Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 142
وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ
وَوَرِثَ : اور وارث ہوا سُلَيْمٰنُ : سلیمان دَاوٗدَ : داود وَقَالَ : اور اس نے کہا يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو عُلِّمْنَا : مجھے سکھائی گئی مَنْطِقَ : بولی الطَّيْرِ : پرندے (جمع) وَاُوْتِيْنَا : اور ہمیں دی گئی مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَهُوَ : البتہ وہی الْفَضْلُ : فضل الْمُبِيْنُ : کھلا
اور داوٴدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا20۔ اور اس نے کہا”لوگو، ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں21 اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں22، بے شک یہ (اللہ کا)نمایاں فضل ہے۔“
سورة النمل 20 وراثت سے مراد یہاں مال و جائداد کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور خلافت میں حضرت داؤد کی جانشینی ہے، مال و جائداد کی میراث اگر بالفرض منتقل ہوئی بھی ہو تو وہ تنہا حضرت سلیمان ہی کی طرف منتقل نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ حضرت داؤد کی دوسری اولاد بھی موجود تھی، اس لیے اس آیت کو اس حدیث کی تردید میں پیش نہیں کیا جاسکتا جو نبی ﷺ سے مروی ہے کہ لا نورث ما ترکنا صدقۃ، " ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی، جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے "۔ (بخاری، کتاب فرض الخمس) اور ان النبی لا یورث انما میراثہ فی فقراء المسلمین والمساکین " نبی کا وارث کوئی نہیں ہوتا، جو کچھ وہ چھوڑتا ہے وہ مسلمانوں کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے " (مسند احمد، مرویات ابوبکر صدیق، حدیث نمبر 60 و 78۔ حضرت سلیمان ؑ حضرت داؤد کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے، ان کا اصل عبرانی نام سولومون تھا جو سلیم کا ہم معنی ہے۔ 965 قبل مسیح میں حضرت داؤد کے جانشین ہونے اور 926 ق م تک تقریبا چالیس سال فرمانروا رہے۔ ان کے حالات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن جلد دو ، الحجر، حاشیہ 7، جلد سوم، الانبیاء حواشی 75، 74، ان کے حدود سلطنت کے متعلق ہمارے مفسرین نے بہت مبالغہ سے کام لیا ہے، وہ انہیں دنیا کے بہت بڑے حصے کا حکمراں بتاتے ہیں، حالانکہ ان کی مملکت صرف موجودہ فلسطین و شرق اردن پر مشتمل تھی اور شام کا ایک حصۃ بھی اس میں شامل تھا، (ملاحظہ ہو نقشہ ملک سلیمان، تفہیم القرآن جلدو دوم ص 598) سورة النمل 21 بائیبل اس ذکر سے خالی ہے کہ حضرت سلیمان کو پرندوں اور جانوروں کی بولیوں کا علم دیا گیا تھا، لیکن بنی اسرائیل کی روایات سے اس کی صراحت موجود ہے (جیوش انسائیکلوپیڈیا، جلد 11، ص 439) سورة النمل 22 یعنی اللہ کا دیا ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے، اس بات کو لفظی معنوں میں لینا درست نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اللہ کے بخشے ہوئے مال و دولت اور سازو سامان کی کثرت ہے، یہ بات حضرت سلمان نے فخریہ نہیں فرمائی تھی بلکہ اللہ کے فضل اور اس کی عطا و بخشش کا شکریہ ادا کرنا مقصود تھا۔
Top