Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 25
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ : اور خوشخبری دو جو لوگ آمَنُوْا : ایمان لائے وَ عَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ : اور انہوں نے عمل کئے نیک اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لئے جَنَّاتٍ : باغات تَجْرِیْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهَارُ : نہریں كُلَّمَا : جب بھی رُزِقُوْا : کھانے کو دیا جائے گا مِنْهَا : اس سے مِنْ ۔ ثَمَرَةٍ : سے۔ کوئی پھل رِزْقًا : رزق قَالُوْا : وہ کہیں گے هٰذَا الَّذِیْ : یہ وہ جو کہ رُزِقْنَا : ہمیں کھانے کو دیا گیا مِنْ : سے قَبْلُ : پہلے وَأُتُوْا : حالانکہ انہیں دیا گیا ہے بِهٖ : اس سے مُتَشَابِهًا : ملتا جلتا وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِیْهَا : اس میں اَزْوَاجٌ : بیویاں مُطَهَّرَةٌ : پاکیزہ وَهُمْ : اور وہ فِیْهَا : اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو خوشخبری سنادو کہ ان کے لئے (نعمت کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جب انہیں ان میں سے کسی قسم کا میوہ کھانے کو دیا جائیگا تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے دیا گیا تھا اور ان کو ایک دوسرے کے ہمشکل میوے دیئے جائیں گے اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے
آیت نمبر 25 ترجمہ : اور (اے نبی) خوشخبری دے دیجئے ان لوگوں کو جو ایمان لائے (یعنی) اللہ کی (توحید) کی تصدیق کی، اور نیک اعمال کئے کہ وہ فرائض اور نوافل ہیں، ان کے لئے درختوں والے اور محلوں والے باغات ہیں کہ ان باغوں اور محلوں کے نیچے نہریں جاری ہیں یعنی ان نہروں میں پانی جاری ہے اور نہر وہ جگہ ہے کہ جس میں پانی جاری ہوتا ہے (نہر کو نہر اس لئے کہتے ہیں) کہ پانی اس نہر کو کھود دیتا ہے اور جریان کی اسناد نہر کی جانب اسناد مجازی ہے جب ان باغوں میں سے کوئی پھل ان کو کھانے کے لئے بطور غذا دیا جائے گا تو کہیں گے کہ یہ تو اسی جیسا ہے جو ہم کو اس سے پہلے کھانے کے لیے دیا گیا، یعنی جو اس سے پہلے جنت میں دیا گیا (یہ اس وجہ سے ہوگا) کہ جنت کے پھل ہم شکل ہوں گے (اس قول کا) قرینہ وَاُتُوْا بِہ مُتَشَابِھًا ہے اور ملیں گے بھی ان کو ہم شکل بھی، کہ رنگ کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مشابہ ہوں گے مگر ذائقہ میں مختلف ہوں گے اور ان کے لئے جنت میں بیویاں ہوں گی یعنی حور وغیرہ، پاک ہوں گی حیض اور ہر گندگی سے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یعنی دائمی قیام ہوگا نہ اس میں فنا ہوں گے اور نہ (اس سے) نکلیں گے، آیت : '' اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَسْتَحْی اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا '' یہود کے اعتراض '' مَاذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِذکرِ ھذہ الاشیائِ الخسیسةِ '' یعنی ان حقیر چیزوں کے ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصد ہے ؟ کو رد کرنے کے لئے نازل ہوئی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول : وَاِنْ یَّسْلُبْھُمْ الذُّبَابُ شَیْئًا '' میں مکھی کی اور اپنے قول '' کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ '' میں مکڑی کی مثال بیان فرمائی، یقینا اللہ تعالیٰ کسی مثال کے بیان کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو یا اس سے اعلیٰ کی : (مَثَلاً ) ضَرَبَ یعنی جَعَلَ کا مفعول اول ہے، مَا نکرہ موصوفہ اپنے مابعد صفت سے مل کر، ضَرَبَ کا مفعول ثانی (یعنی) مَثْلاً مَّا، معنی میں اَیُّ مِثْالٍ کَانَ کے ہے یا ما زائدہ ہت، حقارت کی تاکید کے لئے اور اس کا مابعد مفعول ثانی ہے، بَعُوضَة، بعوض کا مفرد ہے (یعنی) چھوٹا مچھر، یعنی اس کے بیان کو ترک نہیں کرتا، اس لئے کہ اس کے بیان کرنے میں حکمتیں ہیں اہل ایمان تو اس مثال کو اپنے رب کی طرف سے صحیح سمجھتے ہیں، (یعنی) برمحل بیان ہوئی ہے اور کفار کہتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ کو ایسی (حقیر) مثالوں سے کیا سروکار ؟ مَثَلاً تمیز ہے (بھٰذا مَثَلاً ) ای بِھَذَا المثل (کے معنی میں ہے) اور ما استفہام انکاری مبتداء اور ذا بمعنی الذی اپنے صلہ سے مل کر مبتداء کی خبر، یعنی اس مثال میں کیا فائدہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان (معترضین) کے جواب میں فرمایا کہ وہ اس مثال سے بہت سوں کو حق سے ان کے اس مثال کا انکار کرنے کی وجہ سے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے مومنین کی ان کے اس مثال کی تصدیق کرنے کی وجہ سے رہنمائی کرتا ہے اور اس سے ان فاسقوں کو بھی گمراہ کرتا ہے جو اللہ کے عہد کو پختہ کرنے کے باوجود توڑ دیتے ہیں، یعنی اس کی اطاعت سے خروج کرنے والوں کو (گمراہ کرتا ہے) یعنی اس عہد کو جس کو اللہ نے ان سے کتابوں میں محمد ﷺ پر ایمان لانے کے بارے میں لیا تھا، (الَّذِیْنَ ) فَاسِقِیْنَ کی صفت ہے اور اللہ نے جس کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو توڑتے ہیں اور وہ نبی ﷺ پر ایمان لانا اور صلی رحمی وغیرہ کرنا ہے اور أَنْ یُّوْصَلَ ، بہ کی ضمیر سے بدل ہے اور معاصی کے ذریعہ اور (لوگوں کو) ایمان سے روکنے کے ذریعہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں حقیقت میں یہی لوگ ہیں جو مذکورہ صفات سے متصف ہیں نقصان اٹھانے والے ہیں، دائمی عذاب (میں) ان کا ٹھکانہ ہونے کی وجہ سے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا : اس کا عطف، عطف قصہ علی القصہ کے طور پر فان لَمْ تَفْعَلُوْا کے مضمون پر ہے۔ قولہ : بَشِّرْ ، امر واحد مذکر حاضر بمعنی تو خوش کن خبر سنا، بَشِّر، اَلبشارة سے مشتق ہے، بشارت اس پہلی خبر کو کہتے ہیں جو خوش کن ہو، پہلی خوش کن خبر کو بشارت اس لئے کہتے ہیں کہ : اس کا اثر (بشرہ) چہرہ پر ظاہر ہوتا ہے، (اَلْبَشَارَةُ : الْخَبر الَاوَّلُ السَّارُ الَّذِیْ یَظْھرُ بِہ اَثَرُ السُرُوُرِ فِی الْبشرَةِ ) ۔ (اعراب القرآن) قولہ : اَخْبِرْ ، بَشِّرْ کی تفسیر اخْبِرْ سے کرکے اشارہ کردیا کہ بشارت اگرچہ خوشخبری کو کہتے ہیں مگر یہاں یہ مطلق خبر کے معنی میں ہے اور بشارت کی ضد انذار ہے۔ سوال : وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ، الصّٰلحٰت، ایسا وصف ہے جو کیا نہیں جاسکتا اس لئے کہ وصف ازقبیل اعراض ہے اور عرض موجود فی الخارج نہیں ہوتا جب تک کہ کسی جوہر (موصوف) کے ساتھ متصل نہ ہو، لہٰذا : '' وَعَمِلوا الصٰلحٰتِ '' کہنا درست نہیں ہے۔ جواب : الصٰلحٰت، اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے وصف ہے مگر اس پر اسمیت غالب ہونے کی وجہ سے اسم کے قائم مقام ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : بِاَنَّ ، بِأنَّ ، پر باء کو ظاہر کرکے بتادیا کہ أنَّ اصل میں بِاَنَّ تھا، یاء کو جوازاً حذف کردیا گیا أنَّ مع اپنے مدخول کے بَشِّرْ ، کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ (ابو البھائ ( بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وَبَشِّرْ کا عطف فَاتقوا، پر ہے مگر اس صورت میں تغایر مخاطبین کا اعتراض ہوگا، صاحب روح المعانی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ تغایر مخاطبین عطف کے لئے مضر نہیں، جیسا کہ : اللہ تعالیٰ کے قول : '' یوسفُ اعرض عن ھذا واستغفری '' یہاں معطوف علیہ اور معطوف کے مخاطب الگ الگ ہیں مگر پھر بھی عطف کیا گیا ہے۔ قولہ : الَّذِیْنَ : موصول اپنے صلہ سے مل کر بَشِّرْ کا مفعول بہ ہے۔ قولہ : '' أَنَّ لَہُمْ جنّٰتٍ تَجْرِیْ '' مشابہ مفعول نہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، تجری من تحتھا الاَنْھَارُ ، جَنّٰت کی صفت اول اور کُلَّمَا رُزِقوا صفت ثانی اور لَہُمق فیہا صفت ثالث اور ہم فیہ خٰلِدُوْنَ صفت رابع ہے۔ قولہ : بِھٰذَا مَثَلاً تمیز لفظ تمیز کے اضافہ کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ مَثَلاً تمیز سے حال نہیں ہے جیسا کہ بعض حضرات نے مَثَلاً کو حال قرار دیا، حالانکہ حال قرار دینا ضعیف ہے، ضعیف کی وجہ یہ ہے کہ اسم جامد کے حال واقع ہونے میں اختلاف ہے لہٰذا مَثَلاً کا حال واقع ہونا مختلف فیہ ہے اور اسم جامد کے تمیز واقع ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے لہٰذا مَثَلاً کا تمیز قرار دینا راجح ہے۔ قولہ : بِھٰذَا مَثَلاً ، مفسر علام نے بِھٰذَا مثلاً کی تفسیر بھذا المثل سے کرکے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔ سوال : یہ ہے کہ تمیز میں اصل یہ ہے کہ نسبت سے واقع ہو اور ھذا مثلاً میں نسبت نہیں ہے لہٰذا مثلاً کا تمیز واقع ہونا درست نہیں ہے۔ جواب : ھَذا مَثَلاً ، ھٰذا المثل کے معنی میں ہے، جس کے اندر نسبت موجود ہے لہٰذا مثلاً کا تمیز واقع ہونا درست ہے۔ قولہ : مَا، استفہام انکارٍ ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : مَاذّا اَرَادَ اللّٰہُ بِھٰذا مَثَلاً ، میں مثال بیان کرنے کی حکمت معلوم کی گئی ہے اور کسی قول و فعل کی حکمت معلوم کرنا مذموم نہیں۔ حالانکہ یہاں مذموم قرار دیا گیا ہے۔ جواب : یہ استفہام معلوم کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ انکار اور نفی کے طور پر تھا، اسی وجہ سے اس کی مذمت کی گئی ہے۔ قولہ : مبتداء اس کا مقصد سیبویہ کے مذہب کو راجح قرار دینا ہے اور وہ یہ ہے کہ مَا، مبتداء ہے اور ذَا، موصول اپنے صلہ سے مل کر مبتداء کی خبر، نہ یہ کہ ذا مبتداء مؤخر اور ما، خبر مقدم، وجہ ترجیح یہ ہے کہ سیبویہ کی ترکیب قاعدہ معروفہ کے مطابق ہے اور وہ یہ کہ مبتداء مقدم اور خبر مؤخر ہوا کرتی ہے۔ قولہ : اَلخَارِ جِیْنَ عَنْ طَاعَتِہ : یہ الْفٰسِقِیْنَ کی تفسیر ہے، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ : یہاں فاسق سے فاسق کامل مراد ہے اور وہ مشرک اور کافر ہے نہ کہ مومن فاسق مطلب یہ کہ یہاں فسق کے لغوی معنی مراد ہیں نہ کہ اصطلاحی اور شرعی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول : '' اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ '' میں منافق کو فاسق کہا گیا ہے حالانکہ منافق کلیةً اسلام سے خارج ہوتا ہے۔ قولہ : توکیدہ عَلَیْھِمْ : یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : '' یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہ '' اس آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں عہد اور میثاق، اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، اس کا ترجمہ ہوگا، وہ اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں اس کے عہد کے بعد، اور اس کا کوئی مطلب نہیں ہے جواب : میثاق : بمعنی تاکید اور پختگی ہے، یعنی وہ اللہ کے عہد کو اس کے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور یہ معنی درست ہیں۔ قولہ : من الایمان بالنبی ﷺ ، یہ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہ، میں مَا، کا بیان ہے، یعنی وہ لوگ اس کو قطع کرتے ہیں جس کو متصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ ایمان بالرسول اور صلی رحمی ہے۔ قولہ : وَاَنْ یُوصَل بدل مِنْ ضمیر بِہ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ : اَنْ یُوْصَلَ بہ کی ضمیر سے بدل ہونے کی وجہ سے مجرور ہے نہ کہ مَا، سے بدل ہونے کی وجہ سے منصوب۔ اللغة والبلاغة 1۔ المجاز المرسل فی قولہ تعالیٰ : '' تجری من تحتھا الانْھَارُ '' والعلاقة المحلیة، ھذا اذا کان النھر مجری المائ . 2۔ التشبیہ البلیغ فی قولہ، '' ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ '' سمّیَ بلیغًا لانّ اداةَ التشبیہ فیہ محذوفة، فَتِساوی طرفا التشبیہ فی المرتبة . 3۔ الاستعارة المکنیة : وذالک فی قولہ تعالیٰ '' یَنْقُضُوْنَ عَھْد اللہ '' فقد شَبّہ العھد بالحبل المبرم، ثم حذف المشبہ بہ ورَمَزَ الیہ بشی من خصائصہ اولوازمِہ، وھو النقض، لأنّہ احدیٰ حالتی الحبل وھما النقص والابرام . تفسیر وتشریح ربط آیات : سابقہ آیت میں منکرین اور ان کے عذاب کا ذکر تھا، اس آیت میں ماننے والوں کے لئے خوشخبری مذکور ہے جنت اور حوران جنت وغیرہ کی بشارت ہے۔ ایمان و عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے : یہاں مومنین کی بشارت کے لئے ایمان کے ساتھ عمل صالح کی قید بھی لگائی ہے کہ ایمان بغیر عمل صالح کے انسان کو اس بشارت کا مستحق قرار نہیں دیتا، اگرچہ صرف ایمان بھی جہنم میں خلود و دوام سے بچانے کا سبب ہے اور مومن خواہ کتنا بھی گنہگار ہو کسی نہ کسی وقت جہنم سے نکالا جائے گا، اور داخل کیا جائے گا، مگر عذاب جہنم سے کلیةً اور ابتداء نجات کا مستحق بغیر عمل صالح کے نہیں ہوگا۔ قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کہ اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ایمان اور عمل صالح دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے عمل صالح ان کے بغیر ثمر آور نہیں اور ایمان کے بغیر عمل صالح کی عند اللہ کوئی اہمیت نہیں، مگر عمل صالح عند اللہ وہی معتبر ہے جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے، جو عمل خلاف سنت ہو یا نمود و نمائش کے لیے کیا ہو وہ عند اللہ مردود ہے۔ وَاُتُوْا بِہ مُتَشَابِھًا : مشابہت کا مطلب یا تو جنت کے تمام پھلوں کا آپس میں باہم ہمشکل ہونا ہے یا مشابہت سے مراد دنیا کے پھلوں سے مشابہت مراد ہے، مگر یہ مشابہت صرف شکل اور نام کی حد تک ہی ہوگی، ورنہ جنت کے پھلوں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے پھلوں اور میووں کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے، جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث شریف میں ہے : '' مَا لاَعَیْن رَأت وَلاَ اذُن سمعت ولا خَطَرَ عَلیٰ قَلبِ بَشَرٍ '' (صحیح بخاری تفسیر الم السجدة) نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے ان کی بابت سنا، اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا۔ دنیوی پھلوں سے ظاہری مشابہت کی مصلحت : دنیوی پھلوں سے ظاہری مشاکلت صرف اس لئے ہوگی کہ وہ جنتی پھلوں سے نامانوس نہ ہوں اور اجنبیت محسوس نہ کریں البتہ لذت میں وہ ان سے بدرجہا بڑھے ہوئے ہوں گے، دیکھنے میں مثلاً آم، انار، سیب، سنترے ہی ہوں گے اہل جنت دیکھ کر ہی پہچان لیں گے کہ یہ آم ہے اور یہ انار ہے اور یہ سنترا ہے، مگر مزے میں دنیا کے پھلوں سے کوئی نسبت نہ ہوگی۔ وَلَہُمْ فِیْھَآ اَزْوَاج مُّطَھَّرَة : ازواج، زَوْج کی جمع ہے، زوج کے معنی جوڑے کے ہیں اور اس لفظ کا استعمال بیوی اور شوہر دونوں کے لئے ہوتا ہے بیوی شوہر کے لئے اور شوہر بیوی کے لئے زوج ہے۔ بیوی اور شوہر روحانی اخلاقی اور جسمانی ہر قسم کی گندگیوں اوع آلائشوں اور آلودگیوں سے صاف ستھرے اور پاکیزہ ہوں گے۔ مُطَھَّرَة مِنَ القذرِ وَالاَذیٰ (ابن جریر عن ابن عباس ؓ ما) قِیلَ مُطَہَرَّة عَن مساوی الاخلاق (معالم) ۔ فالمراد طَھَارَةُ اَبْدانِھِنَّ ، وَطَھارة اَزْوَاجِھِنَّ مِن جمیع الخصائل الذمیمة (کبیر) اِنَّ التطھیر یستعملُ فی الَاجْسَام وَالأخلاق وَالْاَفْعَال (بیضاوی) ومن کل اذیً یکونُ من نِسائِ الدنیا فَطَھُرَ مع ذٰلِکَ باطِنُھَا مِنَ الْاَخْلاقِ السَّیئة وَالصِفاتِ المذمومة . (ابن قیم) (تفسیر ماجدی) ۔ نام نہادر روشن خیال اور جنت کی نعمتیں : بعض روشن خیالوں کو پاکیزہ بیویوں کے نام سے خدا معلوم کیوں اتنی شرم آئی کہ انہوں نے اس معنی ہی سے انکار کردیا اور اَزوَاج مُّطَھَّرَة کی تفسیر عجیب توڑ مروڑ کر کی ہے، گویا کہ بہشت میں رضائے الٰہی کے مقام میں ہر قسم کی انتہائی لذت، مسرت و راحت کے موقع پر بیویوں اور پھر پاکیزہ بیویوں کا ملنا بڑے ہی شرم و ندامت کی بات ہے، اگر نفس جنت کے وجود ہی سے انکار ہے، تب تو بات ہی اور ہے ایسے مخاطب کے سامنے پہلے جنت کا اثبات کیا جائے گا، لیکن اگر جنت کا اقرار ہے، تو وہاں کی کسی لذت، کسی نعمت، کسی راحت سے انکار کے کوئی معنی نہ نقل کے اعتبار سے صحیح ہیں اور نہ عقل کے اعتبار سے جنت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ وہ مادی اور روحانی ہر قسم کی لذتوں، مسرتوں، راحتوں کا گھر ہے، یا پھر یہ ہے کہ بیوی کے نعمت اور اعلیٰ نعمت ہونے ہی سے انکار ہے، اگر ایسا ہے تو اس عقیدہ کا رشتہ اسلام سے نہیں بلکہ یہ رہبانیت اور مسیحیت سے وابستہ ہے اور مسیحیت اور رہبانیت بھی وہ نہیں جو مسیح علیہ الصلوٰة والسلام کی لائی ہوئی ہے بلکہ وہ جو پولوس کی پھیلائی ہوئی ہے، اس قسم کا عقیدہ اور نظر یہ پولوسی مسیحیت سے دماغی مرعوبیت کا نتیجہ ہے اور جنت میں عمل زوجیت کا مقصد بقائے نوع یا افزائش نسل نہ ہوگا، بلکہ حذا کی طرح نفس لذت مقصود ہوگی۔ وَہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ : یہ جنت کی انتہائی عظیم نعمت کا ذکر ہے، خلود کے معنی ہمیشگی اور ایسی حالت میں رہنے کے ہیں کہ جن میں کبھی تغیر اور خرابی پیدا نہ ہو اور جب اس کا ذکر دوزخ و جنت کے سیاق وسباق میں آئے گا تو اس کا مطلب ہوگا کہ اہل جنت ہمیشہ ہمیش جنت میں رہیں گے، اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے، حدیث شریف میں ہے کہ جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا، اے جہنمیو ! اب موت نہیں ہے اور اے جنتیو ! اب موت نہیں ہے جو فریق جس حالت میں ہے اسی میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق، صحیح مسلم کتاب الجنة)
Top