ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، بڑی خرابی ہے (ویل) کلمہ عذاب ہے یا جہنم میں ایک وادی کا نام ہے، ہر ایسے شخص کے لئے جو عیب ٹٹولنے والا، طعنہ زنی کرنے والا ہو، یعنی بکثرت بدگوئی کرنے والا اور طعنہ زن ہو، یہ سورت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی، جو آنحضرت ﷺ اور مومنین کی غیبت کرتا تھا، جیسا کہ امیہ بن خلف اور ولید بن مغیرہ وغریہ ہما جس نے مال جمع کر کے رکھا ہے جمع تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے اور اس کو گن گن کر رکھا اور اس کو حودث زمانہ کے لئے تیار کر کے رکھا (اور) وہ اپنی جہالت کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کو دوام بخشے گا کہ کبھی نہ میر گا، ہرگز نہیں (کلا) حرف تنبیہ ہے، یہ شخص یقینا آگ میں پھینک دیا جائے گا جو ہر اس چیز کو توڑ پھوڑ دے گی جو اس میں ڈالی جائے گی تم کو کیا معلوم کہ وہ توڑ پھوڑ کرنے والی کیا ہے وہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے یعنی بھڑکائی ہوئی، جو دلوں تک سرایت کر جائے گی تو ان کو جلا کر رکھ دے گی اور دلوں کی تکلیف دیگر اعضاء کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے ان کے لطیف ہوین کی وجہ سے وہ آگ ان پر ڈھانک کر بند کردی جائے گی کل کے معنی کی رعایت کی وجہ سے (علیھم) کی ضمیر کو جمع لایا گیا ہے، (مئوصدۃ) ہمزہ کے ساتھ ہے اور ہمزہ کے عوض وائو کے ساتھ بھی رہے بمعنی بند ہونے والی، بڑے بڑے لمبے ستونوں میں (عمد) میں دونوں حرفوں کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ، (ممددۃ) اپنے ماقبل کی صفت ہے، لہٰذا آگ ستونوں کے اندر ہوگی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھمزۃ بروزن فعلۃ بہت طعنہ زن، بڑا عیب گو، فعلۃ فاعل کے مبالغہ کا وزن ہے، اس میں ۃ مبالغہ کے لئے ہے، ہمز (ن ض) کا مصدر ہے، طعنی زنی کرنا، آنکھ سے اشارہ کرنا۔
قولہ : لمزۃ صیغہ صفت برائے مبالغہ پس پشت برائی کرنے والا، بعض حضرات نے کہا ہے دونوں کے تقریباً ایک ہی معنی ہیں۔
قولہ : یحسب الخ یہ جملہ استینافیہ بھی ہوسکتا ہے، اس صورت میں سوال مقدر کا جواب ہوگا، ای ما یا لہ یجمع المالیھتم بہ یعنی وہ اس اہتمام کے ساتھ مال کیوں جمع کرتا ہے ؟ اس کا جواب دیا : یحسب ان مالہ اخلدہ کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے دوام بخشے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یحسب، جمع واخلد کے فاعل سے حال واقع ہو۔
قولہ : جواب قسم محذوف تقدیر عابرت یہ ہے، واللہ لینبذن فی الحطمۃ
قولہ : جمع الضمیر رعایۃ لمعنی کل، یعنی علیھم کی ضمیر کل کی طرف راجع ہے، سوال ہوتا ہے کہ کل مفرد ہے رھم جمع ہے، لہٰذا ضمیر اور مرجع میں مطابقت نہیں ہے ؟
جواب : جواب یہ ہے کہ لفظ کل معنی کے اعتبار سے جمع ہے، اسی رعایت سے ھم ضمیر کو جمع لایا گیا ہے، عمد اور عمد یہ دونوں عمود کی جمع ہیں بمعنی ستون۔
تفسیر و تشریح
اس سورت میں تین سخت گناہوں پر عذاب شدید کی وعید کا بیان ہے اور پھر اس عذاب کی شدت کا بیان ہے، وہ تین گناہ، ہمز، لمز، جمع مال ہیں، ھمز اور لمز چند معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں، جو بہت حد تک قریب قریب ہیں حتی کہ بعض اوقات دونوں ہم معنی استعمال ہوتے ہیں اور بعض لوگوں نے خفیف فرق کے ساتھ بھی استعمال کیا ہے، مگر جو معنی قدر منترک ہیں وہ یہ ہیں، کسی کی تذلیل و تحقیر کرنا کسی کی کردار کشی کرنا، کسی کی طرف انگلیاں اٹھانا، اشارہ کنایہ سے کسی کے نسب وغیرہ پر طعن کرنا، کسی کی شخصیت کو مجروح کرنا، کسی کے منہ در منہ چوٹیں کرنا یا پس پشت بدگوئی کرنا، یہ سب ہی معنی مذکورہ دونوں لفظوں کے مفہوم میں شامل ہیں، اور ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں نہایت مذمم اور شریعت کی نظر میں ممنوع ہیں۔
تیسری خصلت جس پر اس سورت میں وعید آئی ہے وہ مال کی حرص اور محبت ہے اور بار بار گننے سے اس کی حرص اور محبت کی طرف اشارہ ہے، مگر یہ بات ذہن نشین رہے کہ بہت سی آیات و روایات اس پر شاہد ہیں کہ مطلقاً مال کا جمع کرنا کوئی حرام اور گناہ نہیں، اس لئے یہاں مال جمع کرنے سے وہ مال مراد ہے، جس میں حقوق واجبہ ادا نہ کئے گئے ہوں یا فخر و فاخر مقصود ہو یا مال کی محبت میں منہمک ہو کر دین کی ضروریات سے غفلت پائی جاتی ہو۔