Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 16
وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ
وَوَرِثَ : اور وارث ہوا سُلَيْمٰنُ : سلیمان دَاوٗدَ : داود وَقَالَ : اور اس نے کہا يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو عُلِّمْنَا : مجھے سکھائی گئی مَنْطِقَ : بولی الطَّيْرِ : پرندے (جمع) وَاُوْتِيْنَا : اور ہمیں دی گئی مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَهُوَ : البتہ وہی الْفَضْلُ : فضل الْمُبِيْنُ : کھلا
اور داؤد کے جانشین سلیمان ہوئے،18۔ اور انہوں نے کہا اے لوگو ہم کو پرندون کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہم کو ہر قسم کی چیزیں عطاہوئی ہیں،19۔ بیشک یہ تو کھلا ہوا فضل ہے
18۔ (ملک وسلطنت میں) (آیت) ” ورث “ سے مراد میراث اصطلاحی نہیں، بلکہ معنی مطلق کسی متقدم کے کمالات کے مالک ہوجانے کے ہیں۔ 19۔ (حکومت وسلطنت سے متعلق) (آیت) ” من کل شیء “ مراد کثرت وافراط ہے، اور یہ عام محاورہ زبان ہے۔ اے کثرۃ ما اوتی کما تقول فلان یقصدہ کل احد ترید کثرۃ قصادہ (کشاف) المراد بہ کثرۃ ما اوتی (مدارک) اردو محاورہ میں بھی ایسے موقع پر بولتے ہیں ” اس کو اللہ نے سب ہی کچھ دے رکھا ہے “۔ (آیت) ” اوتینا۔ علمنا “۔ جمع کے صیغے اظہار عظمت کے لیے ہیں، جیسا کہ شاہی محاورہ ہے۔ (آیت) ” ایھا الناس “ اس طریق خطاب سے اشارۃ یہ نکل رہا ہے کہ آپ کو اس انعام الہی کی اشاعت خاص ہی منظور تھی۔ فالمقصود منہ تشھیر عنمۃ اللہ تعالیٰ والتنویہ بھا ودعاء الناس الی التصدیق بذکر المعجزۃ (کبیر) اس جاہ وحشم کا بیان تو ریت میں ان الفاظ میں ہے :” اور سلیمان بادشاہ کے پینے کے سب باسن سونے کے تھے۔ سوسلیمان بادشاہ، دولت اور حکمت کی نسبت زمین کے سب بادشاہوں سے سبقت لے گیا اور سارے جہاں نے سلیمان کی طرف توجہ کی تاکہ اس کی حکمت کو جو خدا نے اس کے دل میں ڈالی تھی سنے۔ اور ان میں سے ہر ایک آدمی اپنا ہدیہ روپے کے باسن اور سونے کے برتن اور پوشاکیں اور سلاح اور خوشبوئیاں اور گھوڑے اور خچر جتنے ہر ایک سال کے لیے ٹھہرائے ہوئے تھے۔ اس کے آگے گزرانتے تھے۔ اور سلیمان نے گاڑیاں اور سوار بہت سے جمع کیے۔ اس کی ایک ہزار چار سوگاڑیاں تھیں اور بارہ ہزار سوار “ (1۔ سلاطین۔ 10۔ 21۔ 26) نیز ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن کا حاشیہ۔
Top