Tafseer-e-Baghwi - An-Naml : 16
وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ
وَوَرِثَ : اور وارث ہوا سُلَيْمٰنُ : سلیمان دَاوٗدَ : داود وَقَالَ : اور اس نے کہا يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو عُلِّمْنَا : مجھے سکھائی گئی مَنْطِقَ : بولی الطَّيْرِ : پرندے (جمع) وَاُوْتِيْنَا : اور ہمیں دی گئی مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَهُوَ : البتہ وہی الْفَضْلُ : فضل الْمُبِيْنُ : کھلا
اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے اور کہنے لگے کہ لوگو ! ہمیں (خدا کی طرف سے) جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہر چیز عطا فرمائی گئی ہے بیشک یہ اسکا صریح فضل ہے
16۔ وورث سلیمان داوڈ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نبوت علم و حکمت اور حکومت کے وارث ہوئے دوسرے بھائیوں میں سے کوئی اس چیز کا وارث نہیں تھا، حضرت داود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے اور حضرت سلیمان کو وہی عطا کیا گیا جو حضرت داود (علیہ السلام) کودیاگیا حکومت میں سے۔ اس کے علاوہ حضرت سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا گیا اور شیاطین کو بھ مسخر کردیا گیا، مقاتل کا بیان ہے کہ حضرت سلیمان کا ملک بڑا تھا ارحضرت داؤد (علیہ السلام) مین سلیمان کی نسبت سے قوت فیصلہ بڑی تھی۔ اور آپ عبادت گزار زیادہ تھے اور حضرت سلیمان اللہ کی نعمتوں کے شکرگزار بہت تھے۔ وقال یا ایھا الناس علمنا منطق الطیر، پرندوں کی آواز کو بھی نطق سے موسوم کیا کیون کہ حضرت سلیمان ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے جیسا کہ لوگوں کی باتوں کو وہ سمجھتے تھے۔ پرندوں کی زبان۔ حضرت کعب نے فرمایا، حضرت سلیمان کے پاس جنگلی کبوتر نے آواز نکالی تو آپ نے پوچھا کیا تم کو معلوم ہے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے حاضرین نے کہا نہیں فرمایا یہ کہہ رہا ہے مرنے کے لیے جنو اورویران ہونے کے لیے عمارتیں بناؤ ۔ فاختہ چیخی تو آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہی ہے حاضرین نے کہا نہیں، فرمایا یہ کہہ رہی ہے کہ کاش یہ مخلوق پیدا نہ کی جاتی۔ مورچیخا، آپ نے پوچھا جانتے یہ کیا کہہ رہا ہے حاضرین نے کہا نہیں، فرمایا یہ کہہ رہا ہے جیسا دوسروں سے معاملہ کرو گے ویسا ہی تم سے کیا جائے گا، ہدہد بولاتوپوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے تمہیں معلوم ہے حاضرین نے جواب دیا نہیں فرمایا یہ کہہ رہا ہے جو رحم نہیں کرے گا، اس پر رحم نہیں کیا جائے گا، صرد، (لٹورا) نے آواز دی پوچھا تم جانتے ہو یہ کیا کہہ رہا ہے حاضرین نے جواب دیا نہیں، فرمایا کہہ رہی ہے کہ گناہ گارا اللہ سے معافی مانگو، خطاف چیخا تو پوچھا کیا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہا ہے حاضرین نے کہا نہیں فرمایا یہ کہہ رہا ہے پہلے سے نیکی بھیجو وہاں تم کو مل جائے گی۔ مکحول نے کہا،: سلیمان (علیہ السلام) کے پاس ایک تیتر چیخا، آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہا ہے لوگوں نے کہا کہ نہیں فرمایا یہ کہہ رہا ہے ، الرحمن علی العرش الستوی، فرقد صبحی کا بیان ہے کہ ایک بلبل درخت پر بیٹھا سرہلارہا تھا دم نیچے کو جھکارہا تا، اور بول رہا حضرت سلیمان کا ادھر سے گزر ہوا فرمایا جانتے ہو یہ بلبل کیا کہہ رہی ہے۔ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا نبی ہی خوب واقف ہیں۔ فرمایا یہ کہہ رہا ہے کہ میں نے آدھا چھوہاراکھالیا پس دنیا پر لازم ہے کہ اس کو بڑھا کر پورا کردے۔ روایت میں آیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا ہم سات چیزوں کے متعلق آپ سے دریافت کریں گے اگر آپ بتادیں توہم مسلمان ہوجائیں گے اور آپ کی تصدیق کریں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے فرمایا، سمجھنے کے لیے پوچھ سکتے ہو، ضد کے لیے نہیں پوچھ سکتے۔ یہودیوں نے پوچھا کہ بتائیے چنڈول اپنے گانے میں کیا کہتا ہے اور مینڈک اپنی ٹرٹر میں کیا کہتا ہے اور مرغ اپنی بانگ میں کیا کہتا ہے اور گدھا اپنے رینگنے کے وقت میں کیا کہتا ہے اور گھوڑا اپنی ہنہناہٹ میں کیا کہتا ہے اور زرزورا اور تیتر کیا کہتے ہیں۔ ؟ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے فرمایا، چنڈول کہتا ہے ، اے اللہ محمد ﷺ اور آل محمد سے بغض رکھنے والوں پر لعنت کر اورمرغ کہتا ہے ، غافلوا، اللہ کی یاد کرو، اور مینڈک کہتا ہے پاک ہے وہ معبود جس کی عبادت سمندروں کے کھنڈرات میں بھی جاتی ہے اور گدھا کہتا ہے اے اللہ عشر وصول کرنے والے پر لعنت کر۔ گھوڑا جب معرکہ میں صفوں کے مقابلہ میں ہوتا ہے تو کہتا ہے ، سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح، پاک، اور مقدس ہے ملائکہ اور جبرائیل کا رب۔ زرزور کہتا ہے اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ ہر روز کی روزی اسی روز عطا فرماا اور تیتر کہتا ہے ، الرحمن علی العرش الستوی، یہودی یہ جواب سن کر مسلمان ہوگئے اور ان کا اسلام اچھارہا۔ حضرت امام جعفر صادق نے اپنے والد کی وساطت سے اپنے دادا حضرت امام حسین کا قول نقل کیا ہے کہ جب گدھ چلاتا ہے تو کہتا ہے اے آدم کے بیٹے۔ جی لے جب تک چاہے آخر موت ہے۔ عقاب چیختا ہے تو کہتا ہے لوگوں سے دور رہنے میں سلامتی ہے اور چنڈول چیختا ہے تو کہتا ہے اے اللہ آل محمد سے بغض رکھنے والوں پر لعنت بھیج اور خطاف چلاتا ہے تو کہتا ہے ، الحمدللہ ربالعالمین، اور الضالین، کو ایسا کھینچتا ہے جیسے قاری کھینچتا ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں کہ جانوروں کی آوازوں کی جو تشریح حضرت کعب سے منقول ہے اور جو تفصیل مکحول اور فرقد کے اقوال میں آئی ہے اس سب کا تعلق ممکن ہے کسی ہنگامی آواز سے ہو۔ (حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے کسی وقت جانور اس طرح بولے ہوں) اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ جانور جب بھی بولتے ہیں تویہی کلمات کہتے ہیں۔ اللہ نے اس سورت میں جو ہدہد اور چیونٹی کا کلام نقل کیا ہے اس کا تعلق تو پیش آمدہ واقعہ کے ساتھ تھا ہی البتہ یہودیوں کے سوال کے جواب میں جو کچھ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے فرمایا وہ بیشک بتارہا ہے کہ یہ جانور ہمیشہ یہی الفاظ کہتے ہیں۔ اگر یہ روایت پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو اس کی تاویل کرنا ضروری ہوگی۔ ” واوتینا من کل شی، انبیاء کرام اور بادشاہوں کو عطا کیں۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے فرمایا کہ کل شی سے دنیا اور آخرت سے تعلق رکھنے والی ہرچیز مراد ہے۔ مقاتل کا قول ہے کہ نبوت اور حکومت اور شیاطین وہوا کی تسخیر مراد ہے۔ ان ھذالھوالفضل المبین، وہ ظاہری زیادتی جوان کے علاوہ کسی اور کو نہیں عطا کیا۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت سلیمان نے ساری روئے زمین پر سات سوبرس اور چھ ماہ تمام جن وانس اور پرندوں اور چرندوں اور درندوں پر حکومت کی اور ہرچیز کی بولی اللہ نے ان کو سکھا دی تھی اور انہی کے زمانہ میں عجیب عجیب صنعتوں کی ایجاد ہوئی۔
Top