Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 25
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ
: اور خوشخبری دو جو لوگ
آمَنُوْا
: ایمان لائے
وَ عَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ
: اور انہوں نے عمل کئے نیک
اَنَّ لَهُمْ
: کہ ان کے لئے
جَنَّاتٍ
: باغات
تَجْرِیْ
: بہتی ہیں
مِنْ تَحْتِهَا
: ان کے نیچے سے
الْاَنْهَارُ
: نہریں
كُلَّمَا
: جب بھی
رُزِقُوْا
: کھانے کو دیا جائے گا
مِنْهَا
: اس سے
مِنْ ۔ ثَمَرَةٍ
: سے۔ کوئی پھل
رِزْقًا
: رزق
قَالُوْا
: وہ کہیں گے
هٰذَا الَّذِیْ
: یہ وہ جو کہ
رُزِقْنَا
: ہمیں کھانے کو دیا گیا
مِنْ
: سے
قَبْلُ
: پہلے
وَأُتُوْا
: حالانکہ انہیں دیا گیا ہے
بِهٖ
: اس سے
مُتَشَابِهًا
: ملتا جلتا
وَلَهُمْ
: اور ان کے لئے
فِیْهَا
: اس میں
اَزْوَاجٌ
: بیویاں
مُطَهَّرَةٌ
: پاکیزہ
وَهُمْ
: اور وہ
فِیْهَا
: اس میں
خَالِدُوْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
جن لوگوں نے ایمان کی راہ اختیار کی اور ان کے کام بھی اچھے ہوئے تو ان کو باغات کی بشارت ہے ، ایسے باغات جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ، جب کبھی ان باغوں کا پھل یعنی جنت کی کوئی نعمت ان کو ملے گی تو بول اٹھیں گے کہ یہ تو وہ نعمت ہے جو پہلے بھی ہم کو دی جا چکی ہے اور یہ اس لیے کہیں گے کہ ملتی جلتی چیزیں ان کے سامنے آئیں گی ان کے لیے نیک اور پارسا بیویاں ہوں گی اور ان کی ہر راحت ہمیشگی راحت ہو گی
جنت اور وراثت جنت کا ذکر : 58: گزشتہ آیت میں منکرین اور ان کے انکار کا نتیجہ بیان کیا گیا تھا۔ ضروری تھا کہ اس کے بعد مؤمنین اور ان کے ایمان کے نتیجہ کو بھی بیان کیا جاتا چناچہ اس پوری آیت میں یہ بتایا گیا کہ جو لوگ ایمان لائے اور اس قانون کو اپنی زندگی کا دستور العمل بنا لیا وہ جنت میں داخل ہوں گے اور اس طرح کہ گویا جنت ان کی وراثت تھی یعنی ان کا حق تھا سب سے پہلے ان کے اعمال صالحہ کی جزا اسی دنیا میں انہیں ملے گی۔ یعنی بہشت زا اراضی کے مالک وہ بنادیئے جائیں گے اور خلافت و نیابت الٰہی کے مستحق قرار پائیں گے یہ خیال بالکل غلط اور بےبنیاد ہے کہ نیک کاموں کا بدلہ دنیا میں نہیں ملتا۔ نہیں ، نہیں ! بلکہ اس کی اولین قسط اسی جگہ سے شروع ہوجاتی ہے۔ قرآن کریم خود دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے : وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 00139 ( آل عمران 3 : 139) ” اور دیکھو نہ تو ہمت ہارو ، نہ غمگین ہو ، تم ہی سب سے بلند ہو بشرطیکہ تم سچے مؤمن ہو۔ “ پھر حقیقی ثمرات و نتائج مرنے کے بعد ظہور پذیر ہوں گے جن کی وضاحت زیر نظر آیت اور قرآن کریم کی اس جیسی بیشمار آیات میں کی گئی ہے۔ جنت و دوزخ کی حقیقت : قرآن کریم میں جگہ جگہ جنت کے انعامات اور دوزخ کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے اس آیت سے پہلی آیت میں بھی دوزخ کے عذاب کا ذکر گزرا اور اس آیت میں جنت کے انعامات کا ذکر ہے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جنت و دوزخ کی حقیقت کو ایک حد تک بیان کیا جائے تاکہ جب جنت کے انعامات کا ذکر ہو اور دوزخ کے عذاب کا بیان ، تو اس کی حقیقت خود بخود ذہن نشین ہوتی جائے۔ یاد رکھنے کی پہلی بات تو یہ ہے کہ دوزخ کے عذاب کا بیان ہو ، یا جنت کے انعامات کا ذکر۔ اس کو ماضی کے صیغوں میں بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ ان آیات میں بھی دوزخ کے متعلق بیان ہوا کہ ” اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَۚ00131 “ یعنی دوزخ تیار کی گئی کافروں کے لئے ، جنت کے متعلق ذکر ہوا ” اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ00133 “ یعنی جنت تیار کی گئی ہے متقیوں کے لئے۔ یہ قرآن کریم کے بیان کا انداز ہے کہ جس چیز کو یقینی اور حتمی طور پر بیان کرنا مقصود ہو اس کو ہمیشہ ماضی کے صیغوں ہی میں بیان کرتا ہے۔ اس سے یہ سمجھنا کہ جنت و دوزخ موجود ہیں۔ پھر یہ بحث شروع کردینا کہ وہ کہاں ہیں ؟ آسمان پر یا زمین پر اور اسی طرح بحث سے ایک نئی بحث پیدا کرتے جانا بالکل فضول اور لغو ہے۔ یاد رکھنے کی دوسری بات یہ ہے کہ جب دوزخ کا بیان ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے۔ دوزخیوں کو کھانے کے لئے تھوہر دیا جائے گا پینے کے لئے پیپ اور کھولتا پانی۔ ان کی پیشانیاں اور پشتیں کا ویوں سے داغی جائیں گی۔ ان کو سانپ اور بچھو ڈسیں گے ان کی جلدیں جھلسی بلکہ پکائی جائیں گی لوہے کے ہتھوڑے مار مار کر ان کے سرپھوڑے جائیں گے۔ ان کی زبانیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جائیں گی اس طرح بہت سی عذاب کی دردناک شکلیں اور صورتیں بیان کی جائیں گی۔ اور جنت کا ذکر ہوگا تو کہا جائے گا وہاں باغات ہوں گے۔ ان کے درمیان نہریں جاری ہوں گی۔ سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑائو محل ہوں گے ، دودھ و شراب کی ندیاں بہہ رہی ہوں گی ، ہر قسم کے میوے کھانے کو موجود ہوں گے اور آرام و سکون کے لباس و مشروبات کا ذکر ہوگا اور بالآخر تسکین دل کے لئے بلوری جسم کی بیویاں ملیں گی۔ جنت یا بہشت کی ماہیت جو خود اللہ تعالیٰ نے بتائی ، وہ ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ 1ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ 0017 (حم السجدہ 32 : 17) ” پھر جو کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لئے چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی کسی نفس کو بھی خبر ہے ؟ “ پیغمبر اسلام ﷺ نے جو حقیقت بہشت کی بیان فرمائی وہ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ ؓ کی سند سے اس طرح بیان کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : قال اللہ تعالیٰ اعدت لعبادی الصالحین ما لا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر۔ ” یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ چیز تیار کر رکھی ہے جو کسی آنکھ نے دیکھی نہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے۔ “ پس اگر حقیقت بہشت کی یہی باغ اور نہریں ، موتی اور چاندی سونے کی اینٹوں کے مکان اور دودھ و شرات اور شہد کی نہریں ، لذیذ میوے ، خوبصورت عورتیں اور بچے ہوں تو یہ صریحاً قرآن کریم کی آیت اور رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی تشریح کے خلاف ہے کیونکہ ان سب چیزوں کو تو ہر انسان جانتا ہے اگر فرض کیا جائے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ویسی عمدہ چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سنیں تو بھی ” لا خطر علی قلب بشر “ سے تو خارج نہیں ہوسکتیں۔ عمدہ ہونا ایک اضافی صفت ہے اور جب ان سب چیزوں کا نمونہ دنیا میں موجود ہے تو اس کی اضافی صفت کو جہاں تک ترقی دیتے جائو انسان کے دل میں اس کا خیال یقیناً گزر سکتا ہے۔ جب کہ بہشت کی ایک ایسی حقیقت بیان ہوئی ہے کہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک نہیں گزر سکتا۔ انسان اپنی فطرت کے مطابق انہی چیزوں کو سمجھ سکتا ہے اور انہیں چیزوں کا خیال کرسکتا ہے یا اس کے دل میں گزر سکتا ہے جو اس نے دیکھی ، چھوئی ، چکھی ، سونگھی یا قوت سامعہ سے محسوس کی ہوں اور بہشت کی جو لذت یا راحت ہے ، اس کو نہ انسان نے دیکھا ہے ، نہ چھوا ہے ، نہ سونگھا ہے ، نہ قوت سامعہ کی حس سے اس کا کوئی تصور موجود ہے۔ پس فطرت انسانی کے مطابق کسی انسان کو اس کا بتلانا ناممکن ہے پس جو کچھ اس سلسلہ میں بیان ہوا ، اس کو صرف تشبیہ یا استعارہ ہی کہا جاسکتا ہے وہ بھی ان الفاظ میں جن کو بولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں حالانکہ اس چیز کی ان الفاظ کے ساتھ بھی کوئی نسبت بیان نہیں کی جاسکتی۔ چونکہ تمام انسانوں کی خواہ وہ سرد ملک کے باشندے ہوں خواہ گرم ملک کے مکان کی آراستگی و خوبی ، باغ کی خوشنمائی ، بہتے پانی کی دلربائی ، میوں کی تروتازگی۔ سب کے دل پر ایک عجیب کیفیت پیدا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ حسن یعنی خوبصورتی سب سے زیادہ دل پر اثر کرنے والی ہے۔ خصوصاً جبکہ وہ انسان میں ہو ، اور اس سے بھی زیادہ جب کہ عورت میں ہو۔ پس بہشت کی قرۃ العین کو ان فطری راحتوں کی کیفیات کی تشبیہ میں اور دوزخ کے مصائب کو آگ میں چلنے ، لہو پیپ پلائے جانے اور تھوہر کھلائے جانے کی تمثیل میں بیان کیا ہے تاکہ ہر انسان کے دل میں خیال پیدا ہو کہ بڑی سے بڑی راحت و لذت یا سخت سے سخت عذاب وہاں موجود ہے اور درحقیقت جو لذت یا رنج و کلفت وہاں ہے ان کو اس سے کچھ بھی مناسبت نہیں۔ اَن دیکھی چیزوں کا بیان کیسے ممکن ہے ؟ اس امر کے ثبوت کے لئے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کا ان چیزوں کے بیان کرنے سے صرف اعلیٰ درجہ کی راحت کا بقدر فہم انسانی خیال پیدا کرنا مقصود تھا ، نہ واقعی ان چیزوں کا دوزخ و بہشت میں موجود ہونا۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے یہ حدیث ترمذی نے بریدہ سے روایت کی ہے اس میں بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ بہشت میں گھوڑا بھی ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو سرخ یا قوت کے گھوڑے پر سوار ہو کر جہاں چاہے گا اڑتا پھرے گا۔ پھر ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہاں اونٹ بھی ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ہے جو کچھ چاہو گے سب کچھ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس جواب سے مقصود آپ ﷺ کا یہ نہیں کہ درحقیقت بہشت میں گھوڑے اور اونٹ موجود ہوں گے بلکہ صرف ان لوگوں کے خیال میں اعلیٰ درجہ کی راحت کے خیال کا پیدا کرنا ہے جو ان کے خیال اور ان کی عقل و فہم اور طبیعت کے مطابق اعلیٰ درجہ کی ہوسکتی تھیں اس مضمون کی جتنی احادیث ہیں ان سب کا مقصود ان اشیاء کا بعینہٖ بہشت میں موجود ہونا نہیں ہے بجز اس کے کہ جہاں تک انسان کی عقل و بصیرت کے مطابق وموافق اعلیٰ درجہ کی راحت کا خیال پیدا ہوسکے وہ پیدا ہو۔ پھر یاد رہے کہ ان دو طرح کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے اس لئے کہ انبیائے ربانی کے مخاطبین میں ہر قسم کے لوگ موجود ہوتے تھے اور ان کو تمام کافہ انام کی تربیت کرنا ہوتی تھی جن کا بہت بڑا حصہ قریب کل کے محض ناتربیت یافتہ جاہل و حشی ، جنگلی اور بدوی ہوتا تھا اس لئے انبیاء کرام کی تعلیم اللہ نے اس طرح کی کہ ان حقائق و معارف کو جن کو تربیت یافتہ عقل بھی مناسب غور و فکر تامل سے سمجھ سکتی ہے ایسے الفاظ میں بیان کریں کہ تربیت یافتہ دماغ اور ناتربیت یافتہ دونوں برابر فائدہ اٹھائیں۔ قرآن کریم میں جو بےمثل چیز ہے وہ یہی ہے کہ اس کا طرز بیان ، ہر ایک مذاق اور دماغ کے موافق ہے باوجود دونوں قسم کے لوگوں کے اور درجات میں اس قدر اختلاف کے دونوں نتیجہ پانے میں برابر ہیں۔ انہیں آیات کی نسبت دو مختلف دماغوں کے خیالات پر غور کرو۔ ایک تربیت یافتہ دماغ خیال کرتا ہے کہ وعدہ وعید دوزخ و بہشت کے جن الفاظ سے بیان ہوئے ہیں ان سے بعینہٖ وہی اشیاء مقصود نہیں بلکہ اس کا بیان کرنا صرف اعلیٰ درجہ کی خوشی و راحت کو فہم انسانی کے لائق تشبیہ میں لانا ہے۔ اس خیال سے اس کے دل میں ایک بےانتہاء عمدگی نعیم جنت کی اور ایک ترغیب اوامر کے بجالانے اور نواہی سے بچنے کی پیدا ہوتی ہے اور ایک عام ذہنیت کا ملا ّ یا شہوت پرست زاہد یہ سمجھتا ہے کہ درحقیقت بہشت میں نہایت خوبصورت ان گنت حوریں ملیں گی۔ طرح طرح کے مشروبات پئیں گے۔ میوے کھائیں گے۔ دودھ و شہد کی ندیوں میں تیریں گے اور نہائیں گے اور جو دِل چاہے گا وہ مزے اڑائیں گے ۔ ان باتوں کا خیال کر کے دن رات اوامر کے بجالانے اور نواہی سے بچنے میں کوشش کرتا ہے اور جس نتیجہ پر پہلا پہنچا تھا اس پر یہ بھی پہنچ جاتا ہے اور اس طرح کافہ انام کی تربیت کا کام بخوبی تکمیل پاتا ہے پس جس شخص نے ان حقائق قرآنی پر جو فطرت انسانی کے مطابق ہیں غور نہیں کیا اس نے درحقیقت قرآن کریم کو مطلق نہیں سمجھا اور وہ اس نعمت عظمیٰ سے بالکل محروم رہا۔ یہ حقیقت جو اوپر بیان کی گئی ہے وہی ہے جو قرآن و حدیث سے ہم نے سمجھی ہے کوئی بات اپنے نفس سے نہیں بنائی گئی۔ بعض طبیعتیں اس سے ابیٰ کریں گی لیکن ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ قبل ازیں بھی علمائے اسلام یہ بیان کرتے آئے ہیں اگرچہ نسبتاً وہ کم ہی ہوں چناچہ تفسیر کشف الاسرار میں لکھا ہے کہ ” جنت ونار کی جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ سب کی سب تمثیلیں ہیں نہ حقیقتیں تاکہ جو چیز ہمارے پاس ہے اس سے اس چیز کا جو ہم سے پوشیدہ ہے کچھ خیال پیدا ہو۔ “ مُتَشَابِهًا 1ؕ: یہ تشابہ کس سے ہوگا ؟ بعض نے کہا ہے کہ دنیا کی پھل پھلاریوں سے ، اور بعض کہتے ہیں کہ جنت ہی کے میوے ایک دوسرے کے مشابہ ہوں گے لیکن اگر دنیا کے پھلوں سے تشابہ مراد لی جائے تو یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ یہ مشابہت صرف صوری اور ظاہری ہی ہوگی ورنہ اصل لذت ، ذائقہ ، خوشبو وغیرہ کے لحاظ سے جنت اور دنیا کی نعمتوں میں ، چہ نسبت خاک رابعالم پاک ، کے مرادف ہے۔ ہاں ! شکل و صورت اور نام میں مشابہت ہو سکتی ہے مگر بعض علمائے اسلام نے مُتَشَابِهًا 1ؕ کی تفسیر میں ثمر سے مراد درختوں کے میوے نہیں لئے۔ علامہ بیضاوی نے لکھا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لذت دنیا میں معرفت الٰہی اور اس کی اطاعت میں چکھی تھی تو جنت میں وہ لذت بڑھ کر ہوگی۔ اس لئے ان الفاظ سے کہ ” یہ وہی ہے جو ہم کو پہلے ملا تھا “ ثواب مراد ہے اور ” ایک ہی سی ہونے سے “ بزرگی اور علو مدارج میں ایک سا ہونا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کافروں کے حق میں کہا گیا ہے کہ چکھو جو تم عمل کرتے تھے یعنی : ذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 0055 (29 : 55) انسانی زندگی کا آخری سکون : 59: اَزْوَاجٌ : جو زوج کی جمع ہے اس کے معنی ہیں ” جوڑے “ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جس طرح شوہر کے لئے بیوی زوج ہے بالکل اسی طرح بیوی کے لئے شوہر بھی زوج ہے۔ جنت کی پاکیزہ زندگی میں ان کا ذکر بھی پاکیزگی کی صفت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ بعض اوقات دنیوی زندگی میں اگر مرد نیک ہے تو عورت نیک نہیں ہوتی اور عورت نیک ہے تو مرد نیک نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوجائے تو خواہش نفسی کے ازالہ کے سوا زندگی کا کوئی سکون اور کوئی لطف میسر نہیں آتا پھر جنت کی پاکیزہ زندگی میں خواہش نفسی نام کی کوئی شے ہوگی بھی کیوں ؟ اس لئے واضح فرمادیا کہ آخرت میں ایسے بےجوڑ جوڑوں کا رشتہ جب جڑ جائے گا تو وہ بےجوڑ نہیں رہیں گے اور اس طرح انسانی زندگی کا آخری سکون بھی اس کو میسر آئے گا اس لئے کہ جنت اور سکون لازم و ملزوم ہیں اور یہ وضاحت اس لئے فرمادی تاکہ تمہیں یہ نہ کہنا پڑے کہ : ؎ اب تو گھبرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گے لیکن مر کر بھی چین نہ پایا تو پھر کدھر جائیں گے استحقاق جنت کے اعمال بجا لائو سکون مل جائے گا۔ یہ بات یقینی ہے۔ انہی ازواج کے متعلق دوسری جگہ ارشاد ہوا : اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ 0070 (الزخرف 43 : 70) ” جنت میں داخل ہوجائو تم اور تمہارے ازواج ، وہاں تمہاری خوب خاطر مدارت ہوگی۔ “ دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا : هُمْ وَ اَزْوَاجُهُمْ فِیْ ظِلٰلٍ عَلَى الْاَرَآىِٕكِ مُتَّكِـُٔوْنَ 0056 (یٰسین 36 : 56) ” وہ اور ان کے جوڑے سایوں میں ہوں گے تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے۔ “
Top