Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 16
وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ
وَوَرِثَ : اور وارث ہوا سُلَيْمٰنُ : سلیمان دَاوٗدَ : داود وَقَالَ : اور اس نے کہا يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو عُلِّمْنَا : مجھے سکھائی گئی مَنْطِقَ : بولی الطَّيْرِ : پرندے (جمع) وَاُوْتِيْنَا : اور ہمیں دی گئی مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَهُوَ : البتہ وہی الْفَضْلُ : فضل الْمُبِيْنُ : کھلا
اور دائود کا وارث سلیمان ہوا اور اس نے کہا اے لوگو، ہمیں پرندوں کی بولی کا علم بھی عطا ہوا ہے اور دوسرے بھی سب چیزیں ہمیں بخشی گئی ہیں۔ بیشک یہ نہایت ہی کھلا ہوا فضل ہے
حضرت سلیمان کی فضائی فوج یعنی حضرت دائود کے اس حضرت سلیمان ان کے واثر ہوئے۔ جیسا نامور باپ تھا اس سے بڑھ کر نامور بیٹا ہوا۔ سورة انبیاء میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ حضرت سلیمان نے اپنی بری فوج کے ساتھ ساتھ اپنی بحری طاقت کو بڑی ترقی دی۔ ان کا بحری بیڑا دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور بیڑا ھتا۔ اس آیت سے اور آگے کی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ان کو پرندوں کی بولی کا بھی خاص علم عطا ہوا تھا اور ان کی تربیت کر کے وہ اپنی فوج میں ان سے نامہ بری، خبر رسانی اور سراغ رسانی کا کام نہایت اعلیٰ پیمانہ پر لیتے تھے اور اس طرح انہوں نے گویا اپنی ایک فضائی فوج بھی مرتب کرلی تھی۔ لیکن یہ سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود انہوں نے تنگ ظرفوں کی طرح یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں اب ایک ناقابل تسخیر طاقت بن گیا ہوں بلکہ آیت کا سیاق صاف اس بات کی دلیل ہے کہ جب انکی فوجی قوت میں یہ شاندار اضافہ ہوا ہے تو بجائے اس پرف خر کرنے کے انہوں نے اپنی قوم کو پیہ پیغا مدیا کہ لوگو ہمیں پرندوں کی بولی کا علم بھی حاصل ہوگیا ہے اور دوسرے اسباب و وسائل بھی، جو ترقی کے لئے ضروری ہیں، ہمیں حاصل ہیں تو یہ ہمارے اوپر خدا کا کھلا ہو افضل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کے اس کھلے ہوئے فضل کا حقیہ ہے کہ ہم اس کے زیادہ سے زیادہ شکر گزار اور اس کے سب سے بڑھ کر اطاعت گزار بنیں۔ تورات میں اگرچہ حضرت سلیمان کو ایک بالکل دنیا دار بادشاہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے بلکہ ان کی طرف نعوذ باللہ شرک و بت پرستی کی نسبت بھی کی گی ہے لیکن کتاب سلاطین میں یہ تصریح موجود ہے کہ انہوں نے اپنی عظمت و شوکت کو برابر اللہ تعالیٰ کا فضل قرار دیا اور اپنی قوم کو بھی اس فضل و نعمت پر خدا ہی کا شکر گزار رہنے کی تاکید فرمائی۔ منطق الطیر کا علم علمنا منطق الطیر سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ پرندوں کے اندر بھی نطق و ادراک ہے اور حضرت سلیمان کو ان کے نطق کا خاص علم عطا ہوا تھا اگر ہم ان کے نطق کو نہیں سمجھتے تو ہمارا نہ سمجھنا اس کی نفی کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن میں صاف تصریح ہے کہ کائنات کی ہر چیز خدا کی تسبیح کرتی ہے لیکن ہم اس کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ اسی طرح قرآن میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ جتنے بھی چرند پرند ہیں سب ہماری ہی طرح الگ الگ امتیں ہیں۔ سورة نحل کی تفسیر میں ہم قرآن کے اس ارشاد کے مضمرات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں۔ حضرت سلیمان کو تو پرندوں کی بولی کا خاص علم عطا ہوا تھا جن کو یہ علم نہیں ملا ہے وہ بھی یہ جانتے ہیں کو جتنے بھی حیوانات ہیں سب اپنی نفرت، محبت، عتاب، التفات، خوشی، غم، فکر مندی، طمانیت، استمالت، ملاعبت اور اپنے دوسرے جذبات کی تعبیر کے لئے الگ الگ بولیاں بھی اختیار کرتے ہیں اور ان کے اظہار کے لئے ان کی بولیاں ہوتی ہیں۔ جو لوگ کسی مقصد خاص کے لئے ان جانوروں کی تربیت کرتے ہیں وہ ان کی آوازوں اور اشارات کو اسی طرح سرجھتے ہیں جس طرح اپنے ہم جنسوں کی بولی اور ان کے اشارات کو سمجھتے ہیں۔ پھر ان سے بھی زیادہ ان لوگوں کا علم ہے جنہوں نے سائنٹیفک طریقے پر ان حیوانات کا تجربہ و مشاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے علمی تجربہ و مشاہد ہ سے جو معلومات فراہم کی ہیں ان کو پڑھیے تو انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ بڑے جانورت و درکنار ننھی سی چیونٹی کے انر بھی قدرت نے جو دانش و بینش جو زیر کی دہوشیاری اور فہم و فراست ودیعت فرمائی ہے وہ ایسی ہے کہ اس سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ آج کتوں سے سراغ رسانی اور جاسوسی کے سلسلے میں جو کام لئے جا رہے ہیں کیا وہ کم حیرت انگیز ہیں ! جب انسان اپنے تجربات اور پانی تجرباتی سائنس کے ذریعے سے جانوروں کے اتنے اسرار دریفات کرسکتا ہے اور ان سے یہ کچھ کام لے سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اگر حضرت سلیمان کو پرندوں کی بولی کا خاصعلم دے دیا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ! یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ بولی درحقیقت آوازوں ہی کی ترکیب و تالیف سیوجود میں آتی ہے۔ جو چیزیں ادراک و شعور اور جذبات رکھتی ہیں وہ اپنے ادراک و شعور اور جذبات کی تعبیر کے لئے مختلف قسم کی آوازیں نکالتی ہیں اور انہی کی تالیف و ترکیب سے بولی وجود میں آتی ہے۔ اشارات بھی اسی میں داخل ہیں ان کو غیر ناطق زبان سمجھیے۔
Top