Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 25
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ : اور خوشخبری دو جو لوگ آمَنُوْا : ایمان لائے وَ عَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ : اور انہوں نے عمل کئے نیک اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لئے جَنَّاتٍ : باغات تَجْرِیْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهَارُ : نہریں كُلَّمَا : جب بھی رُزِقُوْا : کھانے کو دیا جائے گا مِنْهَا : اس سے مِنْ ۔ ثَمَرَةٍ : سے۔ کوئی پھل رِزْقًا : رزق قَالُوْا : وہ کہیں گے هٰذَا الَّذِیْ : یہ وہ جو کہ رُزِقْنَا : ہمیں کھانے کو دیا گیا مِنْ : سے قَبْلُ : پہلے وَأُتُوْا : حالانکہ انہیں دیا گیا ہے بِهٖ : اس سے مُتَشَابِهًا : ملتا جلتا وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِیْهَا : اس میں اَزْوَاجٌ : بیویاں مُطَهَّرَةٌ : پاکیزہ وَهُمْ : اور وہ فِیْهَا : اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام بھی کیے اس بات کا مژدہ دیجیے کہ ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے پڑی نہریں بہ رہی ہوں گی جب ان کو وہاں پھل کھانے کو ملے گا تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہم پہلے ہی کھاچکے ہیں اور ان کو ہم شکل چیزیں دی جاتی رہیں گی اور ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیبیاں ہوں گی اور وہاں سدا رہیں گے۔
ترکیب : الذین فعل بافاعل الذین آمنوا وعملو الصالحات صلہ و موصول جملہ اس کا مفعول جنت اسم ہے ان کا موصوف تجری من تحتہا الانہار جملہ فعلیہ اس کی صفت لہم خبر ان کی پس یہ ان اپنے اسم و خبر کے ساتھ مجرور ہے باء کا تقدیرہ بان اور متعلق ہے بشر کے کلما شرط رزقوا جزا الخ قالوا ھذا الذی رزقنا من قبل جملہ فعلیہ اس کا جواب شرط و جزا مل کر دوسری صفت ہوئی جنت کی یا خبر مبتداء محذوف کی ای ہم اوہی یا جملہ مستانفہ ہے رزقاً مفعول بہ ہے رزقوا کا اور منہا من ثمرۃ میں من ابتدائیہ ہے دونوں حال ہیں رزقاً سے علی سبیل تداخل یہ تمام جملہ عطف ہے جملہ سابقہ پر واتوابہ متشابہا جملہ معترضہ ہے گویا اس کہنے کا سبب اس میں بیان ہے یعنی وہ یہ بات اس لیے کہیں گے کہ ان کو یہ پھل یکساں صورت کے دیے جائیں گے۔ ضمیر بہ کی مارزقوا کی طرف راجع ہے متشابہا حال ہے ضمیر بہ سے ازواج موصوف مطہرۃً صفت دونوں مل کر مبتداء لہم خبر مقدم جملہ مستانفہ ہے ھم مبتداء خالدون خبر فیھا اس کے متعلق یہ جملہ مستانفہ ہے یا حال ہے لہم سے۔ تفسیر : کہ اے نبی ﷺ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام عبادت اور سخاوت وغیرہا کئے ہیں ان کو یہ مژدہ سناؤ کہ ان کو مرنے کے بعد اس عالم میں ایسے باغ عنایت ہوں گے جن میں نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں کے میووں میں عجب لطف ہوگا کہ رنگ و بو اور شکل و صورت یکساں اور مزے الگ الگ یہاں تک کہ جب کوئی میوہ ان کو ملے گا تو اس مشابہت سے یہ سمجھیں گے کہ یہ تو ہم ابھی کھاچکے ہیں مگر جب کھائیں گے تو نیا لطف پائیں گے اور ان کو جس طرح مکانات اور کھانے عمدہ عنایت ہوں گے اسی طرح انس و صحبت کے لیے پاکیزہ بیویاں ملیں گی کہ جو نفرت کی باتیں ہوتی ہیں وہ ان میں نہ ہوں گی، نہ صورت میں نہ سیرت میں۔ اس پر ان کو بڑھاپے اور موت یا افلاس کا غم نہ ہوگا بلکہ وہ اسی عیش و آرام کے ساتھ ہمیشہ رہیں گے۔ نکات : (1) کتب الہامیہ کا زیادہ تر مقصود تین چیزوں کا بتلانا ہوتا ہے : (1) علم مبدء کہ پیشتر کیا تھا اور اس عالم کو کس نے بنایا ہے اور میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں۔ (2) علم معاش کہ بندہ یا اور چیزیں پیدا ہونے کے بعد خودمختار ہیں اور ہر چیز کی قدرت مستقلہ رکھتے ہیں یا ہر دم معاش میں بھی اسی کے محتاج ہیں۔ وہی اسباب معاش پیدا کرتا ہے اور ہماری سعی و کوشش تو صرف یہ ہے کہ ہم ان اسباب کو کام میں لاتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ کسی وقت اس سے بےپروائی اور استغفار نہیں ہوسکتا۔ (3) علم معاد کہ آخر کار میرا کیا ہونا ہے ؟ مجھ کو یہاں سے کہیں اور جگہ بھی جانا ہے وہاں اپنے اعمال کا ثمرہ بھی پانا ہے۔ پس خدائے تعالیٰ نے اوصاف کتاب اور مراتب سعداء و اشقیاء بیان فرما کر ان تینوں علوم کو بیان کردیا۔ اول کو الذی خلقکم میں اور پھر اس کو اور دوم کو الذی جعل لکم الارض فراشًا والسماء بناء ًا سے لے کر رزقالکم تک (سوم) کو فاتقوالنارالتی سے لے کر خالدون تک۔ (2) انسان کی جبلی عادت ہے کہ جب وہ کسی چیز کی مضرت سے واقف ہوتا ہے تو اس سے ڈرتا اور کسی منفعت کی طمع میں کوئی کام کرتا ہے اس لیے خدا کے کفر کا نتیجہ فاتقوا النار الخ اور ایمان اور اعمال صالحہ کا ثمرہ و بشر الذین الخ بیان کردیا اور اسی حکمت سے جہاں ترہیب ہے ترغیب بھی تاکہ خوف و رجا کے دونوں پلے مساوی رہیں۔ (3) کلما رزقو امنہا من ثمرۃ رزقًا قالوا ھذا الذی رزقنا من قبل میں عالم آخرت کے اسرار کی طرف اشارہ کیا، کس لیے کہ کلما عموم کو چاہتا ہے، لیکن یہ بات جنت میں اول مرتبہ ثمرہ کھانے پر صادق نہیں آتی کیونکہ اس سے پہلے وہ کہاں پا چکے تھے ؟ دنیا کے ثمرات اول تو صدہا مفلس اور غریب اہل جنت کو دنیا میں نصیب ہی نہ ہوئے تھے پھر ان کو جنت کے ثمرات سے کیا نسبت بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس عالم میں انسان کے معارف و اعمال اپنی مناسب کسی شکل میں ظہور کریں گے جس طرح کہ معانی خواب میں اپنے مناسب اشکال میں دکھائے جاتے ہیں جنت کے ثمرات یہی دنیا کے معارف و اعمال صالحہ ہیں۔ جب ان کو وہاں دیکھیں گے تو اصلی مناسبت کا ادراک یہاں تک کامل ہوگا کہ دونوں کو ایک جان کر یہ کہیں گے کہ یہ تو ہم پہلے پا چکے اور دنیا میں کھاچکے ہیں (واللہ اعلم بمرادہ) پس کفر و الحاد اور انبیا کی نافرمانی اور بدکاری آگ اور جہنم مردم سوز کی صورت میں اور ایمان اور اچھے اعمال جنت وثمرات و ازواج و انہار کی صورت میں ظہور کریں گے۔ واضح ہو کہ انسان کی رغبت تین چیزوں سے زیادہ ہوتی ہے اور ان ہی کی طرف زیادہ احتیاج پڑتی ہے۔ (1) مکان عمدہ، (2) اچھے سامان عمدہ کھانا پینا، (3) عورت حسین۔ پس اول کو لہم جنت میں اور دوسرے کو کلما رزقوا الخ میں تیسرے کو لہم فیہما ازواج میں بیان کردیا۔ اور اس پر ایک کھٹکا ان چیزوں کے فنا ہوجانے اور اپنے مرجانے کا بھی ہوتا ہے کہ جو تمام لذت کو خاک میں ملا دیتا ہے ؎ مرادر منزل جاناں چہ امن و عیش چوں ہر دم جرس فریاد می دارد کہ بربندید محملہا پس اس کھٹکے کو بھی ھم فیہما خالدون سے مٹا دیا۔ تحقیقات : سوال : انسان اور دیگر ابدان اجزائِ متضادۃ الکیفیت سے مرکب ہیں کہ جن میں طرح طرح کے استحالات و انقلابات ہوتے رہتے ہیں کہ جن سے انجام کار انحلال و انفکاک ہوتا ہے اور اس مرکب کے اجزا علیحدہ ہو کر یہ مرکب فنا ہوجاتا ہے۔ پس جب یہ ہے تو جنت میں ہمیشہ رہنا کس طرح ہوسکتا ہے ؟ جواب : ہم پیشتر بھی جنت کی حقیقت بیان کرچکے ہیں اور اب پھر کہتے ہیں کہ جنت میں جسم عنصری تو کیا بلکہ جرم 1 ؎ فلکی کی قسم سے بھی کوئی جسم نہیں بلکہ وہ عالم اس عالم سے غیر اس عالم پر قیاس کرکے انفکاک و فساد ترکیب کا احتمال نکالنا قیاس مع الفارق ہے۔ قال تعالیٰ یوم تبدل الارض غیر الارض و السمٰوات کہ یہ زمین اور یہ آسمان اس روز نہ رہے گا بلکہ اس کے بدلے میں اور نئی زمین اور نیا آسمان ہوگا کہ جن کی جسمیت ان کی جسمیت سے بالکل مختلف الماہیۃ ہوگی۔ یوحنا بھی اپنے مکاشافات کے 32 باب میں کہتے ہیں : (پھر میں نے ایک نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھا، کیونکہ اگلا آسمان اور اگلی زمین جاتی رہی تھی۔ ) انتہٰی وہاں کے اجسام لطافت میں روح کے ہم پلہ ہیں۔ پس جس طرح روح ہمیشہ رہ سکتی ہے وہ بھی۔ اس شبہ کی بنیاد ایک فلسفی وسوسہ پر ہے کہ جو نہایت کمزور اور بودا ہے۔ سوال : وہ عالم اگر تسلیم بھی کیا جائے تو وہ ایک عالم قدس ہوگا کہ جس میں کھانا پینا عورتوں سے لذت اٹھانا یا عمدہ عمدہ باغ اور نہریں اور خوبصورت عورتیں عیش اڑانے کو کہاں ؟ جنت یہ ہے کہ نفس ناطقہ اپنے ادراکات سے حظ اٹھائے گا اور جہنم اور آگ یہ ہے کہ اپنے ملکات رذیلہ اور حقائق الاشیاء کے نہ جاننے پر بڑا تاسف کرے گا، پچھتائے گا۔ جواب : یہ سب چیزیں عالم قدس میں موجود ہیں اور پھر عالم قدس کے تقدس میں کوئی بھی فرق لازم نہیں آتا۔ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ وہ عالم اس عالم کا دوسرا پہلو ہے۔ یہاں جو کچھ ہے وہ وہیں کا ظل ہے اور پھر یہاں کی چیزیں وہاں جا کر متمثل ہوجاتی ہیں اس سِرِّمکتوم کا اظہار نہ تحریر سے ہوسکتا ہے نہ تقریر سے، انبیاء (علیہم السلام) یا ان کے متبعین پر کچھ کشف و شہود سے یہ راز کھلا وہی خوب جانتے ہیں۔ البتہ سمجھانے کے لیے ایک مثال یا نظیر (کہ جس کو اصل ممثل لہ سے ادنیٰ سی مناسبت ہے ورنہ زمین و آسمان کا فرق ہے) بیان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آئینہ میں ہاتھی گھوڑے ‘ درخت ‘ بڑے بڑے پہاڑ اپنی حقیقی صورت پر دکھائی دیتے ہیں اور جس طرح آئینہ سے بیرونی وجود میں باہم امتیاز ہے اسی طرح آئینہ کے وجود میں بھی ان چیزوں میں حقیقی امتیاز ہے۔ گھوڑا جدا دکھائی دیتا ہے اور ہاتھی الگ پھرتا چلتا ہوا اور پہاڑ وقار سے زانو جمائے ہوئے بیٹھا ہوا نظر آتا ہے آسمان و زمین بھی باوجود اس وسعت کے آئینہ میں موجود ہیں حالانکہ بالشت دو بالشت کا آئینہ ہے اور اس میں ایسی بڑی بڑی چیزیں موجود ہیں پھر کیا بات صرف یہ کہ یہ چیزیں تو وہی ہیں مگر یہاں اور حال ہے اور باہر اور پس باہر کے حالات کو آئینہ فرض کرکے محال جاننا اور انکار کرنا کوتاہ فہمی ہے۔ اور سنیے خواب میں جب کہ ہم لحاف میں منہ لپیٹ کر سوتے ہیں تو ہزاروں عجائبات دیکھتے ہیں۔ کبھی باغوں میں جاتے، کھانا کھاتے، جماع کرتے ہیں، انزال کا اثر صبح کو کپڑے پر پاتے ہیں۔ اسی طرح صدہا مصائب بھی دیکھتے ہیں، حالانکہ یہ صورتیں صرف خیال میں ہوتی ہیں کہ جس میں ہاتھ بھر کی چیز کی بھی گنجائش نہیں۔ نہ اس میں عورت آسکتی ہے، نہ درخت گھس سکتا ہے۔ پس ان چیزوں کے وجود خارجی کے حالات سے وجود خیالی کا انکار کرنا اور یہ کہنا کہ ان کی وسعت کے مخالف ہے جہل مرکب ہے۔ یہی حال اس عالم کا ہے کہ وہاں سب کچھ ہے مگر یہاں جسم عنصری فانی اور وہاں لطیف باقی۔ اس رمز کی طرف اس آیت میں اشارہ کردیا ہے۔ فلاتعلم نفس ما اخفی لہم مِن قرۃ اعین الآیہ۔ اور اسی طرح حدیث میں وارد ہے قال اللہ تعالیٰ اعدت لعبادی الصالحین مالا اعین رات ولا اذن سمعت وما خطر علیٰ قلب بشر (رواہ البخاری و مسلم) یہ شبہ بھی بےبنیاد وسوسہ ہے۔ 1 ؎ اور اجسام کا صرف انہیں میں انحصار ماننا دعویٰ بلا دلیل بلکہ خیال خام ہے کہ جس کا سر منشائِ حکمائِ یونان کے توہمات فاسدہ ہیں۔ واضح ہو : کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تھوڑے ہی دنوں بعد اس حقانی مذہب میں ایسا خلط ملط ہوگیا کہ کچھ کا کچھ ہوگیا، جھوٹی انجیلیں اور جھوٹے نامجات حواریوں کے نام سے تصنیف ہونے شروع ہوگئے جس شخص کے جو جی میں آیا اس نے روح القدس نازل ہونے کے پیرایہ میں لوگوں میں جاری کردیا چناچہ پولوس کے خطوط سے بھی یہ بات ثابت ہے (بلکہ پولوس بھی ان ہی میں سے ایک شخص تھا) ۔ پھر قوم گریک یعنی یونانی بھی اس مذہب میں آئے تو انہوں نے اپنے خیالات حکیمانہ کو اس مذہب میں ملایا۔ ہوتے ہوتے پچھلی صدیوں میں 1 ؎ مارٹین لوتھر اور اس کے شاگرد کالون وغیرہ فرقہ پر اٹسٹنٹ کے پیشوا ظاہر ہوئے تو اور بھی الحاد اور دہریت کو ترقی ہوگئی۔ یہاں تک کہ سترہویں صدی میں فرانس اور جرمن میں سینکڑوں ایسے لوگ صاحب تصانیف ظاہر ہوئے کہ جو صرف خدا کے قائل تھے باقی انبیاء اور ان کے معجزات اور امور آخرت اور جن و ملائکہ بلکہ وجود آسمان سب کو قصہ کہانی جانتے تھے اور پھر تو انگلستان میں بھی اس کا چرچہ پھیلا اور لارڈ ہر براٹ اور مسٹر بلاونٹ اور ہو بس اور ارل شاف جیسے معزز بھی ملحد ہوگئے اور اس بارے میں بہت سی کتابیں انہوں نے تصنیف کیں اور پھر تو امریکہ، ہسپانیہ وغیرہ جمیع بلاد یورپ میں بھی یہ بلا پھیل گئی اور ان نام کے عیسائیوں کی یہ بلا ہندوستان میں بھی آئی اور کلکتہ میں رام موہن نامی بنگالی نے 1840 ء میں ان ہی اصول پر بت پرستی سے ناراض ہو کر ایک جدید مذہب کی بنیاد ڈالی اور اس کا برہمو سماج نام دھرا۔ پھر اس کے شاگروں نے انگریزی خوان بنگالیوں میں اس کا بہت رواج دیا اور ان کی تقلید سے ایک شخص دہلی کے رہنے والے سید احمد خاں نے بھی مذہب اسلام کو برائے نام قائم رکھ کر ایک جدید مذہب کی ان ہی اصول ملحدانہ پر بنیاد ڈالی اور قرآن مجید کو تفسیر کے پیرایہ میں اپنے خیالات ملحدانہ کے تابع بنایا۔ مگر یہ کب ہوسکتا ہے ؟ اب ہم ان برائے نام عیسائیوں اور برہمو سماج اور اس شخص کے ان اعتراضات کو سناتے ہیں کہ جو بہ تقلید حکمائے یونان انہوں نے بےسمجھے بوجھے جنت و دوزخ پر کئے ہیں۔ منجملہ ان کے پادری فنڈر اپنی کتاب میزان الحق کے 3 باب کے 3 فصل میں قرآن مجید کی ان آیات کا ترجمہ کرکے کہ جن میں جنت کی جزئیات مذکور ہیں جیسا کہ حور، نہریں وغیرہ، یہ کہتا ہے : قولہ محمدیوں کا اعتقادی بہشت بالکل مجازی اور جسمانی ہے اس نہج پر کہ جو چیز آدمی کے خیال میں آوے سو وہ وہاں موجود ہے اور نفسانی و جسمانی ہر ایک لذت و عیش جس پر انسان کا دل مائل ہو وہاں ملتی ہے، پس ظاہر ہے کہ ایسے بہشت کا امیدوار کرنا آدمی کو دل کی پاکی اور نیک فکر سے روک کر نفسانی خواہشوں کو قوت وقدرت دیتا ہے۔ سو ایسا بہشت خدا کے تقدس کے لائق کیونکر ہوسکتا ہے۔ الخ اور اس سے پیشتر قرآن مجید کی آیات کو غلط ثابت کرنے کے لیے لوقا اور پولوس کے اقوال نقل کئے ہیں کہ جن کو اہل اسلام حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دین کا مخرب سمجھتے ہیں، چناچہ اس کا ثبوت مقدمہ کتاب میں گزرا اور آیندہ بھی کچھ ہوگا۔ قولہ : مسیح نے تو لوقا کے 20 باب کی 24 سے 36 تک یوں فرمایا کہ اس جہان کے لوگ یعنی بہشت کے لوگ نہ بیاہ کرتے ہیں، نہ بیا ہے جاتے ہیں کیونکہ وہ فرشتوں کی مانند ہیں اور رومیوں کے 14 باب کی سترہ آیت میں مرقوم ہے کہ خدا کی بادشاہت کھانا پینا نہیں بلکہ راستی اور سلامتی اور روح قدس سے خوش وقتی ہے، مگر محمد ﷺ نے قرآن میں اس کے برخلاف فرمایا ہے کہ بہشت میں کھانا پینا اور حوروں کے ساتھ رہنا ہے۔ انتہٰی۔ اقول : آپ کی مجازیت و جسمانی کا جواب تحقیقی تو ابھی بیان ہوچکا اور الزامی یہ ہے کہ یہ آپ بھی مانتے ہیں کہ جنت میں ایک شخص دوسرے کو نظر آوے گا، کلام کرے گا، پس جب یہ ہے تو جسمانیت ثابت ہوئی، خواہ وہ کسی قسم کی جسمانیت ہو، عنصریت نہ ہو نہ سہی۔ جب جسم ثابت ہے تو ہر جسم کو مکان کی ضرورت ہے اور دیگر اس کے لوازمات بھی ضرور ہیں۔ لان الشیء اذاثبت ثبت بجمیع لوازمہ حکما کا 1 ؎ یعنی سولہویں صدی مسیحی میں جبکہ پوپ لوگ جو حضرت مسیح کے نائب کہلاتے تھے ان کی سلطنت میں فتور آیا۔ ان پوپوں کو عیسائی پادری دجال اور شیطان بتلاتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح کے یہ لوگ سینکڑوں برس سے جانشین تھے۔ پس جب ان کا یہ خیال تھا تو اوروں کا کیا ٹھکانا تھا۔ 12 منہ مقولہ ہے۔ جب یہ ہے تو ان لوازمات کا حسب مرضی ہونا (کہ جس کو جنت کے معنی چاہتے ہیں، بہشت آنجا کہ آزارے نباشد) کچھ خلاف عقل نہیں اور جو کہے تو کوئی دلیل پیش کرے اور آپ کے عقلی دلائل کا یہ جواب ہے : اول تو لوقا حضرت مسیح کے قول کو نقل کرتا ہے اور یہ راوی معتبر نہیں اور نہ یہ شخص حواری ہے، نہ اس سے کبھی معجزہ و کرامت سرزد ہوا ہے، نہ حواریوں میں اس کی قدر و منزلت تھی بلکہ یہ پولوس کا شاگرد ہے جو دینیات میں جھوٹ بولنا ثواب سمجھتا ہے۔ جیسا کہ مقدمہ کتاب میں مذکور ہوا اور یہ خود کہتا ہے کہ میں سن کر مسیح کا حال لکھتا ہوں۔ دوم اگر اس کو معتبر شخص بھی تسلیم کیا جائے تو ممکن ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی یہ مراد ہو کہ دنیا کی طرح وہاں بکھیڑے نہ ہوں گے۔ کس لیے کہ یہ بات حضرت نے صدوقیوں کے جواب میں بیان فرمائی تھی کہ جو قیامت کے منکر تھے اور جنہوں نے ایک عورت چند شوہردار کا سوال حضرت سے کیا تھا کہ وہ کس شوہر کو ملے گی۔ سوم یوں بھی نہ ہو تو پھر خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کے قول سے (انجیل متی کے 26 باب 209 درس) جنت میں انگور کا شیرہ پینا ثابت ہے تو جب وہاں پینا ہے تو کیا کھانا نہ ہوگا۔ اور جب شراب ہے تو کیا عورتیں نہ ہوں گی ؟ ہاں یہ اور بات ہے کہ عیسائیوں کی جنت میں صرف انگور کا شیرہ ہو نہ باغ ہو، نہ انیس ہو، نہ اور کچھ کھانا ہو جیسا کہ دنیا میں بھنگڑ کہا کرتے ہیں کہ بنگ ہی کا مکان ہو، اسی کا اوڑھنا، اسی کا بچھونا ہو۔ سچ ہے۔ فکر ہر کس بہ قدر ہمت اوست، علاوہ اس کے مکاشفات یوحنا کے 7 باب اور 21 و 22 میں بھی اس قسم کا بیان ہے اور پولوس کے قول کا مسیح کے قول کے مقابلہ میں کیا اعتبار ہے۔ علاوہ اس کے وہ دنیا کی نسبت یہ کہتا ہے جیسا کہ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ پیشتر وہ یہ کہتا ہے کہ دنیا میں حلال و حرام اور پاک و ناپاک چیز کی کوئی احتیاط نہیں بلکہ پاک لوگوں کو ہر چیز پاک ہے۔ پس اس ملحدانہ اعتراض سے اسرار نبوت میں کیا دھبہ لگتا ہے ؟ پھر ان کے مقلد برہمو سماج رسالہ خلاصۃ الاصول مطبوعہ وکیل ہندوستان پریس امرتسر 1875 ء کے صفحہ 17 میں یہ لکھتے ہیں کہ صرف روح کا تقرب الٰہی میں مسرور ہونا بہشت ہے اور یہ تقرب الٰہی ابد الآباد بڑھتا جائے گا۔ اگرچہ یہ قول محققین اسلام سے لیا گیا ہے اور قرآن مجید بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدَرٍ ۔ بلکہ قرآن و احادیث صحیحہ قاطبۃً اس بات پر متفق ہیں کہ خدائے عزوجل کا قرب اور روح کا اس کے دیدارفرحت آثار سے بشاش ہونا تمام نعمائِ جنت سے بڑھ کر ہے اور یہ کوئی بھی مسلمان نہیں کہتا ہے کہ جنت صرف اس عالم شہوات و تکدرات میں کامیابی حاصل کرنا ہے، شاید کسی نے نافہمی سے یہ سمجھ کریوں کہا ہو تو کہا ہو بلکہ کل اہل اسلام اس پر متفق ہیں کہ وہ عالم قدس ہے۔ وہاں موت، بیماری، دکھ، درد، بڑھاپا وغیرہ عوارضات جسمِ عنصری کچھ نہیں اور بالخصوص ابرار تو ہمیشہ مسرت دیدار ہی میں مستغرق رہیں گے۔ ہاں یہ بات اور ہے کہ انسان کے اعمال صالحہ و معارف عمدہ عمدہ شکلوں میں ظہور کریں گے اور ان حور و باغ اور نہروں کا یہی سر ہے۔ پس ان چیزوں کو دنیا کی چیزیں سمجھ کر اعتراض کرنا اور اہل اسلام کا یہی جسمانی و مجازی بہشت قرار دینا بڑی غلطی ہے۔ مگر برہمو کا لفظ صرف اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر یہ ہے تو بڑے دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ خان صاحب بہادر نے تو اپنی تفسیر کے صفحہ 36 میں ان دونوں کے مقلد ہو کر جوش و خروش میں آ کر علمائِ اسلام اور سلف کو بہت کچھ کہا ہے اور جنت کی نسبت بھی بڑی دریدہ دہنی کی ہے، پھکڑ اڑایا ہے تاکہ اہل اسلام خجل ہو کر اس عقیدہ سے نفرت کریں۔ سب سے پہلے میں خان صاحب کے قول کو مختصراً ملخص کرکے بیان کرتا ہوں اور پھر ان کی پھکڑ بازی کو۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ جنت کی ماہیت جو خدا اور رسول نے (آیت فلاتعلم نفس ما اخفی لہم من قرۃ اعین اور حدیث اعدت بعبادی الصالحین مالاعین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علٰی قلب بشر) میں بتلائی ہے وہ یہ ہے کہ اس کو کوئی نہیں جانتا، کس لیے کہ انسان اسی چیز کو جان سکتا ہے کہ جو حواس خمسہ سے محسوس ہو اور جنت کا کسی انسان نے حواس خمسہ سے حس نہیں کیا۔ پس اس کا بیان کرنا (گو خدائے تعالیٰ ہی چاہے) محال بلکہ محال سے بھی بڑھ کر ہے، کس لیے کہ انسان کی کیفیات دنیا رنج و خوشی کی بھی کوئی کیفیت نہیں بتا سکتا۔ اس تقدیر پر اگر جنت کی حقیقت یہی باغ اور نہریں اور موتی اور چاندی اور سونے کی اینٹوں کے مکانات اور دودھ اور شراب اور شہد کے سمندر اور لذیذ میوے اور خوبصورت عورتیں اور لونڈی ہوں تو یہ آیت و حدیث کے برخلاف ہے، کیونکہ ان کو تو انسان جان سکتا ہے۔ غایۃ الامر اس قسم کی عمدہ چیزوں کو حواس سے نہیں جانتا تو یہ کچھ بات نہیں کیونکہ عمدگی ایک امر اضافی ہے اس کو جہاں تک ترقی دیتے جاؤ انسان کے دل میں اس کا خیال گزر سکتا ہے۔ پس یہ چیزیں بہ قدر طاقت بشری تمثیل کے طور پر سمجھانے کے لیے مذکور ہوئی ہیں۔ ورنہ درحقیقت یہ بہشت میں نہیں اور بہشت و دوزخ راحتوں اور لذتوں اور رنج و تکلیفوں کا نام ہے مگر چونکہ انبیاء (علیہم السلام) کو لوگوں کے واسطے مصلحتاً بہت سی باتوں سے منع کرنا اور بہت سی باتوں کا عمل میں لانا بیان کرنا پڑتا ہے اور آدمی کو جبلی بات ہے کہ وہ کسی کام سے جو باز رہتا ہے تو کسی خوف سے اور کرتا ہے تو کسی لالچ سے۔ پس اس راحت و رنج کو ہر نبی نے لوگوں کے حسب حال تعبیر کیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جنت کو فراغ دستی ‘ کثرت اولاد و مال و صحت و فتح مندی کے ساتھ اور دوزخ کو قحط ‘ و با ‘ مغلوبی کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل ان ہی باتوں سے رغبت اور ان ہی چیزوں سے نفرت رکھتے تھے اور محمد مصطفیٰ ﷺ نے ان کو ایسی تشبیہوں میں بیان کیا ہے کہ جو تمام جہان کی طبیعتوں پر حاوی ہے۔ کس لیے کہ خواہ کوئی کسی گرم و سرد ملک کا رہنے والا ہو اس کو عمدہ مکان اور باغ اور خوبصورت عورت اور لذیذ کھانوں سے رغبت ہوتی ہے اور آگ میں جلنے اور لہو پیپ کھانے سے دل ڈرتا ہے اور رفارمر یعنی ناصحوں کا یہی کام ہے۔ انتہیٰ ملخصاً ۔ اس قول کا تفصیلی جواب تو ہم مقدمہ کتاب میں دے چکے ہیں۔ مگر اجمالاً یہاں اس قدر کہتا ہوں : (1) کہ آیت اور حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جنت کو کوئی نہیں جان سکتا، بلکہ یہ مطلب ہے کہ جنت میں جو کچھ جزئیات امور یوماً فیوماً پیش آویں گے اور تفصیلی حالات ہیں ان کو کوئی شخص نہیں جان سکتا اور نہ دل میں ان کا خیال آسکتا ہے، کس لیے کہ اس عالم کا اور ہی حال ہے اسی عالم میں دیکھئے جنہوں نے لندن اور پیرس کے مکانات اور دیگر لوازمات عیش نہیں دیکھے، نہ ان کا نقشہ دیکھا، نہ تفصیلاً حال سنا اور اس پر یہ شخص کسی گائوں کا رہنے والا بھی ہو کہ جہاں چھپر اور کھپریل کے سوا اور کچھ نہ ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ جزئیات تفصیلاً اس کے خیال میں نہیں آسکتے ہیں باوجودے کہ اس سے وہاں کے اجمالی حالات بھی بیان کئے جاویں (کہ وہاں عمدہ عمدہ کمرے اور نفیس نفیس بلور و شیشے کے آلات و ظروف اور نہایت خوبصورت خدام اور نہایت عمدہ کھانے ہیں) مگر تب بھی باعتبار علم تفصیلی کے اس پر یہ صادق آتا ہے کہ اس نے نہ ان چیزوں کو آنکھوں سے دیکھا ہے نہ کانوں سے سنا ہے نہ اس کے دل میں ان چیزوں کا خیال گزرا ہے۔ الغرض اجمالاً علم ہونا اور تفصیلاً اس علم کا سلب کرنا کچھ منافات نہیں رکھتا، جس نے ایسا غوجی بھی پڑھی ہوگی یہ تو وہ بھی جانتا ہوگا کہ تناقض میں اتحاد جہت شرط ہے۔ پس جنت میں حور اور باغ اور دیگر (3) اگر بہ فرض محال علم اور ادراک کا انحصار حواس خمسہ ہی پر تسلیم کیا جاوے تو بندہ کے قصور سے خداوند تعالیٰ قادر میں کیوں عجز لازم آیا کہ جو اس کو جنت کا بتلانا محال بلکہ محال سے بھی بڑھ کر ہوگیا، باوجودیکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ نے بلکہ آپ نے بیان کردیا، اب عام ہے کہ حقیقت جنت کو علم بالکنہ ہو یا بکنہ ہو بالوجہ ہو یا بوجہ ہو۔ (4) آپ کے نزدیک جنت اس راحت کا نام ہے کہ جس کو موسیٰ (علیہ السلام) نے ترقی رزق وغیرہ امور دنیا سے تعبیر کیا، جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس عالم میں آرام پانا جنت ہے۔ وذالک فاسدلایقول بہ احد من اہل الکتاب و اہل الاسلام۔ (5) آپ کے بیان سے ثابت ہوا کہ دراصل جنت و دوزخ کچھ نہیں۔ پیغمبر یار فارمروں کو جب لوگوں کو کسی فعل یا اس کے ترک پر آمادہ کرنا منظور ہوتا ہے تو وہ جنت و دوزخ کا اڑتلہ بنا کر بیان کرتے ہیں اور محض بےاصل بات کو (یعنی حور و قصور باغ و انہار کو، یا آگ و طوق کو) شاعروں کی طرح خیالات بندی کرکے دکھلاتے ہیں۔ معاذ اللہ اس سے بڑھ کر کیا الحاد ہوگا، چند روز صبر کیجئے معلوم ہوجائے گا اور بالفرض آپ کا خیال صحیح نکلا تو ہمیں کیا فکر ہے مگر جب آپ کا خیال غلط نکلا تو دیکھئے اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ بہرطور آپ خطرہ میں ہیں نہ ہم۔ خان صاحب کی پھکڑ بازی : کے اقوال یہ ہیں۔ قولہ صفحہ 38، یہ نہ سمجھنا کہ جنت مثل ایک باغ کے پیدا ہوئی ہے۔ اس میں سنگ مر مر اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں، باغ ہیں، شاداب و سرسبز درخت ہیں، دودھ و شراب و شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے۔ ساقی و ساقنیں نہایت خوبصورت چاندی کے کنگن پہنے ہوئے جو ہمارے ہاں کی گھوسنیں پہنتی ہیں، شراب پلا رہی ہیں۔ ایک جنتی ایک حور کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑا ہے۔ ایک نے ران پر سر دھرا ہے۔ ایک چھاتی سے لپٹا رہا ہے۔ ایک نے لب جاں بخش کا بوسہ لیا ہے۔ کوئی کسی کونا میں کچھ کر رہا ہے۔ ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے۔ اگر بہشت یہی ہے تو بےمبالغہ ہمارے خرابات اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ ہمارے علماء اسلام نے الخ بسبب اپنی رقت قلبی کے الخ یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جو امر الفاظ سے مستفاد ہوتا ہے اسے تسلیم کرلیں۔ الخ اس واسطے وہ بزرگ تمام ان چیزوں کو تسلیم کرتے ہیں کہ جن کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرسکتا اور جو عقل و مذہب کی بزرگی اور تقدیس کے برخلاف ہیں۔ و قال صفحہ 40 اور ایک کوڑھ مغز ملاّ یا شہوت پرست زاہدیہ سمجھتا ہے کہ درحقیقت بہشت میں نہایت خوبصورت ان گنت حوریں ملیں گی، شرابیں پیویں گے، میوے کھائیں گے۔ الخ
Top