا ہے، تاکہ انسان تقویٰ اختیار کرے جو کہ راہئ آخرت کے لئے بہترین زادراہ ہے، فرمایا یا ایھا الناس اتقوا ربکم۔ سورة حج کی خصوصیات : اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے دونوں قسم کی روایتیں منقول ہیں، جمہور مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ سورة آیات مکیہ اور مدنیہ سے مخلوط ہے، قرطبی نے اسی کو راحج قرار دیا ہے۔ اس سورة کے عجائب میں سے یہ بات ہے کہ اس کی آیات کا نزول بعض کا رات میں بعض کا دن میں، بعض کا سفر میں اور بعض کا حضر میں اور بعض کا مکہ میں اور بعض کا مدینہ میں اور بعض کا حالت جنگ و جہاد میں اور بعض کا صلح و امن کی حالت میں ہوا ہے اور اس میں بعض آیات ناسخ ہیں اور اور بعض منسوخ اور بعض محکم ہیں اور بعض متشابہ۔ زلزلہ قیامت کب ہوگا ؟ قیامت قائم ہونے اور لوگوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد یا اس سے پہلے، بعض نے کہا ہے کہ یہ قیامت سے پہلے اسی دنیا میں ہوگا اور قیامت کی آخری علامت میں شمار ہوگا جس کا ذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ زلزلہ حشر و نشر برپا ہونے کے بعد ہوگا، حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، اس زلزلہ قیامت کی جو کیفیت آگے آیت میں ذکر کی گئی ہے کہ تمام حمل والی عورتوں کے حمل ساقط ہوجائیں گے اور دودھ پلاتی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی، اگر یہ زلزلہ اسی دنیا میں وقوع قیامت سے پہلے ہے تو ایسا واقعہ پیش آنے میں کوئی اشکال نہیں اور حشر و نشر کے بعد ہے تو اس کی توجیہ یہ ہوگی کہ جو عورتیں جس حالت میں مری ہوں گی، ان کا حشر اسی حالت میں ہوگا اور جن کا انتقال دودھ پلانے کی حالت میں ہوا ہوگا، وہ اسی بچہ کے ساتھ اٹھائی جائیں گی، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت میں مجاز مراد ہے حقیقت سے اس کا تعلق نہیں ہے یعنی جس طرح ” یوم یجعل الولدان شیباً “ میں دن کی درازی مراد ہے اسی طرح یہاں روز قیامت کی ہولناکی مراد ہے، اگر حقیقی معنی مراد لئے جائیں تب بھی کوئی استحالہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہر شئ پر قادر ہے۔ ومن الناس من یجادل فی اللہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بڑا جھگڑا لو تھا، فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں اور قرآن کو گزشتہ لوگوں کے افسانے کہا کرتا تھا اور بعث بعد الموت کا منکر تھا۔ انا خلقنکم من تراب ثم من نطفۃ اس آیت میں بطن مادر میں انسان کی تخلیق کے مختلق درجات کا ذکر ہے، اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے جو حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان کا مادہ رحم مادر میں چالیس روز تک جمع رہتا ہے پھر چالیس روز کے بعد علقہ یعنی منجمد خون بن جاتا ہے پھر چالیس ہی دن میں وہ مضغہ یعنی گوشت بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونک دیتا ہے اور اس کے متعلق چار باتیں اسی وقت فرشتہ کو لکھوا دی جاتی ہیں (1) یہ کہ اس کی عمر کتنی ہے (2) یہ کہ رزق کتنا ہے (3) عمل کیا کرے گا (4) یہ کہ بدبخت ہوگا یا خوش بخت (قرطبی) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب نطفہ مختلف ادوار سے گزرنے کے بعد مضغہ بن جاتا ہے تو جو فرشتہ ہر انسان کی تخلیق پر مامور ہے اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے یا رب مخلقۃ او غیر مخلقۃ یعنی اس نطفہ سے آپ کا انسان کو پیدا کرنا مقدر ہے یا نہیں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب ملتا ہے کہ یہ غیر مخلقہ ہے تو رحم اس کو ساقط کردیتا ہے اور اگر حکم ہوتا ہے کہ یہ مخلقہ ہے تو پھر فرشتہ سوال کرتا ہے لڑکا ہے یا لڑکی ؟ اور شقی یا سعید ؟ اور اس کی عمر کیا ہے ؟ اور اس کا عمل کیسا ہے ؟ اور کہاں مرے گا ؟ یہ سب باتیں اسی وقت فرشتہ کو بتلا دی جاتی ہیں (ابن کثیر) ومنکم من یرد الی ارذل العمر یعنی وہ عمر کہ جس میں انسان کے عقل و شعور اور حواس میں خلل آنے لگے، نبی کریم ﷺ نے ایسی عمر سے پناہ مانگی ہے نسائی شریف میں بروایت سعد ؓ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ حسب ذیل الفاظ پر مشتمل یہ دعا بکثرت تھے اور راوی حدیث حضرت سعدیہ دعا اپنی سب اولاد کو یاد کرا دیتے تھے، وہ دعا یہ ہے : اللھم انی اعوذبک من البخل واعوذبک من الجبن واعوذبک من ان ارد الی ارذل العمر واعوذبک من فتنۃ الدنیا و عذاب القبر۔ (قرطبی)
Top