Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 7
وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِیْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ١ؕ اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ
وَتَحْمِلُ : اور وہ اٹھاتے ہیں اَثْقَالَكُمْ : تمہارے بوجھ اِلٰى : طرف بَلَدٍ : شہر (جمع) لَّمْ تَكُوْنُوْا : نہ تھے تم بٰلِغِيْهِ : ان تک پہنچنے والے اِلَّا : بغیر بِشِقِّ : ہلکان کر کے الْاَنْفُسِ : جانیں اِنَّ : بیشک رَبَّكُمْ : تمہارا رب لَرَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور وہ تمہارے بوجھ ایسی جگہوں تک پہنچاتے ہیں جہاں تم شدید مشقت کے بغیر پہنچنے والے نہیں بن سکتے تھے، بیشک تمہارا رب بڑا ہی شفیق و مہربان ہے
وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ ۭاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۔ یہ اشارہ اونٹوں کی طرف ہے جن پر عرب میں باربرداری اور سفر کا تمام تر انحصار تھا۔ یہ جانور طویل سے طویل اور پر مشقت سے پر مشقت صفر کے لیے، خاص طور پر صحرائی اور گرم ملکوں میں، خدائی سفینہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وصف میں کوئی دوسرا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۔ یہ وہ اصل سبق ہے جو ان نعمتوں سے متمتع ہونے والے انسان کو حاصل ہونا چہایے کہ وہ یہ مانے کہ ان کا بخشنے ولا نہایت ہی مہربان اور نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور پھر اس سے جو بات لازم آتی ہے اس کو اختیار کرے یعنی اس منعم کا حق پہچانے، اس کا شکر گزار بندہ بنے، اس کی بندگی و اطاعت میں سرگرم رہے، اس کے حقوق میں دوسروں کو شریک نہ بنائے اور اس کے مقابل میں حریف بن کر نہ اٹھ کھڑا ہو۔ لیکن انسان کی یہ عجیب شامت ہے کہ وہ خدا کی نعمتیں پا کر اس کا شکر گزار بندہ بننے کی بجائے خود اپنی شان میں مبتلا ہوجاتا ہے اور خدا کا حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ مزید ستم یہ کہ اگر شکر گزار بھی ہوتا ہے تو خدا کا نہیں بلکہ خدا کے سوا دوسروں کا ہوتا ہے
Top