Dure-Mansoor - An-Naml : 16
وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ
وَوَرِثَ : اور وارث ہوا سُلَيْمٰنُ : سلیمان دَاوٗدَ : داود وَقَالَ : اور اس نے کہا يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو عُلِّمْنَا : مجھے سکھائی گئی مَنْطِقَ : بولی الطَّيْرِ : پرندے (جمع) وَاُوْتِيْنَا : اور ہمیں دی گئی مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَهُوَ : البتہ وہی الْفَضْلُ : فضل الْمُبِيْنُ : کھلا
اور سلیمان، داوٗد کے وارث ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز دی گئی ہے، بلاشبہ یہ کھلا ہوا فضل ہے
1۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” حضرت سلیمن داوٗد “ سے مراد ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) وارث بنے ان کی نبوت کے ان کے ملک کے اور ان کے علم کے۔ 2۔ ابن ابی حاتم نے اوزاعی (رح) سے روایت کیا کہ ہمارے نزدیک الناس سے مراد ہے اہل علم 3۔ ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ میں عمر بن خطاب ؓ کے پاس تھا ہم پر کعب الحبر داخل ہوئے اور کہا اے امیر المومنین ! کیا میں آپ کو بہت ہی عجیب چیز کے بارے میں بتاؤں جو میں نے کتاب الانبیاء میں پڑھی کہ ایک چھوٹا کیڑا سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے نبی آپ پر سلام ہو انہوں نے فرمایا اے ام ! تجھ پر بھی سلام ہو مجھ کو بتا تو کھیتی کیوں نہیں کھاتا ! اس نے کہا اے اللہ کے نبی کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی اس وجہ سے سلام ہو مجھ کو بتا تو کھیتی کیوں نہیں کھاتا ! اس نے کہا اے اللہ کے نبی کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی اس وجہ سے میں اس کو نہیں کھاتا پھر پوچھاتو پانی کیوں نہیں پیتا اس نے کہا اے اللہ کے نبی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کو پانی میں غرق کردیا اس وجہ سے میں نے اس کا پینا چھوڑدیا پھر پوچاھ تو نے آبادی کو کیوں چھوڑدیا اور ویران جگہ پر رہنے لگا تو اس نے کہا ویران جگہیں اللہ کی میراث ہیں اور میں اللہ کی میراث میں رہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی کتاب میں فرمایا آیت ” وکم اہلکنا من قریۃ بطرت معیشتہا “ سے لے کر آیت ” وکنا نحن الوارثین “ تک۔ 4۔ ابن ابی شیبہ واحمد فی الزہد وابن ابی حاتم ابو صدیق ناجی (رح) سیر وایت کیا کہ سلیمان بن داوٗد (علیہما السلام) لوگوں کے لایے بارش کو طلب کرنے باہر نکلے ایک چیونٹی کے پاس سے گزرے جو اپنی گدی پر چت لیٹی ہوئی اپنی ٹانگوں کو آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے یہ کہہ رہی تھی۔ اے اللہ ! میں تیری مخلوق میں سے ایک مخلوق ہوں اور تیرے رزق کے بغیر ہم کو غنا نہیں (یعنی ہم کو کھانے پینے کی ضرورت ہے) یا تو ہم کو پانی پلایا ہم کو ہلاک کر (یہ سن کر) سلیمان (علیہ السلام) نے لوگوں سے کہا واپس لوٹ جاؤ تم اپنے علاوہ دوسری مخلوق کی دعا کے بدلے میں پانی پلائے گاؤ گے۔ داوٗد (علیہ السلام) جانور کے درمیان بھی فیصلے فرماتے تھے۔ 5۔ ابن ابی حاتم نے ابو درداء رجی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ داوٗد (علیہ السلام) ایک دنجانوروں کے درمیان فیصلہ فرماتے تھے اور ایک دن لوگوں کے درمیان ایک گائے آئی اور اس نے اپنا سینگ دروازے کے حلقے میں رکھ دیا پھ ریوں لوریاں دینے لگی جیسے والدہ اپنے بچے کو لوریان دیتی ہے۔ اور کہنے لگی میں جوان تھی وہ مجھ سے بچے جنواتے اور مجھ سے کام لیتے تھے پھر جب میں بوڑھی ہوگئی تو انہوں نے مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کرلیا۔ داوٗد (علیہ السلام) نے اس کے مالک سے فرمایا اس سے اچھا برتاؤ کرو اور اس کو ذبح نہ کرو۔ پھر یہ آیت پڑھی آیت ” علمنا منطق الطیر واوتینا من کل شیء “ 6۔ الحاکم فی المستدر جعفر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کو زمین کے مشارق اور اس کے مغارب کی بادشاہی دی گئی سلیمان (علیہ السلام) سات سو سال اور چھ ماہ بادشاہ رہے آپ دنیا کی تمام چیزوں جنات، انسان، جانور، پرندے اور درندوں کے بادشاہ رہے آپ کو ہر چیز اور شے کی زبان سکھائی گئی اور آپ کے زمانے میں عجیب و غریب کام کیے گئے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو موت دینے کا ارادہ فرمایا تو ان کی طرف وحی بھیجی کہ اللہ کا علم اور اس کی حکمت اپنے بھائی کو دے دو اور داوئد (علیہ السلام) کی اولاد میں چار سو اسی افراد انبیاء ہوئے ان میں کوئی رسول نہ تھا۔ ذہبی نے کہا یہ حدیث جھوٹی ہے۔ 7۔ الحاکم نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر سو فرسخ تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں پچیس فرسخ انسانوں کے لیے اور پچیس فرسخ جنات کے لیے اور پچیس فرسخ وحشی جانوروں کے لیے اور پچیس فرسخ پرندوں کے لیے تھے اور ان کے لیے ایک ہزار شیشے کے گھر تھے لکڑی پر اس میں تین سو صریحہ اور سات سو پلنگ تھے اور آپ تیز ہوا کو حکم فرماتے تو وہ ان سب کو اوپر اٹھالیتی تھی آپ ہوا کو حکم فرماتے تو وہ ان کو لے کر چل پڑتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وھی بھیجی بلاشبہ میں نے تیرے ملک میں اضافہ کردیا ہے کوئی آدمی کوئی بات نہیں کرے گا۔ مگر ہوا آئے گی اور تجھ کو خبردے گی۔ 8۔ عبداللہ بن احمد فی زوائد الزہد وابن المنذر وہب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان بن داوٗد (علیہ السلام) اپنے ملک میں بنی اسرائیل میں سے ایک کاشتکار پر سے گزرے جبکہ ہوا نے آپ کو اٹھا رکھا تھا پس آدمی نے سلیمان کو دیکھ کر کہا سبحان اللہ کہ آل داوٗد کو بادشاہی عطا کی گئی ہے اس کی آواز کو ہوا نے اٹھایا اور ان کے کانوں میں ڈال دیا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اس آدمی کو میرے پاس لے آؤ۔ اس کو لایا گیا تو آپ نے اس سے پوچھا تو نے کیا کہا ؟ اس نے ان کو بتایا میں نے یوں کہا تھا سلیمان نے فرمایا میں تجھ پر ایک فتنہ کا ڈر رکھتا ہوں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سبحان اللہ کا ثواب اس سے بڑھ کر ہے جو حضرت داوٗد (علیہ السلام) کو عطا کیا گیا کاشت کار نے عرض کیا اللہ تعالیٰ تیرے رنج اور غم کو دور فرمادے جیسے تو نے میرے رنج اور غم کو دور کردیا اور سلیمان (علیہ السلام) سفید رنگت والے بھاری جسم والے گہرے سرخ زرد رنگ والے۔ جہاد کرنے والے تھے کسی بادشاہ کا سنتے تھے تو اس کے پاس آکر اس سے جنگ کرتے اور اپنے زیر نگیں کرلیتے آپ جنات کو حکم فرماتے تھے تو وہ آپ کے لیے شیشے کا گھر بناتے اور آپ جنگی آلات جو چاہتے اس میں رکھتے پھر وہ تیز ہوا کو حکم فرمایا تو وہ اس مکان کو زمین سے اٹھالیتی پھر آپ ہلکی ہوا کو حکم فرماتے تو وہ آگے آگے رہتی جہاں آپ جاتے۔ 9۔ ابن المنذر نے یحییٰ بن کثیر (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان بن داوٗد (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے فرمایا کیا میں تم کو آج کے دن اپنے مالک کا بعض حصہ نہ دکھاؤ بنی اسرائیل نے کہا کیوں نہیں۔ اے ہوا ہم کو اوپر اٹھا ان کو ہوا نے اوپر اٹھا لیا اور ان کو آسمان و زمین کے درمیان رکھ دیا پھر فرایا اے پرندوں ہم کو سایہ کردو۔ تو پرندوں نے ایسا اپنے پروں کے ساتھ سایہ کردیا۔ کہ وہ سورج کو نہیں دیکھتے تھ فرمایا اے بنی اسرائیل کونسا ملک تم نے دیکھا ہے۔ انہوں نے ہم نے بڑا ملک دیکھا ہے فرمایا ” لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الھمد، وہو علی کل شیء قدیر “ میرے اس ملک سے اور دنیا ومافیہا سے بہتر ہے فرمایا اے بنی اسرائیل جو شخص ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر دونوں حالتوں مالداری اور فقر دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرتا ہے عدل کرتا ہے۔ ناراضگی اور رضامندی کی حالت میں اور ہر حال میں اللہ کو یاد کرتا ہے تو اس کو بھی ایسی بادشاہت عطا کی جائے گی جیسے مجھے بادشاہت عطا کی گئی۔
Top